رمضان اور بچے

915

خدیجہ بنتِ عزمی
رمضان کی آمد آمد تھی۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر کوئی رمضان کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ رمیض اور اس کے ساتھیوں نے اس دفعہ رمضان کی تیاریوں میں بھرپور حصہ لینے کا عزم کیا۔ وہ سب نویں جماعت کے طالبعلم تھے۔ وہ سب سوچ رہے تھے کہ آخر ہم رمضان کے لیے کیا تیاری کریں؟ اس لیے وہ سب فارغ پریڈ میں سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔
کوئی کچھ کہہ رہا تھا، تو کوئی کچھ، اسی اثناء میں اشعر یک دم جوش میں آکر بولا۔
’’میں اس دفعہ سب کی اپنے گھر پر دعوت کروں‘‘۔
سب نے اس کی بات پر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور زور دار قہقہہ لگایا۔
’’تم… تم! سب کی دعوت کیسے کرو گے؟؟ کیا قارون کا خزانہ تمہارے ہاتھ لگ گیا ہے؟ اپنے کھانے کے لیے تو تمہارے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے‘‘ معیز جو اس جماعت کا شرارتی بچہ تھا بولا، معیز کی بات پر رمیض کے علاوہ سب نے قہقہہ لگایا۔
اشعر معیز کی بات پر دل مسوس کر رہ گیا۔ اشعر کے والد کی وفات کے بعد محلے کے کچھ لوگوں نے عہد کیا تھا کہ وہ ان کی ہر مشکل میں مدد کریں گے۔ اشعر اس مہنگے اسکول میں کچھ اپنی ذہانت اور کچھ محلے کے لوگوں اور پرنسپل کے تعاون کے باعث پڑھ رہا تھا۔ ورنہ اس کی والدہ کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ اسے اتنے مہنگے اسکول میں پڑھا پاتیں۔
گھر آکر اشعر نے اپنی امی کے پوچھنے پر جب اپنی پریشانی والدہ کو بتائی تو انہوں نے اسے صبر کرنے اور دوسروں کو معاف کردینے کی تلقین کی۔ جس سے وہ مطمئن ہوگیا۔ رمیض عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر اپنی دادی کے بستر پر ہی نیم دراز ہوگیا کیونکہ وہ آج اپنی دادی سے اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا۔
’’تو چھوٹے جناب کہانی سنانا شروع کی جائے‘‘۔ دادی نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں دادی آج مجھے کہانی نہیں سننی‘‘۔ وہ بولا۔
’’کیوں بھئی؟ کیا بات ہے؟؟؟… دادی نے حیرانی سے پوچھا۔
’’دادی جان! ہر کوئی رمضان کی تیاریوں میں مصروف ہے، ہم سب دوستوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس دفعہ ہم بھی رمضان کی تیاریوں میں حصہ لیں۔ لیکن ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہم کیا تیاری کریں‘‘۔ اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔
’’ارے بس! اتنی سی بات… یہ بھی کوئی مشکل بات ہے۔ میں بتاتی ہوں آپ لوگوں کو اس رمضان میں کیا کرنا چاہیے‘‘۔ دادی بولی۔
’’سچ دادی جان! بتائیں نا ہم کیا کریں‘‘۔ رمیض بے تابی سے بولا۔
’’چونکہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے اس لیے تمہیں اور تمہارے دوستوں کو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ یہی سب سے بڑا کام ہے‘‘۔ دادی نے کہا۔
’’وہ کیسے دادی جان! رمیض جلدی سے بولا۔
’’مثلاً آپ لوگوں کو چاہیے کہ اس رمضان میں خود سے عہد کرو کہ پانچ وقت کی نماز پڑھو گے، جھوٹ نہیں بولو گے، کسی کا دل نہیں دکھائو گے، والدین کا حکم مانو گے، اور کسی کی بھی غیبت اور چغلی سے پرہیز کرو گے، اور سب سے اہم بات حقوق اللہ اور حقوق العباد کو احسن طریقے سے پورا کرو گے‘‘۔
’’دادی حقوق العباد کیا ہوتا ہے‘‘۔ رمیض نے دادی کے خاموش ہونے کے بعد سوال کیا۔
’’میرے چاند! حقوق العباد سے مراد لوگوں کے حقوق، چاہے وہ رشتہ دار ہوں، ہمسایے ہوں، مسافر ہوں یا کوئی اور انسان کسی کے ساتھ برا نہ کرنا، ہر کسی سے بھلائی سے پیش آنا، کسی کی غریبی کا مذاق نہ اُڑانا، مشکل وقت میں لوگوں کا ساتھ نبھانا وغیرہ حقوق العباد ہیں‘‘۔
دادی تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئیں اور پھر گویا ہوئیں۔
’’اور جانتے ہو رمیض! اللہ نے اپنے حقوق سے زیادہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے پر زور دیا ہے‘‘۔ دادی نے رمیض کو گہری سوچ میں ڈوبا پایا تو پوچھا ’’کیا ہوا بیٹا…؟؟؟‘‘
رمیض نے صبح اشعر کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے رویے کو بیان کیا۔ جس پر دادی بہت ناراض ہوئیں اور رمیض کو کہا۔
’’جانتے ہو بیٹا غلط بات پر خاموش رہنے والا خود بہت بڑا گناہ گار ہوتا ہے، تمہیں سب کو منع کرنا چاہیے تھا اور جو میں نے تمہیں حقوق العباد بتائے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ کسی کا دل نہ دکھایا جائے‘‘۔
’’جی دادی جان میں شرمندہ ہوں‘‘۔ اور اب اس کی تلافی کرنا چاہتا ہوں۔
ہمیں رمضان کا آغاز غلط باتوں سے نہیں کرنا چاہیے، وہ بولا ’’ٹھیک ہے پھر!! کل پہلا روزہ ہے۔ اور میرے پاس اشعر کو منانے کا بہترین آئیڈیا ہے‘‘۔ وہ بولیں۔
’’سچ دادی جان! وہ خوش ہوا‘‘۔
ان سب دوستوں نے دادی کے ساتھ ان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کا عہد کیا اور ان کے آئیڈیا پر بھی عمل کیا۔
سب نے اپنی اپنی پسند کے کھانے بنوائے اور اپنی ڈشز لے کر اشعر کے گھر کے باہر کھڑے ہوگئے۔ رمیض نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
اشعر نے دروازہ کھولا اور اپنے تمام دوستوں کو گھر کے باہر دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ تبھی معیز نے بات شروع کی۔
’’اشعر ہمیں معاف کردو‘ ہم بہت شرمندہ ہیں، اس لیے ہم نے سوچا پہلی افطاری تمہارے ساتھ کی جائے‘‘۔ معیز نے اپنی شرمندگی چھپاتے ہوئے کہا۔
’’کوئی بات نہیں۔ میں آپ لوگوں سے ناراض نہیں ہوں‘‘ وہ خوش ہو کر بولا۔
’’لیکن میں نے اس دعوت کے لیے کوئی تیاری نہیں کی۔ وہ پریشان ہوا۔
’’ارے ہم کھجور اور شربت لانا تو بھول ہی گئے، رمیض یک دم یاد آنے پر بولا۔ ان سب دوستوں نے سوچا تھا کہ وہ اشعر کو زیادہ پریشان نہیں کریں گے اس لیے ہر دو چیزیں اس کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
’’ارے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، امی نے بہت مزے کا شربت بنایا ہے اور کھجور بھی ہیں آئو سب مل کر روزہ افطار کریں‘‘۔ اشعر بہت خوش تھا کہ اس کے پاس بھی اس دعوت کے لیے کچھ ہے۔
اشعر کی امی بچوں کی آمد پر بہت خوش ہوئیں۔ سب نے اپنی اپنی ڈشز دستر خوان پر سجائی اور اللہ سے اپنے اچھے اور نیک عمل کرنے کی دعا کی اور مل کر ہر قسم کا فرق مٹا کر روزہ افطار کیا۔ سب نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے برے وقت ان سب کو صحیح راستہ دکھادیا اور خود سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی وجہ سے کبھی کسی کو پریشان نہیں کریں گے۔

حصہ