روزہ دار کا عظیم مقام
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی حضرت ابو امامہؓ کو روزے کی فضیلت بتاتے ہوئے فرمایا کہ روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی دوسرا عمل نہیں ہوسکتا (بروایت نسائی)۔ایک اور حدیثِ قدسی میں، جو متفق علیہ ہے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے:’’آدمی کے ہر اچھے عمل کا بدلہ دس سے ستّر گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے مگر روزے کا معاملہ الگ ہے۔ وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ بندے نے میری رضا کی خاطر اپنی خواہشات اور کھانے پینے کا عمل چھوڑ دیا، روزے دار کو دو مسرتوں کی بشارت ہے، ایک وہ جو روزہ کھلنے کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے، اور دوسری اسے اُس روز ملے گی، جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ روزے دار کے منہ سے آنے والی بو اور بساند خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی محبوب تر ہے اور روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو وہ بے حیائی کے ہر کام، شور و غل اور ہنگامہ آرائی سے مجتنب رہے۔ اگر کوئی اس کو گالی گلوچ بھی دے یا لڑائی جھگڑا کرنے لگے تو وہ جواب میںکہے ’’اَنَا صَائِمٌ‘‘ یعنی میں روزے سے ہوں‘‘۔
روزِحشرکی شفاعت
حضرت عبداللہؓ بن عمروؓ بن العاص کی روایت امام بیہقیؒ نے اپنی سنن میں نقل کی ہے، جس کے مطابق روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں روزِ محشر سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: ’’اے میرے رب! میں نے تیرے اس بندے کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس کی تسکین سے روکے رکھا تھا۔ آج میں اس کے حق میں شفاعت کرتا ہوں، تُو اسے قبول فرما لے‘‘۔ اسی طرح قرآن بھی عرض کرے گا ’’پروردگار! میں نے تیرے اس بندے کو رات کے وقت نیند اور استراحت سے روکے رکھا تھا، اس کے حق میں میری سفارش کو شرفِ قبولیت عطا فرما‘‘۔ اور اللہ، روزے اور قرآن کی سفارش اپنے بندے کے حق میں قبول فرمالے گا۔
ہر کلمہ گو کو سوچنا چاہیے کہ روزہ اور قرآن جس کے حق میں شفاعت کریں گے، اس کا مقام کتنا بلند ہے، اور خدانخواستہ جن کے خلاف ان کی گواہی ہوگی، وہ کس قدر بدنصیب اور محروم ہوں گے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ روزہ اور قرآن یا تمھارے حق میں حجت ہوں گے یا تمھارے خلاف۔ اللہ ہر کلمہ گو کو اس بدنصیبی سے محفوظ رکھے کہ یہ دو عادل گواہ اس کے خلاف گواہی دیں۔ سوچنا اور خود احتسابی ہمارا اپنا کام ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تمام احکام ہم تک بلاکم و کاست پہنچا دیے ہیں۔
اس حدیث اور کئی دیگر احادیث میں صیام کے ساتھ قیام اللّیل کا بھی ذکر ہے۔ رمضان کا روزہ تو فرض ہے جبکہ قیام اللیل مسنون بدرجۂ سنت مؤکدہ ہے، اور بعض ائمہ کے نزدیک واجب کے درجے میں شامل ہے۔ قیام اللیل کا عمل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اللہ کو اتنا پسندیدہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے اس کی فرضیت کا اندیشہ ہوا اور خیال گزرا کہ امت کے لیے کہیں یہ مشقت نہ بن جائے۔ ہرچند کہ اسے فرض قرار نہیں دیا گیا مگر اس کا اجر فرض کے برابر بتایا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کے مطابق امام بخاری ومسلم نے بیان کیا ہے کہ جو شخص ایمان واحتساب کے ساتھ روزہ رکھے گا، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرے گا، اس کے بھی سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ روزہ فرض ہے اور تراویح سنت، مگر انعام دونوں کا یکساں ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کا اپنے بندوں کے ساتھ احسان اور محبت کا معاملہ ہے۔ سبحان اللہ!
احتساب کا مطلب یہ ہے کہ صیام و قیام میں خالص اللہ کی رضا اور اجرِ آخرت مطلوب ہو اور ان تمام غلط کاموں سے صیام و قیام کو پاک رکھا جائے جو اللہ کو ناپسند اور قیام و صیام کی روح کے منافی ہیں۔ گویا جس صیام و قیام کے بدلے اتنا بڑا انعام بتایا گیا ہے وہ پوری روح کے ساتھ جلوہ گر ہوگا تو بندہ اس بشارت کا مستحق قرار پائے گا۔ محض مشقت اور چند حرکات اس کے لیے کافی نہیں۔
سحری کی فضیلت
روزہ آیتِ قرآنی کے مطابق تمام امتوں پر فرض رہا ہے۔ یہودیوں نے روزے کے دوران سحری کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’سحری کھایا کرو کیونکہ اس میں بڑی برکت ہے‘‘(بروایت ابن ماجہ)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے ’’سحری کھانے والوں پر اللہ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں‘‘ (بحوالہ مسند احمد)۔ سحری آدھی رات کو کھانے کے بجائے صبح صادق سے قبل متصل وقت کھانا زیادہ افضل ہے۔ یہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا معمول تھا۔ گمراہ ہوجانے والی سابقہ قوموں نے سحری کو ترک کردیا تھا اور پھر روزہ بھی اُن کے ہاں متروک ہوگیا۔ امتِ مسلمہ پر اللہ کی خصوصی رحمت ہے کہ زوال و انحطاط کے باوجود ہمارے ہاں روزے کی اہمیت اور اہتمام ہر جگہ نظر آتا ہے۔ امریکا، کینیڈا، یورپ اور آسٹریلیا، جہاں بھی آپ چلے جائیں، اہلِ ایمان کو رمضان اور تراویح میں دلچسپی اور انہماک کے ساتھ مشغول پائیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ رمضان کے بعد گیارہ مہینوں میں بھی اس تربیتی کورس کا رنگ نظر آئے۔
افطار
افطار کا لفظی معنیٰ روزہ کھولنا یا کھلوانا ہے۔ افطار میں تاخیر کرنا غلط ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی فوراً افطار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور یہی اللہ کو محبوب ہے۔ ایک متفق علیہ روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت کے لوگ خیر کی حالت میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کیا کریں گے‘‘۔ افطار کرانا یعنی کسی روزے دار کا روزہ کھلوانا بہت بڑا ثواب ہے۔ امام بیہقی کی ایک روایت کے مطابق ’’کسی روزے دار کا روزہ کھلوانے والے یا کسی مجاہد فی سبیل اللہ کو سامانِ جہاد فراہم کرنے والے کو روزے دار اور مجاہد کے برابر اجر و ثواب ملتا ہے، جبکہ ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔‘‘
افطار کا وقت خصوصی طور پر قبولیتِ دعا کا وقت ہے۔ افطار سے پہلے انتظار کے لمحات میں تلاوت، ذکرِالٰہی اور دعا کا اہتمام بڑی سعادت ہے۔ یہ دعا اللہ کے ہاں مقبول ہوتی ہے اور بندے کی ہر جائز خواہش اللہ کی رحمت سے پوری ہوجاتی ہے۔ جو خواتین اپنے کام اور سامانِ افطار تیار کرنے میں لگی ہوتی ہیں وہ اسی دوران اللہ کی حمد وتسبیح اور تکبیر پڑھتی رہیں تو انہیں بڑا اجر ملے گا۔
بہترین افطار وہ ہے، جس میں غربا و مساکین کو روزہ کھلوایا جائے۔ اسراف، نمائش اور ریاکاری، نیز کھاتے پیتے لوگوں تک افطاریوں کو محدود کردینا اسلام کے بنیادی فلسفے اور روح کے منافی ہے۔ افطار کی وجہ سے نمازِ مغرب باجماعت میں تساہل یا قیام اللّیل میں سستی ہرگز جائز نہیں ہے۔
افطار کی دعا
افطار کے وقت جو نیک اور جائز دعا بھی آپ مانگیںگے، اللہ قبول فرمائے گا۔ قرآنی اور مسنون دعائیں اللہ کو زیادہ محبوب ہیں۔ روزہ کھلنے کے وقت کی ایک مسنون دعا ہے۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ‘‘ یعنی اے اللہ، میں نے تیری ہی رضا کی خاطر روزہ رکھا اور تیری ہی عطا کردہ روزی سے افطار کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔ ’’ذَھَبَ الظَّمَاُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ‘‘ یعنی پیاس بجھ گئی، رگیں تر و تازہ ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر و ثواب ضرور ملے گا۔