محمد انور
ملک میں عام انتخابات قریب ہیں جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں۔ پہلی بار انتخابات کی بازگشت کے ساتھ ملک کی عدلیہ اور قومی احتساب بیورو بھی سرگرم ہے۔ سپریم کورٹ اور نیب کی کارروائیوں سے قوم نہ صرف مطمئن بلکہ خوش ہے، لیکن جمہوریت کے چمپیئنوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔
یہ اتفاق ہے یا کچھ اور کہ 8 مئی کو عدالتِ عظمیٰ نے وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا، اور اسی روز قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے سابق و نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف 4 ارب 90 کروڑ روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت بھجوانے کے الزام کی شکایات کی جانچ پڑتال کرانے کا حکم دیا۔
منگل کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اور ڈی جی ایف آئی اے عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اصغر خان کیس میں فیصلہ دے چکی ہے، نظرثانی کی درخواستیں خارج کی جا چکی ہیں، اب عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہونا ہے، عدالتی فیصلوں پر من وعن عمل ہونا چاہیے، فیصلے میں ذمے داران کے خلاف کارروائی کا حکم حکومت کو دیا گیا۔
اصغر خان کیس کے فیصلے میں ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور نوازشریف سمیت متعدد سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
اس مقدمے کے فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں نوازشریف سمیت ایک درجن سے زائد نامور سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوگیا تو عام انتخابات سے قبل ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ عدالت کے حکم کے تحت اگر تمام سیاست دانوں سے ان کو دی گئی رقم واپس لی گئی اور مذکورہ سیاست دانوں نے اعتراف کرتے ہوئے رقم واپس کردی تو وہ مجرموں میں شامل ہوجائیں گے، جس کے بعد وہ کسی الیکشن میں حصہ لینے کے اہل بھی نہیں رہیں گے۔ نتیجے میں کیا حالات ہوں گے، اس کا اندازہ ہر باشعور شخص لگا سکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں قومی احتساب بیورو، جسے انگریزی میں نیشنل اکائونٹیبلٹی بیورو(National Accountability Bureau) (نیب) بھی کہا جاتا ہے۔ اس ادارے کی تخلیق مسلم لیگ نواز کے دوسرے دور حکومت میں ہوئی تھی۔ نواز حکومت نے نیب بناکر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے خلاف مقدمات قائم کیے تھے۔ نیب کے پہلے چیئرمین سیف الرحمان تھے جو اِن دنوں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سیف الرحمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے پہلی بار اقتدار میں آنے تک وہ قلفی یا آیس کریم فروخت کیا کرتے تھے۔ اس بات کی تصدیق سیف الرحمان یا مسلم لیگ نواز کی ٹاپ لیڈرشپ ہی کرسکتی ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ بعد قومی احتساب بیورو کو ایک آرڈیننس کے ذریعے ضروری ترمیم کرکے باقاعدہ ایک ریاستی ادارے کی شکل میں قائم کردیا۔ جس کے بعد سے یہ کرپشن کے خلاف سخت و شفاف کارروائی کرنے والا ادارہ بن گیا۔ نیب کے چیئرمین کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے تین سال کے لیے کیا جاتا ہے۔
اللہ کا نظام دیکھیں کہ نوازشریف نے جس ادارے کو اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی کے لیے قائم کیا تھا وہی ادارہ اب اُن کے خلاف کارروائیاں کررہا ہے۔
آج مسلم لیگ نواز کی حکومت کو حزب اختلاف سے زیادہ نیب اور سپریم کورٹ کی کارروائیوں سے ڈر ہے۔ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا نعرہ نما سوال اسی خوف کے سبب ہے۔
یہ خوف اب پوری حکومتی صف میں پھیلنے لگا ہے۔ آپ کو یقین نہ آئے تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی قومی اسمبلی میں چند روز قبل کی جانے والی تقریر کو دیکھ لیجیے اور اس مطالبے پر غور کرلیجیے جو انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے کیا۔ وزیراعظم نے اسپیکر سے کہا کہ نیب کے چیئرمین کو پارلیمنٹ میں طلب کرکے اُن کی طرف سے سابق وزیراعظم پر لگائے جانے والے اس الزام کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے اور اس مقصد کے لیے ایوان کے ارکان کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
شاہد خاقان عباسی شاید یہ بھول گئے تھے کہ وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں اُس شخص کا مقدمہ بحیثیت وزیراعظم لڑ رہے تھے جسے سپریم کورٹ خائن اور جھوٹا قرار دینے کے بعد تاحیات نااہل قرار دے چکی ہے۔ 22 کروڑ افراد کی نمائندہ اسمبلی میں نااہل اور جھوٹے شخص کی حمایت میں وزیراعظم کو خطاب نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے نیب اور اس کے سربراہ پر سخت تنقید کی اور پیپلز پارٹی اور اپنی حکومت کی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں حکومتیں نیب کو ایسا ادارہ بنانے میں ناکام رہیں جو سیاست دانوں پر اثرانداز ہونے اور ان کے خلاف کارروائیاں کرنے کے بجائے ملک میں کرپشن کے خلاف اپنا کردار ادا کرسکے۔
شاید وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ نیب کو ایک ایسا ادارہ بنانا چاہیے جو کرپشن کے الزامات پر سیاست دانوں خصوصاً حکومت میں موجود سیاسی شخصیات کے سوا سب کے خلاف کارروائی کرسکے، تاکہ سیاست دان کھل کر کرپشن کرسکے، چاہے وہ سرکاری ہوائی جہاز کمپنی کو ٹھکانے لگاکر اپنی ائرلائن کو ترقی دے کر اسے ملک کی نمبر ون ائرلائن بنالے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ابھی سابق وزیراعظم کے خلاف نیب کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے جہاں سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس جملے کے ساتھ شاہد خاقان عباسی نے بھی توہینِ عدالت کردی۔ اس لیے سپریم کورٹ کو 9 مئی کو قومی اسمبلی میں کی جانے والی اس تقریر کا نوٹس لینا چاہیے۔
نااہل وزیراعظم کی پکار
نوازشریف نے جمعرات کو پنجاب ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیب کو لکارا اور کہا کہ ’’چیئرمین نیب پر لازم ہے کہ وہ 24 گھنٹے میں مجھ پر لگائے گئے الزامات کے حقائق سامنے لائیں، اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو میں مطالبہ کرتا ہوں کہ قوم سے کھلے عام معافی مانگیں اور فوری طور پر استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔‘‘
نوازشریف کی مسلم لیگ تین مرتبہ اقتدار میں آئی مگر تینوں بار نوازشریف اپنا دورِ حکومت مکمل نہ کرسکے۔ کسی سیاسی شخصیت کے لیے یہ بات انتہائی شرم کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ تین مرتبہ اقتدار کی مدت پوری نہ کرنے اور زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دیے جانے والے شخص کو ازخود سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے۔ ویسے بھی نوازشریف نے ملک کے لیے اقتدار میں آنے سے قبل کیے گئے کسی وعدے کو پورا نہیں کیا۔ البتہ بجلی کی لوڈشیڈنگ، بیرونی قرضوں، مہنگائی اور بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
nn
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور دیگر کے خلاف مبینہ طور پر 4.9 بلین ڈالر کی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارت بھجوانے کی میڈیا رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے شکایت کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ حقیقت ورلڈ بینک کی مائیگریشن اینڈ ریمیٹنس فیکٹ بک 2016 میں موجود ہے۔ بھارتی حکومت کے سرکاری خزانے میں 4.9 بلین ڈالر کی خطیر رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوانے سے بھارتی حکومت کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے جس کا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا۔