زاہد عباس
’’بھولے کہاں ہے تُو، بالکل ہی غائب ہوگیا ہے، کوئی نئی چغلی بھی نہیں کھا رہا، لگتا ہے ناراض ہوگیا ہے!‘‘
’’منے بھائی ایسی کوئی بات نہیں، دراصل میرا مخبر بھاگ گیا ہے، اسی لیے کوئی نئی رپورٹ نہیں آرہی تھی، لیکن فکر نہ کریں اِس مرتبہ جو مخبر ملا ہے وہ اندر کی خبریں لاتا ہے‘‘۔
’’کیا کہہ ہے رہا ہے، تیرا مخبر!‘‘
’’سیاسی پرندوں پر شکرے کی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔‘‘
’’سیاسی پرندوں پر نظر! مطلب؟‘‘
’’منے بھائی، کیوں مذاق کررہے ہو! ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ موسم سیاسی پرندوں کے آشیانے بدلنے کا ہوتا ہے، بھئی ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، دیکھ نہیں رہے کس طرح شانوں سے شانے ملائے، گلوں میں سیاسی جھنڈے ڈال کر عہد وپیمان کیے جارہے ہیں، جبکہ مزید سیاسی پرندوں کے غول کے غول نئے آشیانے کی جانب اڑان بھرنے کے لیے بے قرار ہیں۔‘‘
’’بھولے، ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے، تیرے پاس اگر کوئی نئی خبر ہے تو سنا، بے کار کی مخبریاں نہ دے۔‘‘
’’نئی بات تو یہ ہے کہ اِس مرتبہ خسروبختیار اور بلخ شیر مزاری بہت غصے میں ہیں، انصاف پارٹی کے پاس گئے تھے، اُن کا غصہ بتا رہا ہے کہ اب کے تو صوبہ لے کر ہی دم لیں گے، اسی بنیاد پر انصاف پارٹی میں شامل بھی ہوگئے ہیں جس نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت بنتے ہی پہلے سو دن کے اندر اندر جنوبی پنجاب صوبہ بنادیا جائے گا۔‘‘
’’بھولے، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔‘‘
’’کیا مطلب منے بھائی؟ بات کھل کرو، تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آدھی بات میرے پلے نہیں پڑتی۔‘‘
’’ایک یہ بھی بڑا مسئلہ ہے کہ تجھے سیدھی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی، تیرے سر میں دماغ کی جگہ بھوسا بھرا ہوا ہے، سارا دن اِدھر اُدھر کی فضول خبریں لیتا پھرتا ہے جبکہ عقل کی بات تیرے بھیجے میں نہیں بیٹھتی۔ خیر تُو جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی بات کررہا تھا، یہ تو تیرے لیے اچھی خبر ہے، تیرا علاقہ ہے، صوبہ بن کر خوب ترقی کرے گا، سب کو حقوق ملیں گے، ساری محرومیاں دور ہوجائیں گی، اب تو تیری بھی شناخت ہوگی۔ خوشی کی خبر ہے، جا مٹھائی لے کر آ، اب تختِ لاہور سے تیری جان چھوٹنے والی ہے۔‘‘
’’منے بھائی، جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ حکومت کا وقت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل اتنا بڑا انقلاب! لوگ سمجھتے ہیں کہ میں چغل خور ہوں، مخبروں کی اطلاع پر ہی بات کرسکتا ہوں، اس کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ میرا نام بھلے ہی ’بھولا‘ سہی… بھولا ہوں مگر بیوقوف نہیں ہوں۔ سب کچھ سمجھتا ہوں، اڑتی چڑیا کے پَر گن لیتا ہوں۔ میں اتنا انجان اور ناسمجھ بھی نہیں کہ اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکوں۔ میں اس سارے سیاسی چکر کو اچھی طرح جانتا ہوں، اور یہ بھی جانتا ہوں کہ سرداروں، مخدوموں اور وڈیروں کو جنوبی پنجاب صوبے کا خیال اِس وقت ہی کیوں آیا۔ سردار بلخ شیر خان مزاری کو کون نہیں جانتا! یہ ہماری سیاست کا ایک ایسا بے داغ نام ہے جس نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی اور اپنے اقتدار کے دنوں میں بلاتفریق سب کے کام بھی کیے۔ جس طرح 90برس کی عمر میں اس بوڑھے بلوچ سردار نے جوانوں کی طرح کمر باندھ کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے حقوق کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر ’’کمال ہے‘‘ کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دوسری طرف ان کے ساتھ نصراللہ خان دریشک ہیں جو ہر دور کی اسٹیبلشمنٹ اور خصوصاً بیوروکریسی کے ساتھ مثالی تعلقات بناکر رکھنے میں بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں اس وقت اچانک جنوبی پنجاب صوبے کی یاد آجانا جب سیاست کا ایک ایک پتّا شو کیا جا رہا ہو، معنی خیز ہے۔ اور اس کاروان کے دولہا کا تو جواب نہیں۔ مخدوم رکن الدین اور مخدوم شہاب الدین کے سیاسی وارث مخدوم خسرو بختیار، جن کا خانوادہ کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ ہی اقتدار میں رہا۔ خیر، جنوبی پنجاب کے ان بااثر سرداروں اور مخدوموں نے اگر جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ لگا ہی لیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنوبی پنجاب کے تمام سرداروں، وڈیروں اور عوام کا اس نعرے پر اتفاق ہوجائے گا؟ مجھے تو یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ سرائیکی صوبے کے حامیوں نے جنوبی پنجاب کے نام پر جس طرح اپنی علیحدہ مسجد بنانے کا اعلان کیا ہے اس میں ان کی برسوں کی جاگیردارانہ سوچ اور اَنا شامل ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ جنوبی پنجاب کے صوبہ بننے سے وہاں بسنے والے عوام کی محرومیوں کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ یقینا یہ مطالبہ اس لیے بھی درست ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جو وسائل ومسائل اور آبادی کے لحاظ سے بھی بہت بڑا ہے۔ یہاں کے عوام کو ڈیرہ غازی خان سے لاہور جانے کے لیے یقینا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص اگر بورڈ آف ریونیو میں اپنی کوئی درخواست دینے کے لیے جاتا ہے تو وکیل کی فیس کے ساتھ اسے پچاس ہزار کا خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے، اور وہ بھی صرف پہلی پیشی کے موقع پر۔ بعد میں اسے لاکھوں روپے کا جھٹکا ضرور لگتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی سیکڑوں کام ہیں جن کی وجہ سے یہاں کے عوام کو مختلف قسم کی اذیتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ یہ ساری مشکلات اپنی جگہ، لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے، یعنی سارا پاکستان جانتا ہے کہ تاج محمد لنگاہ سرائیکی صوبے کے حصول کی جدوجہد کرنے کے باوجود کبھی بھی اتنی نشستیں نہ جیت سکے جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ یہی وہ نعرہ ہے جو جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو ختم کرسکتا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ تاج محمد لنگاہ کے الگ صوبے کے حصول کا نعرہ لگانے کے باوجود اُن کے مقابلے میں ہمیشہ مخدوموں، مزاریوں، لغاریوں اور سرداروں نے ہی کامیابی حاصل کی۔ اگر صوبے کا نعرہ ہی وہاں کے مکینوں کے دل کی آواز ہوتا تو تاج محمد لنگاہ کی جانب سے کی جانے والی سیاست کے مقابلے میں آج وڈیروں کی سیاست زمین بوس ہوچکی ہوتی۔ اور یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ سرائیکی علاقوں سے جیت کر آنے والے اپنی سیاسی طاقت کے بل بوتے پر مخصوص سرائیکی علاقوں کے بجائے پنجاب کے بڑے حصے پر حکومت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ وہ طاقتور بن کر بڑے رقبے پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے، اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ان اشخاص نے جو صوبہ جنوبی پنجاب کے خالق بن بیٹھے ہیں، 2013ء میں بھی کچھ ایسے ہی نعرے لگا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ گزشتہ پانچ سال حکومت کے مزے لوٹنے کے بعد ان کو ایک مرتبہ پھر سے غریب و مظلوم سرائیکیوں کے لیے صوبے کے حصول جیسے نعروں کا یاد آنا کئی درپردہ رازوں کو بے نقاب کررہا ہے۔ ایک عام شہری سے کہیں زیادہ ہمارے ملک کے سیاسی اکابرین یہ بات بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ نئے صوبوں کا قیام آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق ہی ہوسکتا ہے، جس کے مطابق ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ ایوانِ بالا کی ایک مخصوص تعداد بشمول جہاں صوبہ بنایا جاسکتا ہے، آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق اس صوبائی اسمبلی کے اراکین کی رائے کا شامل ہونا لازمی ہے۔ جیسا کہ نظر آرہا ہے، آنے والے انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت عددی اعتبار سے اتنی طاقت ور نہیں ہوگی کہ اکیلے حکومت بنا سکے، اس صورت میں جب اتحادیوں کو ملا کر حکومت بنے، کس طرح ایسی کوئی بھی آئینی ترمیم کی جاسکتی ہے جس کا وعدہ انصاف پارٹی ان سے کرچکی ہے؟ اور اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ آنے والی حکومت اتنی طاقت ور اور مضبوط ہوگی کہ صوبہ بنانے کا کیا گیا وعدہ پورا کرسکے تب بھی یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی آسان کام نہیں۔ صوبہ پنجاب کی لیڈرشپ کی جنوبی پنجاب صوبے کی مخالف اپنی جگہ، اس نعرے کے نتیجے میں ایسا پنڈورا باکس کھلے گا جس کی مثال نہیں ملتی۔ پھر بات ایک خطے یا صوبے تک محدود نہیں رہے گی، سندھ میں کراچی صوبہ، کے پی کے میں ہزاروال، بلوچستان کے پشتون، اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی… ہر جگہ سے ’’جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا‘‘ اور ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ جیسی صدائیں بلند ہونے لگیں گی، حق اور حقوق کے نام پر وہ آتش فشاں پھٹے گا جسے ٹھنڈا کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ اوروں کی بات چھوڑیئے، جو آج جنوبی پنجاب صوبے کے سب سے بڑے حمایتی بنے ہوئے ہیں، انہیں بھی یہ قبول نہ ہوگا۔‘‘
’’واہ بھولے واہ، تُو تو تنقید نگار بھی ہوگیا ہے۔‘‘
’’منے بھائی، سارا دن اِدھر سے اُدھر گھومنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں ملکی سیاسی حالات سے بے خبر ہوں۔ اگرواقعی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا ہے تو جو قیادت آج سامنے آئی ہے، اُسے ملکی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر بے لوث ہوکر کام کرنا ہوگا۔ یہ کام کسی کے اشارے یا مخصوص ایجنڈے کے تحت نہیں بلکہ تعصب کی عینک اتارکر ملکی یک جہتی اور ترقی کو مدنظر رکھ کرکرنا ہوگا، تبھی کامیابی حاصل ہوگی۔ میری ناقص عقل کے مطابق ملک کی ترقی و خوشحالی اسی میں ہے کہ پاکستان میں مزید صوبوں کا قیام زبان کے بجائے ڈویژن کی سطح پر ہو۔ زبان کی بنیاد پر بنائے جانے والے صوبوں سے نہ صرف عصبیت، بلکہ لسانی تفریق میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کے اثرات نسل درنسل منتقل ہوکر قوموں کو تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں، جبکہ ڈویژن کی بنیادوں پر بنائے جانے والے صوبے مضبوط معاشی وانتظامی یونٹ تصور کیے جاتے ہیں۔ اگر اس بنیاد پر صوبوں کے قیام کے لیے جدوجہدکی جائے تو یقینا کامیابی ہوگی، اور اگر نیت میں فتور ہوگا تو پھر یہ ماضی میں لگائے جانے والے نعروں کی طرح ایک پُرکشش نعرے کے سوا کچھ نہ ہوگا، کیونکہ ایسے نعرے نہ جانے کتنے برسوں سے لگائے جا رہے ہیں۔ لہٰذا سردار بلخ شیر مزاری، مخدوم خسرو بختیار، سردار نصر اللہ خان دریشک، رانا قاسم نون، باسط بخاری وغیرہ اگر واقعی اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی جھوٹی اَنا کے بت توڑ کر اور سب کو ملا کر چلنے کے لیے تیار ہیں تو انہیں ڈویژن کی سطح پر سارے پاکستان میں صوبے بنانے کے لیے تحریک چلانی ہوگی، بصورتِ دیگر جنوبی پنجاب کے عوام کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا۔‘‘