آگہی

443

فرح ناز فرح
ریحانہ نے کھانے کی ٹرے صابر صاحب کے سامنے رکھی اور جگ سے گلاس میں پانی انڈیلنے لگی۔
صابر صاحب رات کا کھانا جلدی کھانے کے عادی تھے، اس لیے وہ کھانا اپنے کمرے میں ہی کھا لیا کرتے تھے۔ بچے اپنے اپنے حساب سے کھانا کھاتے۔ کوئی پڑھنے میں مصروف تو کوئی دوستوں میں۔ صابر صاحب کے پانچ بچے تھے تین بیٹیاں اور دو بیٹے، سب پڑھنے والے بچے۔ یعنی ابھی صابر صاحب پہ بہت ذمے داریاں تھیں۔
’’کیا پکا لیا؟‘‘ صابر صاحب نے بڑے شوق سے پوچھا۔
’’آپ کی پسند کا آلو گوشت ہے۔‘‘ ریحانہ نے جواب دیا۔ صابر صاحب نے آستینیں چڑھائیں اور زور سے بسم اللہ پڑھ کر پہلا نوالہ منہ میں ڈالا اور فوراً ہی نکال دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ ریحانہ گھبرا گئی۔
’’بہت کڑوا ہے‘‘۔ صابر صاحب نے بڑے اداس لہجے میں جواب دیا۔
’’ریحانہ نے چکھنے کی غرض سے فوراً نوالہ بنا کے منہ میں ڈالا اور چباتے ہوئے بولی ’’صحیح تو ہے‘‘۔ اچانک کسی احساس نے اس کو جھنجھوڑا اور وہ صابر صاحب کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’تم ذرا خالہ جان کے گھر فون کرکے خیریت پوچھو‘‘۔ انہوں نے ریحانہ سے کہا۔ خالہ جان بہت دنوں سے بیمار تھیں۔ کچھ دیر بعد دونوں میاں بیوی خالہ جان کے گھر اُن کے جنازے پہ جارہے تھے۔
آگہی بھی بڑا عذاب ہے۔ کچھ عرصے سے صابر صاحب کے ساتھ اسی طرح کے معاملات ہورہے تھے۔ وہ خود بہت پریشان تھے۔ پہلے انہوں نے اسے وہم سمجھا، لیکن تواتر سے ایسا ہی ہونے لگا تو انہوں نے اپنی بیگم کو بتایا، اور ریحانہ بیگم اتنی خوفزدہ ہوگئیں کہ صابر صاحب کھانا کھا چکتے تو ان سے زیادہ وہ خدا کا شکر ادا کرتیں۔
آج پھر آفس جانے سے پہلے ان سے ناشتا نہ کیا گیا۔ چائے، پراٹھا، آملیٹ سب کڑوا… اور ان کے آفس جانے سے پہلے پہلے ان کے بھانجے کے ایکسیڈنٹ اور پھر انتقال کی خبر آگئی۔
آہستہ آہستہ بچوں کو بھی ابو کی چھٹی حس کا پتا چل گیا، اور اب جب ایسی صورتِ حال ہوتی تو وہ باقاعدہ لسٹ بناتے جن میں سب سے پرانے بزرگوں کے نام ہوتے اور اکثر نام انہی میں سے نکلتے۔ ریحانہ کے خوب ڈانٹنے پر وہ یہ سب مذاق میں اڑا دیتے۔
’’ریحانہ…‘‘ گھر میں داخل ہوتے ہی صابر صاحب نے آواز لگائی۔
ریحانہ ان کی آواز سے اندازہ لگالیتی تھی کہ صاحب کا موڈ کیسا ہے۔
’’جی جی آگئی‘‘۔ ریحانہ پانی کا گلاس لے کر ان کی خدمت میں حاضر تھی۔
’’تم نے اپنے بیٹے کو بائیک چلاتے دیکھا ہے کبھی؟‘‘ صابر صاحب بہت غصے میں تھے۔ اسے یاد آیا کہ ابھی ابھی ان کا چھوٹا بیٹا عباد موٹر بائیک پر نکلا ہے، وہ بھی جانتی تھی کہ وہ بہت تیز بائیک چلاتا ہے، اس بات پر اسے کئی بار ڈانٹ بھی پڑ چکی تھی۔
’’کچھ ہوگیا تو روتی رہنا بیٹھ کر۔‘‘
’’یہ کیا کہہ دیا…!‘‘ اس کا تو دل ہی بیٹھ گیا۔
’’اللہ نہ کرے۔‘‘ دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی۔ ’’آئے گا تو سمجھائوںگی، آ پ فریش ہوجائیں میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں۔‘‘
صابر صاحب بڑبڑاتے ہوئے واش روم کی طرف چل دیے۔
چائے کا پہلا گھونٹ زہر کی طرح کڑوا… کپ واپس ٹرے میں رکھتے ہوئے ان کے چہرے پر تشویش تھی۔ ڈور بیل بجی، ریحانہ نے پھرتی سے دروازہ کھولا، باہر عباد کھڑا تھا۔ ریحانہ کے دل میں سیکنڈوں میں پیدا ہونے والے واہمہ اور خوف نے دم توڑ دیا، اس نے بھیگی آنکھوں سے عباد کو بے تحاشا پیار کرنا شروع کردیا۔ عباد کو پیار بھری ڈانٹ کے بعد جب وہ لوٹی تو اس کا سب کچھ لٹ چکا تھا۔ صابر صاحب بس یہ جانتے تھے کہ موت کا فرشتہ آن پہنچا ہے، لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ اِس دفعہ وہ کس کے لیے آیا ہے۔ ’’کل نفس ذائقۃ الموت۔‘‘

حصہ