کالج آف ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ کا دھنک مشاعر

454

سیمان کی ڈائری
ادبی تقریبات ملک کے کسی شہر میں بھی ہوں دل خوشی سے سرشار ہوجاتا ہے ۔ادیب جہاں بھی موجود ہے جس زبان میں بھی لکھتا ہو۔وہ بہر حال اس چراغ کو بجھنے نہیں دیتا ۔اپنے حصے کا دیا جلائے رکھتا ہے۔خواہ یہ ادبی تقریبات ملک میں بولی جانی والی زبانوں میں لکھے جانے والے ادب سے متعلق ہی کیوں نہ ہو ۔ہراچھا ادب کسی بھی زبان میں لکھا جائے اس کی خوشبو ،اس کے اثرات دیگر شہروں تک پہنچتے ضرور ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہ ہی اس کی کامیابی ہے ۔چونکہ اردو ہماری قومی زبان بھی ہے اور برسوں سے اردوادب کی روایت کی امین بھی ہے اور بین الاقوامی سطح پر نام ور تخلیق کاروں کی ایسی شاہکار تخلیقات موجود ہیں جس پر فخرکیا جاسکتا ہے۔چاہے وہ شاعری کی صورت میں ہو،افسانے کی صورت میں یا ناول کی صورت میں ۔یہ الگ بات کہ عہد موجود میں اس زبان کے لکھنے پڑھنے والے بہ ظاہر کام تو کررہے ہیں لیکن ایک ہی رنگ کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے جس میں مختلف کچھ بھی نہیں ۔
میرے کالم کا ہرگز موضوع یہ نہیں کہ اس زبان کے فروغ کے لیے کچھ نہیں ہو رہا ۔کچھ نہ کچھ ضرور ہو رہا ہے۔بے شک اس کی رفتار کم سہی۔جب اس سلسلے میں وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس ساری خرابی کے ذمے دار صرف تعلیم دینے والے ادارے ہی نہیں ،ہم خود بھی ہیں۔کیوں کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری آنے والی نسل اردو سیکھے یا اس زبان سے متعلق کچھ جانے۔ہم تو اپنے بچوں کو انگریزی گھول کر پلا دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا اہم فرد بن سکے اور اسے انگریزی بولنی آتی ہو۔میں کسی بھی زبان کے سیکھنے کا مخالف نہیں اور نہ دیگر علوم کا لیکن ہم اپنی زبان سے کتنا دورہوتے جارہے ہیں ،اس المیے کی طرف بھی تو نظر کرنی چاہیے کہ بچہ بات تواردو میں کرتا ہے لیکن جب وہ اس زبان کو لکھنے بیٹھتا ہے تو اسے دِقت پیش آتی ہے اور وہ اس کی عجیب سی شکلیں بنا کر لائنوں پر اتارتا ہے،املا تک نہیں کرپاتا۔لفظ کے معنی و مفہوم نہیں جانتا جبکہ انگریزی میں سب بتا دیتا ہے۔اسے میں المیہ نہ کہوں تو کیا کہوں ۔بہر کیف مجھے اپنی بات کبھی کبھی رد بھی کرنا پڑتی ہے جب کسی تعلیمی ادارے میں کسی مشاعرے کے انعقاد اور اس پر اساتذہ کے علاوہ طلبہ کا ہجوم دیکھنے کو ملتا ہے اور وہ بڑے انہماک سے ایک ایک شاعر کا کلام سنتے ہیں اور اس پر اپنے انداز سے داد بھی دیتے ہیں۔ ایسے تعلیمی اداروں کا نظام چلانے والے اونرزاور اساتذہ کا یہ عمل قابل ستائش ہے کہ وہ اپنی زبان سے کتنا پیار کرتے ہیں اور ایسی ہی ادبی تقریبات کو ہر سال جاری و ساری رکھتے ہیں کہ اس سے طلبہ کا اپنی زبان کی طرف رحجان پیدا ہو۔بلاشبہ ان کی تعریف جتنی بار بھی کی جائے کم ہے۔میں انھیں سلام پیش کرتا ہوں۔
کچھ ایسا ہی احوال پچھلے دنوں ایک ایسے ہی تعلیمی ادارے میں دیکھنے کو ملاجو اپنے نام کی مناسبت سے ہوٹل مینجمنٹ،ٹریول اینڈ ٹورازم، کوکنگ،شیف کی تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے ۔وہاں مشاعرے کا انعقاد کچھ حیران کن تھا۔ بہر حال کوتھم کالج آف ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ کراچی میں سالانہ عشائیے اورPakistan international culinary competition 2018میں گولڈ میڈلز حاصل کرنے والے طلبہ کے اعزاز میں محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔بہت ہی اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مشاعرے سے قبل ایگزیکٹو ڈائریکٹرکالج جناب صابر احمداور جناب سید اظہرجمیل نے میڈلز حاصل کرنے والے طلبہ میں شعراکرام سے اعزازات دلوائے ۔منتظمین اگر چاہتے تو کسی بھی سیاسی،سماجی یا کاروباری شخصیت کو مدعو کر سکتے تھے اور انھیں کے ہاتھوں طلبہ میں انعامات تقسیم کراتے تو وہ ایسا کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور بالکل ایک نیا کام کردیا۔دراصل ہونا تو ایسا ہی چاہیے تھا۔ بلاشبہ کالج کے منتظمین سید اظہر جمیل اور صابر احمد صاحب کا یہ عمل قابل تحسین تھا۔مشاعرے کی صدارت عہد موجود کے معروف استاد شاعر جناب انور شعور صاحب نے فرمائی ۔ مشاعرے کی نظامت ہمارے پیارے دوست جناب نجیب ایوبی صاحب نے کی جن کا شمار شہر کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور ان کی اس جدوجہد اور کوششوں سے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کا بھلا ہوا اوربعض اوقات اس کارخیر میں انھیں کتنے ہی حادثات اور ناخوشگوار واقعات کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔اللہ تعالیٰ انھیں سلامت رکھیں۔ مشاعرے میں شریک شعرا میں عبدالرحمن مومن، عمران شمشاد ،خاکسار، نجیب ایوبی، علاء الدین خانزادہ ہمدم اور اجمل سراج شریک تھے۔ طلبہ کی کثیر تعداد مشاعرے میں موجود تھی اور آخر تک شعرا کے ایک ایک شعر اور نظم کوبہت یک سوئی سے سنا اور بے پناہ داد دی۔ مشاعرے کے اختتام پر منتظم نے اظہار خیال کیا اورمہمان شعرا کو پھول پیش کیے اور باوقار عشایئے کا اہتمام بھی کیا۔
ایسے اداروں کی بدولت قومیں کبھی زوال کا شکار نہیں ہو سکتیں جو اپنے عہد کے علوم سیکھتی اور سکھاتی تو ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کی آبیاری کے لیے بھی ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں۔مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا اور ہماری آنے والی نسل میں اپنی زبان سے لگاؤ اور رشتہ مضبوط اور قائم و دائم رہے گا ۔میں اس کے لیے دعا گو ہوں ۔

غزلیں

احمد عادل

مصروف رہ گزر پہ چلا جا رہا تھا میں
حیرت یہ تھی کہ سب سے جدا جا رہا تھا میں
تعمیرِ ذات ہی میں لگی زندگی تمام
خالق بنا رہا تھا بنا جا رہا تھا میں
حاصل تھی جن کو راحتیں وہ بھی فنا ہوئے
کیوں اپنی مفلسی سے ڈرا جا رہا تھا میں
دریائے زیست کی یہی منزل تھی آخری
ایک بحرِ بے کراں میں گرا جا رہا تھا میں
سمجھا تھا آئنے میں مرا عکس ہی نہیں
ظاہر تھا اور سب سے چھپا جا رہا تھا میں
پہلے تو کوئے یار کی پھر دار کی طلب
دلدل میں خواہشوں کی دھنسا جا رہا تھا میں
میں گردِ راہ تھا مگر اعجاز دیکھیے
ہر کارواں کے ساتھ اُڑا جا رہا تھا میں
رکنے میں ڈر یہ تھا کہ توازن بگڑ نہ جائے
عادلؔ اسی گماں میں چلا جا رہا تھا میں

سعید سعدی

عشق میں تخت و تاج کیا کرتے
اپنے  دل کا علاج کیا کرتے
جب لکھی تھی شکست قسمت میں
جو نہ دیتے خراج کیا کرتے
میرے اس چاک پیرہن کے لیے
کچھ بٹن چند کاج کیا کرتے
گر بغاوت پہ ہم اتر آتے
پھر یہ رسم و رواج کیا کرتے
اس کا برہم مزاج کیا کہنے
ہم شگفتہ مزاج کیا کرتے
اس کی بستی میں بے وفائی کا
چل پڑا تھا رواج کیا کرتے
حسبِ معمول درمیان میں تھا
پھر یہ ظالم سماج کیا کرتے
کل ملاقات اس سے طے تھی مگر
یہ بتاؤ کہ آج کیا کرتے
کچھ نہ بولے کوئی گلہ نہ کیا
اس کی رکھنی تھی لاج کیا کرتے
اتنی مہلت نہ مل سکی  سعدی
ہم ترے دل پہ راج کیا کرتے

حصہ