مدثر قیصرانی
اس بات سے قطع نظر کہ سوشل میڈیا اس وقت بہت بڑی طاقت بن کر اُبھررہا ہے ،سیاست ،عدلیہ ،فوج ،رفاہی ادارے ،سب اسی سوشل میڈیا کے تحت ہی اپنا وژن عوام تک پہنچاتے نظر آئے ہیں اور سوشل میڈیا ہی ایک ایسا پلیٹ فارم مُہیاکرتاہے جہاں ہر کوئی بااختیار اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ان گنت فوائد و نقصانات بیان کرنے کے بجائے میں فیس بک کے حوالے سے کچھ باتیں بیان کرنے کا خواہاں ہوں کہ فیس بک کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں بچپن میں باجی کے کپڑے پہننے کے شوقین حضرات یہاں پرنسز،بے بی ڈول نظرآتے ہیں،سکرین کے پیچھے اگر جانچ پڑتال کی جائے تو بے بی کے بجائے بابا ڈول بجاتے نظر آتا ہے،ان تمام باتوں سے قطع نظر صرف آج میرا مقصد ایک پہلو کی طرف اشارہ کرنا اور سمجھانا مقصود ہے کہ ہمارے فیس بکی بھائی اتنے سیدھے سادھے ہوتے ہے کہ یورپ ،چین،امریکا کی پکچر لگا کر اوپر پارٹی کا نام لکھ دیتے ہیں کہ ’’جئے فلانا اتنا ترقیاتی کام کروایا تصویر دیکھ کر شیئر کریںــ‘‘وغیرہ وغیرہ اور کمنٹس میں لائن لگی رہتی ہے۔ہماری نکمی عوام پہلے کچھ دیکھتی تو ہے نہیں کمنٹس کی بھرمار کرکرایک دوسرے کو طعن و تشنیع کرتے ہوئے جب کوئی سنجیدہ بندہ کہتا ہے بھائی یہ تو یورپ کی تصویر ہے توپھر اس پر بھی فیس بکی دانشور برسنا شروع کہ آپ پٹواری ہو،آپ انصافی ہو،آپ جماعتی ہو،(یہ تمام سیاسیوں کے اپنے اپنے القابات ہوتے ہیں)وغیرہ وغیرہ۔
اس سے بھی آگے دیکھیں کہ کوئی تصویر بنی ہوتی ہے اور لکھا ہوتا ہے کچھ ٹائپ کرو اور اس تصویر کا کمال دیکھو اور کمنٹس تین سے چار سو کے قریب۔کوئی الفاظ لکھے ہوتے ہیں اور انکو کمنٹس میںلکھنے کا کہا جاتاہے اور لکھا ہوتاہے اگر چوزہ بن گیا توآپ کی شادی پکی۔اورشدید قسم کے کنواروں کے چار سے پانچ سو کے قریب کمنٹس،اف خدایا کنواروں پر رحم۔۔!!
لڑکی کی تصویر ہوتی ہے اور لکھا ہوتاہے اس کو شیئر کریں تو میرا نمبر آجائے گا وغیرہ وہاں بھی شدید کنوارے اور نکمی عوام کھجل خوار ہورہی ہوتی ہے۔خدایا اب تو رحم کردے کنواروں پر۔۔!!
ان تمام خرافات سے قطع نظر میرا اشارہ ان لاپرواہ افراد سے ہے جو کمنٹس اور لائک کے چکر میں اپنی آخرت اور دین اسلام سے گھناونا مذاق کرتے ہیں خانہ کعبہ کی تصویر لگا کر یا کلمہ لکھ کے شیئر کرنے کے بعد اوپر لکھتے ہیں کہ ’’کوئی کافر ہی ہوگا جو شیئر نہیں کرے گا‘‘اسی طرح اسمائے حسنیٰ لکھے ہوتے ہیں اور اوپر قسمیں دی ہوتی ہیں کہ خدا کی قسم ہے اس کے نام کو شیئر کرو ورنہ مسلمان نہیں(الامان والحفیظ)
میرے دوستو۔۔۔!!! اس کا مطلب آپ کی نظر میں اگر کوئی کمنٹس نہ کرے تو کافر،شئیر نہ کرے تو مسلمان نہیں،،،واہ فیس بکی تمہارے دین کو سلام،،،،،زیادہ تفصیل پھرکبھی انشاء اللہ۔۔!!!
خدایا رحم کر ہماری عوام پر۔۔۔۔جہاں سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر دین اسلام کے خلاف لبرل ازم،سیکولزازم،غیرمسلم لابی سرگرم ہے اور دین اسلام کا نام لے کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں مصروف عمل ہے وہی ہمارا فیس بکی یوزر صرف تصویر پر کمنٹ کر کے شادی کے لیے رال ٹپکا رہا ہوتا ہے۔گھر میں دوسرے کمرے میںموجود بوڑھے ماں باپ بیماری سے تڑپ رہے ہوتے ہیں اور ہمارا نکماعاشق فیس بک پر اپنی جانو مانو سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ رات کو اگر طبیعت خراب ہوتو مجھے صرف مس کال دینا میںپہنچ جاوں گا،استغفراللہ
مزید مختصر کہ میرے فیس بکی دوستو۔۔!!! ذرا سنجیدہ ہوجائیں سوشل میڈیا کی طاقت کوسمجھیں،اسی سوشل میڈیا سے کئی تحریکوں نے عروج پایا ہے ترقی کی ہے ،سوشل میڈیا کی طاقت کو صحیح استعمال کریں،دین اسلام کی ترویج کریں،احادیث اور اچھی باتیں شئیر کریں،اگر کسی پارٹی سے تعلق ہے تو اس کے منشور،کام،مقاصد،کو بیان کریں ،اور گاہے بگاہے کارکنوں کے لئے ہدایات جاری کرتے رہے ۔اور لبرل ازم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی حتی الامکان کوشش کریں کیونکہ میرے بھائیوں آپ کے پاس سوشل میڈیا کی طاقت ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اسی دنیا کی تیسری بڑی طاقت سمجھا جارہا ہے۔جہاں دنیا اس سے بھرپور فائدے اٹھارہی ہے وہی ہم اُسی سوشل میڈیا پر گھنٹوں گھنٹوں فضول بیٹھ کر ضائع کردیتے ہیں۔
خدارا نوجوانو۔۔۔!!! اپنے وقت کو قیمتی بنائیں اور اپنے آپ کو سنجیدہ قوم میں شمار کریں کہ آپ ایک سلجھے ہوئے معاشرے کے فرد ہو،آپ چاہے کمرے میں بند سوشل میڈیا پر ہو یا باہر کے لوگو ں کے ساتھ،جہاں بھی ہو آپ کے کردار گفتار سے ایک اصلاحی تربیت اور نیک سیرت شخصیت ہونے کی خوشبو آئے،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے تمام وسائل کو صحیح معنوں میں استعمال کرنے کی توفیق عطافرمائے اور تا قیامت ہمیں دین اسلام پر اور اس کی خدمت کرنے والابناتا رہے۔آمین
امن سے محبت جنگ سے نفرت
اقصیٰ رفیق
دنیا کے تمام مذاہب میں پیار و محبت، ہمدردی و ایثار ، میل و جول اور باہمی یگانگت و الفت کا دریں اور تصور موجود ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں پایا جاتا جو خدمت خلق اور آپس کے میل و جول کی تعلیم نہ دیتا ہو۔ انسانیت کی خدمت کرنا اور اس کے دکھ سکھ میں کام آنا ہر مذہب کاطرح امتیاز ہے۔
ـدرد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاںـ
انسان کی تخلیق کا مقصد ہی ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لئے محبت اور خدمت کے جذبات پیدا کرنا ہے اگر اس کے دل میں جذبہ محبت، خدمت اور جذبہ ایثار و قربانی نہ ہو تو پھر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں بناکر نہیں بھیجا بلکہ اس نے کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا ، کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنا دیا تاکہ وہ ان کا امتحان لے اور دیکھے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام انسان چاہے وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ایک دوسرے سے ہمدردے کرنے اور اس کے غم میں شریک ہونے کے قائل ہیں ۔ جس معاشرے میں اخلاق حسنہ نہ ہوں وہ فسادات کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔لیکن افسوس یہی حالت آج ہمیں نظر آ رہی ہے اپنے ارد گرد کی خبروں سے اور دیکھنے کے بعد ۔ امن اور جنگ بہ ظاہر صرف دو الفاظ ہیں لیکن یہ دونوں الفاظ اپنے اندر گہرے معنویت رکھتے ہیں ۔ امن راحت سی راحت ہے اور جنگ سراسر زحمت ہی زحمت۔ دنیا کا ہر ذی شعور انسان امن سے محبت اور جنگ سے نفرت کرتا ہے۔ جو شخص اور ملک امن و امان غارت کرنے کا سبب بنتا ہے وہ اللہ اور اس کے بندوں کے نزدیک قابل نفرت اور انسانیت کا دشمن ہے۔
بھارت پاکستان کا قریبی ہمسایہ ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے قریبی ہمسائیوں سے بہتر تعلقات کی خواہاں رہی ہے لیکن بد قسمتی سے بھارت نے پاکستان کی نیک نیتی کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھا۔ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اس وجہ سے ان دونوں ملکوں کے درمیان تین لڑائیاں ہو چکی ہیں اور اب مسئلہ کشمیر سلگتا مسئلہ بن چکا ہے۔ کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اور بھارتی افواج کے ہاتھوں تقریبا ۸۰ ہزار سے زائد بے گناہ کشمیری مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ زخمی معذور اور اپاہج کتنے ہوئے ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بھارت کی ان مذموم کاروائیوں کا مقصد کشمیری حریت پسندوں کی تحریک حصول حق خودارادیت کو بزور کچلنا ہے۔ اور پاکستان کو نیچا دکھانا ہے۔یہی نہیں فلسطین میں صدیوں سے تینوں ادیان سمایہ یعنی اسلام،عسائیت اور یہودیت کے پیروکار مکمل امن و آشتی کی فضا میں رہ رہے تھے۔ یہ مقدس سر زمین تینوں مذاہب کے لیے بے حداہم ہیں۔ پاکستان میں فلسطینی مسئلہ کو اکثر یہودیت اور اسلام کے مابین تنازع سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ کیونکہ ہمارے قبلہ اول پر قبضہ ہی سارے قصے کا مرکزی باب ہے لیکن میرے نزدیک یہ مسئلہ غاصب جمہوریت اور انسانیت کے درمیان جنگ ہے۔
جہاں میں قوم کا کردار دیکھا جاتا ہے
وطن کی آبرو ہوتی ہے اُس کے لوگوں سے
اسلام ایک اعلیٰ معاشرتی نظام کے داغ بیل ڈالتا ہے۔ جس میں حقوق و فرائض کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اسلامی مملکت کے مابین اتحاد کو فروغ دینا اور انہیں ایک مرکز پر جمع کرنا بھی ہمارا قومی مقصد ہے۔ معاشرے میں امن کی فضا کے حصول کیلئے حکومت اور عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں پورے خلوص اور دیانتداری سے انجام دیں محنت، جفاکشی، جدوجہد اور وفاداری کو اپنا شعار بنائیں اور تمام صوبوں میں قومی اتحاد کے فروغ کیلئے بھر پور جدوجہد کریں۔ ـ