محمد انور
کراچی کے شہریوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسی ہیں۔ اس شہر کے حقیقی شہریوں کے دل بھی اتنے ہی وسیع ہیں جتنا ان کا شہر۔ مگر یہاں کے لوگوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان کے صوبائی حکمرانوں کا تعلق کراچی سے نہیں ہے، نہ ہی ان کا طرزِعمل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا کے اس آٹھویں بڑے شہر اور اس کے لوگوں سے مخلص ہیں۔ وفاقی حکومت کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ وفاق کی کراچی سے زیادتی کی مثال کے لیے یہی کافی ہے کہ اس نے حالیہ متنازع مردم شماری کے نتائج تسلیم کرلیے۔
کراچی میں بجلی کے حوالے سے’کے۔ الیکٹرک‘ کی زیادتیوں ہی کا رونا نہیں ہے بلکہ یہاں پینے کے پانی کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ سب مسائل اس لیے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کے شہر کو لوگ اب سونے کی چڑیا نہیں بلکہ سونے کی کان سمجھنے لگے ہیں، جہاں سے صرف دولت کمائی جاسکتی ہے۔
کراچی میں پانی کی ضرورت 12 سو ملین گیلن روزانہ ( ایم جی ڈی) ہے لیکن ان دنوں دریائے سندھ اور حب ڈیم سے صرف 348 ملین گیلن پانی یومیہ مل رہا ہے۔ اس طرح 852 ایم جی ڈی پانی کم مل رہا ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی صدارت میں چند روز قبل ہونے والے اجلاس میں اصرار کیا کہ تازہ مردم شماری کے مطابق کراچی کی کُل آبادی ایک کروڑ 59 لاکھ ہے۔ اس طرح بھی شہر کو 58گیلن فی کس یومیہ پانی کی ضرورت ہے، جبکہ شہر کے صرف سائیٹ صنعتی ایریا کو 40 ایم جی ڈی پانی کی ضرورت ہے۔ لانڈھی، کورنگی اور فیڈرل بی ایریا کے صنعتی علاقوں کی ضرورت علیحدہ ہے۔ جبکہ واٹر بورڈ صرف چار ایم جی ڈی پانی سائیٹ صنعتی ایریا کو فراہم کرتا ہے۔ صنعتی اداروں اور علاقوں کی پانی کی ضرورت زیر زمین پانی حاصل کرکے پوری کی جاتی ہے۔ لیکن اس زیر زمین پانی کی آڑ میں واٹر بورڈ کی لائنوں سے غیر قانونی کنکشن لیے جانے کی بات عام ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے اب زیر زمین پانی کے لیے بھی پالیسی بنادی ہے، جس کے مطابق زیر زمین پانی حاصل کرنے والوں کو پہلے واٹر بورڈ سے لائسنس حاصل کرنا پڑے گا۔ ہر لائسنس ہولڈر دس پیسے فی گیلن کے حساب سے واٹر بورڈ کو ادائیگی کرے گا۔ لائسنس ہولڈر کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ زیر زمین پانی حاصل کرنے کے نیٹ ورک کو واٹر بورڈ کی لائنوں سے دور رکھے تاکہ واٹر بورڈ کا پانی چوری کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
واٹر مافیا
کراچی میں شہریوں کو پانی فراہم کرنے کا ذمے دار ادارہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ہے۔ یہ خودمختار ادارہ حکومتِ سندھ کی براہِ راست نگرانی میں کام کرتا ہے۔ 2009ء تک اس ادارے کا چیئرمین سٹی ناظم ہوا کرتا تھا، اس سے قبل سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس 1979ء کے تحت یہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا حصہ ہوا کرتا تھا اور میئر بہ لحاظِ عہدہ اس کا چیئرمین ہوتا تھا۔ مگر اب یہ مکمل سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہے، جو اس ادارے کے نظام میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی بڑی وجہ بھی ہے۔
واٹر بورڈ کا کام شہریوں کو صرف پانی فراہم کرنا ہی نہیں، بلکہ شہری حدود میں نکاسئ آب کے نظام کو بھی کنٹرول کرنا ہے۔ یہ ادارہ جب سے حکومتِ سندھ کے کنٹرول میں گیا ہے اُس وقت سے ’’واٹر مافیاز‘‘ نے اسے اپنی گرفت میں کرلیا ہے۔ یہ مافیاز ہائیڈرنٹس، ٹینکرز اور کنکشن مافیا پر مشتمل ہیں۔ ان مافیاز میں یقیناًواٹر بورڈ کے کرپٹ اہلکار بھی شامل ہوں گے، مگر یہ اس قدر فعال اور اثر رسوخ رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے جن کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
حال ہی میں سندھ کے سیکریٹری بلدیات محمد رمضان اعوان نے ایک اطلاع پر پرانا گولیمار ریکسر لائن پل کے نیچے سے گزرنے والی بلک واٹر لائنوں سے4 اور 6 انچ قطر کے غیر قانونی کنکشن حاصل کرنے کی اطلاع پر کارروائی کی تو ان کنکشنوں کا تو کچھ نہیں ہوا، اور نہ ہی یہ کنکشن حاصل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی، البتہ سیکریٹری کے دفتر میں نیب کے اہلکاروں نے چھاپہ مارکر ان کے سیکریٹری سولنگی کو گرفتار کرلیا اور دفتر سے اہم فائلیں لے گئے۔ محمد رمضان اعوان کا کہنا ہے کہ ’’مجھے شبہ ہے کہ نیب کی کارروائی کے پیچھے واٹر مافیا کا ہاتھ ہے، ورنہ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں نیب کو چھاپہ مارنے کی ضرورت پڑی‘‘۔ محمد رمضان اعوان نے نیب کی طرف سے مسلسل ہراساں کرنے پر چھٹیاں لے لیں، لیکن اس تمام صورت حال سے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن اور نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو بھی آگاہ کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ ہانی مسلم کو بھی آگاہ کردیا ہے تاکہ کم از کم غیر قانونی کنکشنز تو منقطع کیے جاسکیں۔
غیر قانونی کنکشنز اور واٹر بورڈ کی بے بسی
روزنامہ جسارت نے 12 اپریل کی اشاعت میں یہ خبر دی تھی کہ صالح محمد گوٹھ ملیر کے لیے مین قومی شاہراہ سے گزرنے والی 48 اور 54 انچ قطر کی بلک واٹر سپلائی کی لائنوں سے 6 اور 12 انچ قطر کے دو غیرقانونی کنکشن حاصل کرلیے گئے جو سورتی فیکٹری اور صالح محمد گوٹھ کی طرف جارہے ہیں۔ قبل اس کے کہ اس خبر پر واٹر بورڈ کی جانب سے کوئی ایکشن لیا جاتا، رواں ماہ ہی 6 اور 4 انچ قطر کے مزید دو کنکشن منزل پمپ کے ساتھ گزرنے والی بلک لائن سے بھی حاصل کرلیے گئے جو کھوہی گوٹھ کی طرف جارہے ہیں۔ ان کنکشنز کے حوالے سے واٹر بورڈ کے متعلقہ چیف انجینئر غلام قادر اور ایگزیکٹو انجینئر تابش رضا نے بتایا ہے کہ انہوں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تمام غیر قانونی کنکشنز روک دیے ہیں اور اس کے لیے بچھائی گئی لائنوں کو آگ بھی لگادی ہے۔ تاہم واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ کنکشنز منقطع کرنے کی بات جھوٹ ہے، جبکہ لائن پر آگ لگانے کی بات بھی ایک ڈراما تھی۔ ان لوگوں نے بتایا کہ مذکورہ پائپ لائن ڈالنے کی غرض سے ڈی ایم سی کی سڑک کو بھی کاٹا گیا تھا جسے ہنگامی بنیادوں پر دوبارہ بنادیا گیا ہے، جبکہ قومی شاہراہ کے نیچے سے ڈرل کرکے لائنیں لی گئی ہیں۔ ان مقامات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو غیرقانونی کنکشنز کا پتا چل جائے گا۔
معلوم ہوا ہے کہ بااثر افراد کی پشت پناہی سے ڈالی گئی ان غیر قانونی لائنوں سے واٹر بورڈ کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا، جبکہ کراچی شہر کا کم و بیش 7 ملین گیلن یومیہ پانی چوری ہونے لگا۔ غیر قانونی کنکشنز کا تعین کرنے کے لیے آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے سخت اقدامات کرے۔
واٹر میٹرز کی تنصیب
یہ بات حیران کن ہے کہ کراچی کو ملنے والے اور مختلف علاقوں میں تقسیم کیے جانے والے پانی کی کُل مقدار جاننے کے لیے کہیں بھی واٹر میٹر نصب نہیں ہے۔ اسی طرح صنعتوں کو فراہم کیے جانے والے پانی کی بلنگ کے لیے میٹرز کی موجودگی بھی مشکوک ہے۔ واٹر بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ تمام صنعتوں میں میٹر نہیں لگے ہوئے، لیکن ہم ان سے 242 روپے فی ہزار گیلن کے حساب سے چارجز وصول کرتے ہیں۔ اس افسر سے سوال کیا گیا کہ جب پانی کا میٹر ہی لگا ہوا نہیں ہے تو کس طرح بلنگ کی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ’’جہاں میٹر نہیں لگے ہیں، ان صنعتوں کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔‘‘
ایسا لگتا ہے کہ واٹر بورڈ کے حکام خود میٹرز کی تنصیب میں سنجیدہ نہیں ہیں، جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ میٹرز نہ ہونے سے فراہم کیے جانے والے پانی کی درست مقدار کا تعین نہ ہوسکے، اس طرح بارگیننگ کی بنیاد پر بل تیار کرکے بھاری رقم رشوت کے طور پر حاصل کی جاسکے۔
جبکہ بلک لائنوں پر بھی مختلف علاقوں میں واٹر میٹر نصب کرنے کے بجائے دس سال سے اسٹورز میں اس لیے رکھ دیے گئے تھے کہ اندازہ ہی نہ لگایا جاسکے کہ کتنا پانی دریائے سندھ اور کتنا حب ڈیم سے مل رہا ہے ؟ کتنا ضائع ہورہا ہے؟ کتنا کس علاقے کے لوگوں کو تقسیم کیا جارہا ہے اور کتنا چوری کیا جارہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب ملنے پر نہ صرف پانی کی درست طلب و رسد بلکہ چوری کا بھی پتا چل سکے گا۔
سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت اور واٹر بورڈ کے نئے ایم ڈی خالد محمود شیخ کیا اس بات کی تحقیقات کرانے کا اختیار بھی نہیں رکھتے کہ 60 کروڑ روپے کی لاگت سے خریدے گئے میٹرز کو کیوں نصب نہیں کیا جاسکا تھا؟
میرا خیال ہے کہ ایم ڈی خالد محمود شیخ ایسا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ ترجیحی بنیادوں پر ادارے سے کرپشن کا خاتمہ کریں، اور اپنے درمیان بھاری تنخواہ اور مراعات پر کنٹریکٹ پر رکھے گئے نااہل اور کاہل انجینئر کا کنٹریکٹ فوری منسوخ کرکے سرکاری خزانے پر بلاوجہ کا بوجھ کم کریں۔
واٹر بورڈ کا پانی کی تقسیم کا نظام
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ’شعبہ واٹر ڈسٹری بیوشن‘ ادارے میں کرپشن کے نظام کی بڑی شاخ ہے، لیکن اس کا اہم کارندہ علاقے کا والو مین ہوتا ہے۔ چونکہ پانی کی تقسیم کا نظام بغیر میٹرز چل رہا ہے، اس لیے متعلقہ علاقوں کے مکانات، ہاؤسنگ سوسائٹیز، پلازہ، کمرشل مارکیٹس اور صنعتوں کو کب کتنا پانی فراہم کرنا ہے، یہ کام والو مین کا ہوتا ہے۔ یہ والو مین، محکمہ پولیس میں ہیڈ محرر کے مساوی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ واٹر بورڈ کے پانی کے نظام میں یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے ادارے میں کئی ایم ڈیز اور چیئرمینوں کی تبدیلی کے باوجود والو مینوں کا تبادلہ نہیں کیا جاتا۔ سرکاری سروس رولز میں ایک اہلکار یا افسر زیادہ سے زیادہ تین سال تک ایک اسامی پر تعینات رہ سکتا ہے، مگر واٹر بورڈ میں جو جس اسامی پر پہلی بار مقرر ہوجائے وہیں سے ریٹائر ہوتا ہے۔ آج شہر میں پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا ذمے دار بھی یہی والومین ہے، جس کی لگامیں چیف انجینئرز کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ واٹر سسٹم سے واقف لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی واٹر بورڈ کے پانی کے نظام کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو وہ والو آپریشن کو کتاب کے مطابق چلانا شروع کردے۔