قاضی مظہر الدین طارق
مچھر کی زندگی:
مچھر کی زندگی بھی سب سے نرالی زندگی ہے،آدھی سے زیادہ زندگی پانی میں گزارتا ہے،ان کی ماں پانی میں انڈے دیتی ہے۔
پیدا ہوتا ہے تو لاروا ہوتا ہے ،پانی میں تیرتا پھرتا ہے، وہی کھاتا پیتا ہے جو پانی میں ملتا ہے۔
ہڈی واے جانداروں کی ہڈی زندہ ہوتی ہے ،اُن کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے ،مگر مچھرکا ’لاروا‘جب بڑا ہوتا ہے تو اس کا خَول(ایکزو اِسکے لیٹن )چھوٹا پڑ جاتا ہے مچھرکا خَول بے جان ہونے کی وجہ سے اِس کے ساتھ بڑھتا نہیں،اس کو اپنے اس خَول کو توڑکر باہر آناہوتا ہے،پھر خالق اس کواس سے بڑا نیا خَول عطا کر تا ہے،اس کو پانی میں چار بار ایسا کرنا ہوتا ہے۔
پانچویں بار وہ’ پیوپا‘ کے سخت خول میں خودکوبند کرلیتا ہے،پھر کئی روز تک وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے ۔
مگروہ اس دوران زبردست انقلاب سے دو چار ہوتا ہے،کیا ایک پانی میں تیرنے والے کیڑے سے اُڑنے والے مچھر میں تبدیل ہوجانے بڑا کوئی انقلاب ہو سکتا ہے؟بند ’پیوپا‘ رحمِ مادر کی طرح ہوتاہے اور خالق قرآن میں فرماتا ہے،’’ میں رحم کے اندر جیسا چاہتا ہوں بنا کر نکالتا ہوں؟‘‘۔
پیوپا پانی کے اُوپر ڈولتا رہتا ہے،یہاں تک کے مچھربن کر اپنے اِس خَول کو توڑتا ہے اور ہوا میں اُڑ جاتا ہے،اس کو انقلابی اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ اب اس کی پانی والی زندگی سراسر تبدیل ہو چکی ہے،اب اگر یہ پانی میں ڈوبے تو مر جائے،اس کی غذا بھی اب وہ نہیں جو پہلے تھی۔
ایک اور حیرت انگیز چیز جو بہت سے جانداروں سے مختلف ہے،وہ یہ ہے کہ اس کی دونوں اصناف کی زندگیاں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے،نر مچھر دن میں کھاتا پیتا ہے جبکہ مادہ رات کو۔
نر پھولوں کا رس چوستا ہے مگر مادہ خون پیتی ہے ،اس کو انڈے دینے کے لئے لازماً خون پینا ہوتا ہے۔نر کوئی بیماری نہیں پھیلاتابلکہ پھولوں کو پھل سبزی بننے میں مدد دیتا ہے ،جبکہ مادہ مختلف جانوروں اور بیمار انسانوں کاخون پینے کی وجہ سے ملیریا اور جانے کیا کیا بیماریاں ایک دوسرے جانداروں کو منتقل کرنے کا باعث بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھینگرکی زندگی:
جھینگر کی زندگی مچھر سے مختلف ہوتی ہے،اس کے خوشکی پر صرف تین اشکال ہوتے ہیں ،انڈے ،نِمف اور جوان جھینگر۔
ماں گھر کے کونوں میں جہاں ہلکی سی نمی ہو،کچرا اور مٹّی ہوانڈے دیتی ہے،جب ان سے بچے نکلتے ہیں تو مچھر کی طرح ماں باپ سے مختلف نہیں ہوتے بلکہ بالکل ماں باپ جیسے ہوتے ہیں، صرف اُن سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں،مگر نشونما کے معاملے میں دوسرے حشرات جیسے ہوتے ہیں،جھینگرجب بڑا ہوتا جاہے تو اِس کا خَول(ایکزو اِسکے لیٹن )چھوٹا پڑ جاتا ہے اس کا خَول بے جان ہونے کی وجہ سے اِس کے ساتھ بڑھتا نہیں،اس کو اپنے اس خَول کو توڑکر باہر آناہوتا ہے،پھر خالق اس کواس سے بڑا نیا خَول عطا کر تا ہے،اس کوچھے سے بارہ بار ایسا کرنا ہوتا ہے،شکل و صورت میں نِمف بالکل اپنے بڑوں جیسا ہوتا ہے لیکن اس کا رنگ بدلتا رہتا ہے۔
اس کے پر ہوتے ہیں مگر یہ بقدرِضرورت اُڑتاہے ،یہ رات کو نکلتا ہے دن میں چھپا ہوتا ہے ،نر مادہ کو بلانے کے لئے اپنے پروں کو رگڑ کر آوازیں نکالتا ہے ۔یہ سبزی خور ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوں کی زندگی:
جوں کی زندگی بھی عجب زندگی ہے،غذا کے لئے اس کو خون علاوہ کچھ بھی پسند نہیں۔یہ خون انسان کا ہو یا بالوں والے جانوروں کا۔خاص کر ان کے بچوں کو تو خون بہت ہی پسند ہے۔
ان کی مائیں بال کی جَڑ کے قریب انڈے دیتی ہیں،سات دن بعد اس میں سے بچّہ نکلتا ہے، گیارویں دن یہ بچّہ بڑا (ٹین ایجر)ہوتا،پھر سولہویں دن یہ مکمل جوان ہوتا ہے،اٹھارویں دن یہ زوج تلاش کرتا ہے،انیسویں سے بتّیسویں دن تک اس کی مادہ انڈے دیتی ہے آخر پینتیسویں دن یہ مرجاتے ہیں۔
بالوں میں جب مائیں اپنے بچّوں سے سر میں باریک کنگی پھیرتی ہیں تو انڈے اور بڑی جوئیں تو نکل جاتی ہیں مگر نِمف اور بچّے نہیں نکلتے، چند دنوں میں یہ بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔مائیں خیال کرتی ہیں کہ جوئیں پھر پڑ گئیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توجہ کیجیے!یہ حشرات کے فائیلم آرتھوپوڈ کی صرف ایک کلاس ’اِنسَیکٹا‘چند اقسام تھیں۔اس کی نو
لاکھ اقسام’اسپیشیز‘ اس زمین پر دریافت ہوچکی ہیں جن کے نام بھی رکھے جا چکے۔اندازہ ہے کہ اب بھی بیس فیصد اور ہیں جن کو ڈھونڈنا باقی ہے۔
اندازہ کیجیے!اس زمین پر کتنے قسم کے جاندار ہوں گے،پھر اِن کا ٹوٹل عدد کتنا ہوگا۔یعنی اللہ خالقِ ارض و سماء کتنی مختلف قسم کی حیات کا موجد ہے۔
انسان چاہتا ہے کہ کوئی نئی قسم کی ایلیئن مخلوق صرف تصویر یا ویڈیو میں تشکیل دے ،حالاں کہ ایجاد نہ کریں،پھربھی ہم اللہ کے بنائی ہوئی کسی نہ کسی مخلوق کو ہی ’مِمِک‘ کر سکتے ہیں۔اللہ کی نقل کر سکتے ہیں اور تصوّر میں بھی کچھ نیا نہیں کر سکتے،جتنی زندگی کی شکلیں’اسپیشیز‘ممکن ہیں سب خالق نے بنادیں ہیں۔
چند دہائیوں پہلے تک انسان کے ذہن میں کاربن ہائیڈروجن اور آکسیجن کے بغیر کسی جاندار کا تصوّر نہیں کر سکتے تھے۔روشنی،خاص درجۂ حرارت اور دباؤ کے بغیر کسی زندگی کا تصوّر نہیں کر سکتے تھے۔
معلوم ہوا کہ اس زمین پر کیسی کیسی عجیب و غریب مخلوقات زندہ ہیں۔۳۵۰؍درجۂ حرارت پر،سمندر کی تہہ میں جہاں دراڑوں سے لاوا اُبلتا ہے،سطح زمین پر گرم پانی کے چشموں میں،سخت دباؤمیں،مکمل تاریکی میں،سلفر کے مرکّبات کھاکربغیر آکسیجن اور کابوہائیڈریٹ ، سخت سردی میں قطبین کی برف کے نیچے اور سب سے بڑھکر خلاء میں ہزاروں مخلوقات زندہ ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ:’’ اللہ نے جو کچھ بنادیا سو بنا دیا ،اُس کے پاس مزید کوئی چوائیس نہیں تھی،‘‘۔
اس زمین پر اتنی ساری چوائیس ہم کو نظر آرہی ہے تو پوری کائنات میں کتنی ہوگی؟
اُس نے قرآن میں صاف صاف کہہ دیا،’’میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں!‘‘۔
’’تمہاری چاہت سے کچھ نہیں ہوتا،جو میں چاہتا ہوں وہ ہی ہوتا ہے!!!‘‘
سبحٰن اللہ!الحمدُللہ!!اللہ اکبر!!!