آشیانہ

483

صبا احمد
دکھ سُکھ، دھوپ چھاؤں، دن رات، ساون بھادو، گرمی سردی خزاں اور بہار کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اسی طرح رشتے بھی کھٹے میٹھے، قریبی، برادری یا خاندانی ہوتے ہیں۔ ہر رشتے میں محبت ضروری نہیں، قربت یا دوری بھی معنی خیز نہیں۔ چونکہ دکھ سُکھ ایک دوسرے کی ضد ہیں، تو تضاد کی چاشنی تو موجود ہوگی۔ خوشی غمی، طنز و مزاح، صبح وشام، چاند اور سورج کی طرح گرمی اور ٹھنڈک کا احساس بھی پایا جانا لازمی عنصر ہے۔ وقت اور سمندر چڑھتے اور گھٹتے ہیں۔ دکھ کے بعد سُکھ کا مدوجزر آتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز کا دوسرا نام دکھ سُکھ ہے۔ حنا بستر پرلیٹے سوچ رہی تھی۔ زندگی کی 70 بہاریں اور خزاں دیکھ چکی ہوں۔ ’’آشیانہ دکھ سکھ‘‘ کی ذمے داری پچھلے بیس سال سے نبھا رہی تھی، بیگم عائشہ کے انتقال کے بعد سے اُن سے کیا وعدہ۔۔۔ اپنی بیٹی آمنہ کے مضبوط ہاتھوں میں ’’آشیانہ دکھ سُکھ‘‘ کی دیکھ بھال کی ذمے داری دے کر مطمئن ہوگئی ہوں۔
وہ سوچ رہی تھی کہ کیسے بیگم عائشہ اس کے ولیمے کی دعوت پر آئیں، مجھے منہ دکھائی دی اور میری ساس سے کہا ’’بشریٰ تمہاری بہو تو لاکھوں میں ایک ہے، ہنرمند ہے، سلائی کڑھائی بھی جانتی ہے حنا اچھی بہو ہے‘‘۔ بیگم عائشہ عید تہوار پر محلے داروں کو تحفے تحائف بھیجتیں، ان کے گھر میں بڑی بڑی دعوتیں ہوتیں تو وہ رشتے داروں اور پڑوسیوں کو بھی بلاتیں۔ سب کی مشکل میں کام آتیں۔ 1000 گز کا گھر تھا۔ گھر کے ساتھ ساتھ دل بھی کھلا۔ اچھے لوگ تھے۔ بیگم عائشہ کے چار بچے دو بیٹے، دو بیٹیاں تھیں۔ بڑے دونوں بیٹوں میں ایک اکاؤنٹنٹ اور دوسرا انجینئر تھا۔ چھوٹی بیٹیاں فاطمہ اور حفصہ کراچی یونیورسٹی میں سالِ اوّل اور دوم کی طالبہ تھیں۔ وہ بھی اپنے والدین کی طرح بااخلاق۔ ریاض صاحب کی دو فیکٹریاں تھیں۔ صاحبِ ثروت مگر اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کے مالک۔ بچیاں شادی کرکے لندن اور امریکا چلی گئیں۔ بیٹے بھی امریکا میں شادی کرکے وہیں مقیم ہوگئے کیونکہ ریاض صاحب کے چھوٹے بھائی ایاز وہاں مقیم تھے، اُن کی بیٹیوں کے ساتھ رشتے طے ہوئے تھے۔ بیگم عائشہ نے اپنی بیٹیاں اپنی بہنوں کو دے دیں، اس طرح وہ خاندان سے جڑے رہے۔
مگر میری ساس کے ساتھ ان کو دلی لگاؤ تھا۔ میرے شوہر سرکاری ملازم تھے، ساس جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں۔ دو بیٹیوں اور میرے شوہر امین کو انہوں نے بہت محنت سے پالا۔ میرے بھی تین بچے تھے۔ بیٹی آمنہ سب سے بڑی، احمد اور احسن ان سے چھوٹے۔ میرے شوہر کا بھی 45 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ساس بیمار رہنے لگیں۔ شوہر کی پنشن اور میری سلائی سے گھر چلتا رہا۔ بچے پڑھتے رہے۔ احمد کا میڈیکل میں داخلہ ہوگیا، احسن بھی انجینئرنگ میں داخلے کے لیے ٹیسٹ یعنی انٹری ٹیسٹ کی تیاری میں تھا کہ میری ساس اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ بیگم عائشہ تعزیت کے لیے آئیں تو بولیں: ’’حنا خود کو تنہا محسوس نہ کرو، جس طرح بشریٰ اور میری دوستی تھی، اب اُس کے حصے کا بچا کام تم کرو گی۔ کبھی بھی مشکل میں ہو تو بلا جھجک اپنا سمجھ کر آجانا‘‘۔ ان کو معلوم تھا کہ میرے والدین کا میرے بچپن میں انتقال ہوچکا تھا۔ بڑی بہن نے ماں بن کر سر پر ہاتھ رکھا اور شادی کی ذمے داری پوری کی۔
میری ساس کا سوئم ہوا، پھر چالیسواں، اور میری عدت پوری ہوگئی۔ گھر جیسے تیسے میں عدت میں چلاتی رہی۔ احسن کا انجینئرنگ کالج میں داخلہ ہوگیا۔ اب فیس اور داخلے کے لیے رقم درکار تھی، اس لیے میں پریشان تھی۔ بیگم عائشہ کو میں نے فون پر بتایا تھا کہ احسن کا نام لسٹ میں آگیا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئیں اور مبارک باد دی، اور مجھ سے کہا کہ کبھی گھر آؤ حنا۔
میں نے کہا آؤں گی۔ میں ملنے گئی تو مجھ سے گھر کے حالات کے بارے میں پوچھا، اس پر میں گھبرا گئی اور پسینہ پسینہ ہوگئی، تو وہ بولیں: ’’گھبراؤ نہیں، بشریٰ میری سہیلیوں جیسی تھی، اگر تمہیں احسن کے داخلے کے لیے روپے چاہئیں تو لے جاؤ، فکر نہ کرو، وہ بھی تو میرے بیٹے جیسا ہے۔ بشریٰ اس گھر میں آتی تھی، وہ میرے گھر کے باورچی خانے، مہمانوں کی دیکھ بھال اور تمام نوکروں کی نگرانی کرتی تھی اور میں اسے تنخواہ دیتی تھی۔ وہ قابلِ اعتبار خاتون تھی۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اس کی جگہ کام کرو۔ تم پر مجھے بھروسا ہے۔ اس طرح تمہیں اپنے بچوں کی پڑھائی میں مدد ملے گی۔‘‘ یہ سن کر میں خوش ہوگئی۔ ضرورت مند تھی، جھٹ ہامی بھر لی اور کہا کہ کل سے آجاؤں گی۔۔۔ صبح نو بجے۔
وہ خوش ہوگئیں اور سکون کا سانس لیا۔ انہوں نے مجھے روپے دیے جو میں نے احسن کو فیس اور داخلے کے لیے دے دیے۔ آمنہ نے ایم اے کرلیا تھا۔ وہ اسکول میں بھی پڑھا رہی تھی اور کالج میں کوشش کررہی تھی۔ اس نے امتحان دیا، پاس اور قریب ہی کالج میں لیکچرار لگ گئی۔ اب مجھ سے کپڑے نہیں سلتے تھے تو میں بیگم عائشہ کے گھر چلی جاتی۔ آمنہ ماشاء اللہ بارہ بجے کے بعد آکر گھر سنبھال لیتی۔ اس طرح ہماری اچھی گزر بسر ہوجاتی۔
ایک دن رات دو بجے اچانک زورزور سے دروازہ کھٹکھٹانے کی آوازیں آنے لگیں۔ احمد پڑھ رہا تھا۔ اس نے دروازے پر پوچھا ’’کون؟‘‘
کریم نے کہا ’’میں، بیگم عائشہ کا ڈرائیور۔ ریاض صاحب کی طبیعت اچانک بہت خراب ہوگئی ہے، بہن حناٰ سے کہیں کہ احمد کو بھیج دیں، وہ ڈاکٹری کررہا ہے، ان کو دیکھ لے گا‘‘۔ احمد نے دروازہ کھولا اور فوراً ڈرائیور کے ساتھ امی کو بتا کر چلا گیا۔ پیچھے سے حنا خود بے چین ہوگئی، کیونکہ وہ اس کے محسن تھے۔ وہ بھاگتی ہوئی بیگم عائشہ کے گھر بیگم منزل پہنچی۔
(جاری ہے)

طبی مشورے

حکیم ثمینہ برکاتی
سوال: حکیم صاحبہ! میرے گلے میں شدید درد ہے، اکثر آواز بیٹھ جاتی ہے۔ براہ مہربانی کوئی آسان سا گھریلو نسخہ بتائیں، یہاں دوائیں ملنا مشکل ہے۔
(انجم طارق۔۔۔ لیّہ)
جواب: بہن انجم لیجیے آسان اور سستا نسخہ حاضر خدمت ہے۔ 10 عدد منقیٰ لے کر ان کے بیج نکال کر اُن کی جگہ کالی مرچ رکھ کر بند کردیں، پھر منقیٰ کو توے پر ہلکا سا سینک کر ایک ایک آہستہ آہستہ چبا لیں۔ اس کے علاوہ ادرک کا رس شہد میں ملا کر چاٹ لیں۔ بچی ہوئی چائے کی پتی میں ایک کپ پانی ڈال کر تھوڑا سا نمک ملا کر جوش دیں اور دن میں دو دفعہ غرارے کریں، ان شاء اللہ بہت جلد اور مکمل افاقہ ہوگا۔
سوال: میں نے آپ کا نسخہ جگر کے لیے استعمال کیا، الحمدللہ اب کافی افاقہ ہے۔ میری بہن بھی جگر کے عارضے میں مبتلا ہے، بیشاب بہت پیلا آتا ہے، اس کے لیے بھی کوئی علاج بتائیں۔
(نوبہار۔۔۔ کوئٹہ)
جواب: آپ کی ہمشیرہ کو پانی زیادہ پینا چاہیے۔ تازہ لیموں کا رس پانی میں ملا کر پینے سے جگر کو فائدہ ہوتا ہے۔ جگر خون کا منبع ہے، اس کے علاج میں غفلت نہ برتیں۔ گائے کے گوشت اور چکنائی سے مکمل پرہیز کریں۔
سوال: میری ایک رشتے دار کو آپ کے علاج سے اولاد کی خوش خبری ملی ہے، میں بھی بڑی امید سے آپ کو لکھ رہی ہوں۔ شادی کو چار سال ہوگئے، ایام میں بے قاعدگی ہے، سفید پانی کثرت سے آتا ہے۔
(شکیلہ۔۔۔ کراچی)
جواب: شکیلہ صاحبہ! اپنی پچھلی تمام رپورٹوں کے ساتھ وقت لے کر ملاقات کریں۔ تفصیلی حال معلوم ہونے پر صحیح علاج ہوسکے گا۔ شفا دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ ہے۔
سوال: میری عمر 20 سال ہے اور میری بینائی متاثر ہورہی ہے، جسمانی صحت بھی کمزور ہے، براہِ کرم آسان سا علاج تجویز کریں۔
(لبنیٰ فاروق۔۔۔ کراچی)
جواب: لبنیٰ بیٹی! اتنی کم عمری میں بینائی متاثر ہونا تشویش کی بات ہے۔ بہرحال اپنی غذا پر توجہ دیں، گاجروں کا موسم جب تک ہے باقاعدگی سے ایک گلاس گاجر کا جوس پئیں، یہ آنکھوں کے لیے بے نظیر چیز ہے۔ ٹی وی اتنے واہیات پروگرام نشر کررہا ہے، اچھا ہے کہ نہ ہی دیکھیں۔ اس کی شعاعیں آنکھوں کو متاثر کررہی ہیں اور پروگرام اخلاق کو۔
سوال: میرا پانچ ماہ کا ابارشن ہوا ہے، کمر میں سخت درد رہتا ہے، کوئی اچھی سی دوا بتادیں، تاکہ میں جلد گھر کے کام کاج کرسکوں۔
(مسز ضیا۔۔۔ ملتان)
جواب: نارمل ڈیلیوری کے بعد عورت گھر کے کام کاج کرسکتی ہے، لیکن ابارشن کے بعد آپ کو کچھ دن مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ کسی معیاری دواخانے کا چار عرق اور حب سورنجان آپ کی تکلیف میں افاقہ کرے گی۔ ہلکی اور اچھی غذا پر خصوصی توجہ دیں۔ کھجور، دودھ، انار، کینو کثرت سے استعمال کریں۔

تو کیسا غم

مدیحہ صدیقی

برتنے سے کوئی برتن
اگر ٹوٹے تو کیسا غم
انہیں تو ٹوٹنا ہی ہے
نہیں ہوتے ہیں اس سے کم
تو کیسا غم
ملا کر کھا بھی لینے سے
اگر کچھ ہو گیا ہے کم
بظاہر کم
تو کیسا غم
رواں رہنے میں برکت ہے
رواں رہنے میں الفت ہے
کبھی دریا کا پانی بھی
ہوا ہے کم
تو کیسا غم
یہ سب ہیں مادی اشیا
ذرا ٹو ٹیں تو
غم پالیں
اگر بانٹیں
تو دل تھامیں
یہ سب دنیا کی زینت ہے
پہننا،اوڑھنا،رہنا
ہر اک کا وقت معیّن ہے
ہر اک کا رزق متعین ہے
ملے گا کب،زیادہ،کم
تو کیسا غم

حصہ