عارف رمضان جتوئی
وہ عزت سے پیسے کمانا چاہتی تھی۔۔ گھر میں مسائل تھے۔۔ اس کی نہ تو کوئی عزت تھی اور نہ ہی کوئی احترام تھا۔۔ ہر وقت بس سب ہی اسے ڈانٹتے رہتے۔۔ کچھ چاہیے ہوتا تو منتوں سماجتوں سے ملتا وہ بھی ڈانٹ کر واپس لے لیا جاتا تھا۔۔۔ کئی بار اس کے دل میں خیال آیا کہ اس سے اچھا تو یہ کہ وہ کوئی کام کیوں نہ کر لے اور اپنے لیے ڈھیر سارے پیسے کما لے۔۔ اس نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک دوست سے بات کی۔ اس نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ تم آن لائن کچھ کام کرنا شروع کردو۔ اسے اپنی دوست کا یہ مشورہ بہت پسند آیا۔ مگر کام کیسے ملے گا۔۔ اس کا بھی اس کی دوست نے بندوبست کردیا۔ اس نے اپنے ایک جاننے والے لڑکے سے اس کا رابطہ بھی کرادیا۔ کچھ ہی روز میں اس لڑکے نے کام بھی دے دیا۔ اس کام کے اسے ایڈوانس پیسے بھی مل گئے۔ وہ بہت خوش تھی۔ ایک دن اسے گھر سے باہر بلایا گیا۔ کہا گیا کام کے سلسلے میں ایک تربیتی ورکشاپ ہے۔ وہ گھر میں کسی کام کا بول کر پہلی بار دہلیز پار کر گئی۔
وہاں بہت سی لڑکیاں تھیں۔ کام کے سلسلے میں بہت سی باتیں سکھائی گئیں۔ اسے یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا۔ ایک بجے تک انہیں چھٹی دے دی گئی۔ وہ سب لڑکیوں کی طرح خوش گھر لوٹ آئی۔ کچھ روز بعد کہا گیا کہ اب انہیں آفس میں کام کرنا ہوگا۔ اس لیے سب کو آنا ہے۔ وہ با اعتماد طریقے سے ان کے پاس چلی گئی۔ وہاں پہلے والی تمام لڑکیاں موجود تھیں۔ سب ہی آفس میں کام کے لیے رضامند تھیں۔
وہاں سے گاڑی کے ذریعے ان سب لڑکیوں کو ایک بڑے سے ہوٹل میں منتقل کیا گیا۔ وہاں سب کچھ نفیس تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ اتنا عزت مل رہی تھی۔ دو ماہ ایسے گزرے تھے جیسے وہ چاہتی تھی۔ کھانے کا وقت ہو چکا تھا۔ بہت عمدہ کھانا تھا۔ کھانے کے بعد انہیں جیسے نیند سی آنے لگی تھی۔ آرام کے لیے الگ جگہ متعین تھی۔
اس کی زندگی کا وہ آخری دن تھا۔ اس کے بعد اس کا ہر دن ذلت و رسوائی کی الگ داستان لیے کھڑا تھا۔ نہ جانے کیسے بچ بچا کر وہ وہاں سے نکل آئی تھی۔ آج وہ پریس کلب کے باہر کھڑی تھی۔ ہاتھ میں ایک پلے کارڈ پکڑ رکھا تھا۔ جس پر ’’مجھے انصاف دلادو۔۔۔ خدا کے لیے مجھے انصاف دلا دو۔۔۔‘‘ جیسے الفاظ تحریر تھے۔ وہاں سے لوگ گزرتے جارہے تھے۔ پریس کلب کے باہر کھڑے سیکورٹی گارڈ نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ’’صیب اس کی بات سنیں۔۔۔ اس کے ساتھ بہت زیادتی ہوا ہے۔‘‘ میں نے اس سے سرسری پوچھا مگر بتانے سے قبل اس کی آنکھ چھلک پڑیں۔ میں وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔ اس کا ہر لفظ تلخ تھا۔۔۔ میری آنکھیں نم تھیں۔ میں منہ نیچے کیے چپ چاپ اس کی باتیں سنتا رہا۔ اگلے روز اخبار میں تین کالم کی سرخی کے ساتھ میری بھی ایک عدد تصویر تھی۔
میرے ارد گرد ایسے کئی واقعات ہیں۔۔۔ جن کو بیان کرنا مشکل ہے مگر پریس کلب کی بیرونی دیوار کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بنائی گئی جگہ ان سے خوب واقف ہے۔ ایک ماہ قبل اسی جگہ ایک لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ اسی طرح ہاتھ میں انصاف دلاؤ کا بینر پکڑے کھڑے تھے۔ چلتے قدم رک گئے۔ پوچھ لیا کیا ہوا۔۔۔ کہانی شروع ہوگئی۔ لڑکا آگے بڑھا۔ کہا یہ میری بیوی ہے۔ میرے بھائی نے کہا اسے بیرون ملک بھیج دیتے ہیں وہاں گھروں میں کام کرنے کے لیے لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ میں نے بھائی پر بھروسہ کیا۔ بڑی مشکل سے دو لاکھ جمع کیے اور بھائی کو دے کر بیوی کو روانہ کردیا۔۔۔ اس کے بعد وہ ناجانے کیا کچھ بولتا رہا اور میری سماعت جواب دے چکی تھی۔۔۔ بھائی نے بھابھی کے ساتھ ایسا کیا۔۔۔ سوچنا مشکل تھا۔۔ مگر ہوچکا تھا۔۔۔
یہ سب کیوں ہوا اور ہورہا ہے جواب آپ خود ڈھونڈ لیں۔۔۔ شاید اس لیے کہ انہیں اپنی خواہشات کے سوا کچھ نہیں دیکھائی دے رہا ہوتا۔۔ یہ پھر وہ مجبور ہوتے ہیں اور اس مجبور ہوتے ہیں اور اس مجبوری کے حل کے لیے اپنی زندگی ختم کر بیٹھتی ہیں۔
ہاں ایک بار اس لڑکی کا فون آیا تھا۔ وہ بتا رہی تھی کہ اس کی شادی ہوچکی ہے۔۔ اب اس کی کوئی خواہش نہیں بس جو ہے جتنا ہے وہ اسی میں خوش ہے۔۔ اس نے کہا ’’سر! میرا ایک پیغام اپنے کالم کے ذریعے سب کو دے دیجیے گا۔ ہر اس لڑکی کو جسے لگتا کہ وہ غریب ہے اور اس کی گھر میں عزت نہیں ہوتی۔۔ باہر کی دنیا بہت ظالم ہے۔۔ روز جینا اور روز مرنا پڑتا ہے۔۔ عزت کیا چیز ہے یہ باہر جا کر پتا چلتا ہے۔۔۔ اس لیے جتنا ہے جو ہے اور جیسا ہے اسی کے ساتھ خوش ہوجائیں۔۔ میرے لحاظ سے بھوک سے بڑھ کر آپ کی عزت ہے اور وہ محفوظ ہے تو گویا سب کچھ ہی تو آپ کے پاس ہے۔ اچھا سر! اب رکھتی ہوں۔ اللہ حافظ۔ وہ کب کی فون بند کر کے چلی گئی تھی۔ میں ابھی تک وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔۔۔ شاید ابھی تک وہیں ہوں اور کبھی لوٹ کر نہ آ پاؤں۔
جینیاتی ترمیم شدہ پودے
محمد معاذ (زرعی یونیورٹی، فیصل آباد)
ٹرانس جینک پلانٹس ان پودوں کو کہا جاتا ہے جن کے ڈی این اے کی جینیاتی انجینئرنگ کے طریقوں کی مدد سے ترمیم کی جاتی ہے۔ اس ترمیم کا مقصدان پودوں میں نئی اور پہلے سے بہتر خصوصیات کو متعارف کرانا ہے جو ان پودوں میں پہلے سے موجود نہیں ہوتیں۔ ٹرانسجینک پودوں میں ایک یا ایک سے زیادہ جینز کو مصنوعی طریقوں سے ڈالا جاتا ہے اور جس جین کو کامیابی سے پودے میں متعارف کروا دیا جائے اس کو ’’ٹرانس جین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ جین کسی دوسرے پودے یا مکمل طور پر کسی اور نسل کے پودے سے بھی ہو سکتی ہے۔ پودوں میں نئی جینز متعارف کرانے کے بعد پودوں کو پہلے سے زیادہ مفید اور پیداواری بنایا جاسکتا ہے۔ اس رجحان کا مقصدپودوں میں کچھ خصوصیات کو بہتر بناناجیسا کہ معیار، شیلف لائف بڑھانا، زیادہ پیداوار، کیڑوں سے مزاحمت، گرمی اور ٹھنڈکی برداشت،قحط سے مزاحمت اور دوسری کشیدگیوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرنا ہے۔
ان ٹرانس جینک پلانٹس کو پیدا کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ان میں بیرونی پروٹین کو متعارف کرایا جائے جن کے اندر صنعتی اور دوا سازی کی خصوصیات موجود ہوں۔جو پودے ان پروٹین کی مدد سے پیدا کئے جاتے ہیں وہ انسان کی پھیلائی گئی بیماریوں سے پاک ہوتے ہیں۔اس کا ایک بہت اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اسکریننگ کے اخراجات سے نجات مل جاتی ہے۔سب پہلا ٹرانس جینک پودا 1983ء میں متعارف کرایا گیا تھاجس کے بعد سے اب تک بہت ساری فصلوں میں جیسا کہ مکئی، ٹماٹر، آلو، کیلا، تمباکو اور الفالفہ میں یہ پروٹینز کامیابی سے متعارف کرائی جا چکی ہیں۔جینیاتی طور پر ترمیم کی ٹیکنالوجی کو مختلف اقسام کے پودوں کو تیار کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔جیسے جیسے دنیا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے خوراک محدود ہو تی جارہی ہے۔جس کی وجہ سے ٹرانس جینک پودوں کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی پیداوار بڑھانے ،نقل و حمل کے اخراجات کم کرنے اور غذائی مواد بڑھانے میں اہم فوائد فراہم کرتا ہے۔امریکا اور کینیڈا جہاں پہ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا ہے وہاں پر کیڑوں کے خلاف مزاحمت اور کیڑے مار دوائیوں کے لئے برداشت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جبکہ کچھ مواقع پر قیمت اور آسانی کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔دنیا میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کی کاشتکاری میں 1996 میں7.1 ملین ہیکٹروں سے 2001 میں6.52ملین ہیکٹروں تک اضافہ ہواہے جو کہ صرف چھ سالوں میں 30 گنا اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔تاہم جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کے اتنے فوائد ہونے کے باوجود بہت سے صحت اور ماحول کے متعلق خدشات بھی اٹھائے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان پودوں کی وسیع پیمانے پہ پھیلاؤ میں مخالفت آرہی ہے اور اس کی مقبولیت میں فقدان آرہا ہے۔جبکہ دوسری طرف اسی طریقہ کار سے تیار کردہ ادویات اور دوسری مصنوعات کو بڑے پیمانے پر عام استعمال میں لایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بھی جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کو استعمال میں لایا جا رہا ہے جن میں سے سر فہرست بی ٹی کاٹن ہے۔کاٹن میں ایک عام زمینی بیکٹیریا کی جینز کو متعارف کروایا جاتا ہے جس کی بدولت کاٹن کا پودا ایک پروٹین پیدا کرنا شروع کرتا ہے جو کہ کاٹن کے کچھ جان لیوا کیڑوں کے لئے مضر ہوتی ہے۔بی ٹی کاٹن کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی خدشات بی ٹی جینز اور وہ جس فصل میں متعارف کرائی جائیں اس پر منحصر ہے۔کیونکہ بہت سے کیڑے ہر جگہ پر مضر نہیں ہوتے اور بالکل اسی طرح بی ٹی جینز ہر جگہ کار آمد نہیں ہو سکتی۔بی ٹی کاٹن کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے کیڑے مار ادویات کے سپرے میں نمایاں کمی آتی ہے جس سے بہت سے ماحولیاتی آلودگی کیخدشات سے بچاؤ ممکن ہے۔دنیا میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ کاٹن کی کاشت میں 1996میں 2فیصد سے 2002 میں 15 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور اس میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے جو کہ بہت خوش آئند بات ہے۔سنہری چاول جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کی ایک اور مثال ہے جس کی مدد سے چاولوں میں جینیاتی طریقے سے وٹامن اے بنوایا جاتاہے۔دنیا میں 200ملین سے زیادہ لوگ وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں اور سنہری چاول اس کمی کو پورا کرنے کا سنہری،آسان اور سستا طریقہ ہے۔جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودے بہت سے فوائد کے ضامن ہیں جن کے بارے میں پہلے بتایا جا چکا ہے۔
جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کے استعمال کے بہت سے نقصانات بھی ہیں جس کی وجہ ان کی ناقص ٹیسٹنگ ہے۔جینیاتی طریقوں کے استعمال کے بعد پودوں میں جو پروٹینز پیدا ہوتیں ہیں وہ انسان کے جسم میں جا کر بہت سے بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہیں۔جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کے استعمال سے خوراک کی الرجی بھی جنم لے رہی ہے جو بچوں پر جان لیوا طریقوں سے اثراندز ہو رہی ہے۔جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودے نہ صرف انسانی بلکہ حیوانی آبادی اور ماحول پر بھی اثر اندا ز ہوتی ہیں۔ان کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی طور پر موجود پودوں کے لئے بھی مضر ثابت ہوئے ہیں۔جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کی کاشت ان جینز کی دوسرے پودوں تک رسائی بھی ممکن بنا رہی ہیں جو کہ ان پودوں کے لئے ہی نئی بلکہ ان پودوں کو استعمال کرنے والوں کے لئے بھی مضرِ صحت پائی گئی ہیں۔ اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پودوں کی کاشت بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان نقصانات پر بھی نظرثانی ضروری ہے جو یہ پودے انسانوں ،جانوروں اورہمارے اِرد گِرد کے ماحول کو پہنچا رہی ہیں۔