فاطمہ ساجد
بادشاہ کی ساٹھویں سالگرہ کی آمد تھی۔ پورے ملک میں اعلان کردیاگیا کہ بادشاہ کی سالگرہ پر عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ بادشاہ نے اپنی سالگرہ پر یہ اعلان کرایا کہ ان کے لیے ایسی شاندار پوشاک تیار ہوجیسی کسی نے آج تک استعمال نہ کی ہو۔
جوبھی بادشاہ کے لیے ایسی انوکھی پوشاک تیارکرے گا اسے انعام واکرام سے نوازا جائے گا۔ چندوجولا ہے کے تین ذہین لڑکے تھے جو بادشاہ کے مظالم سے تنگ تھے ، یہ تینوں بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور بادشاہ سے کہنے لگے ہم آپ کے لیے ایسا لباس تیار کریں گے جو آج تک بڑے بڑے بادشاہوں کو نصیب نہ ہوا ہوگا لیکن ہماری ایک عرض سن لیں کہ یہ انوکھا لباس دیکھ کر ہر کوئی عش عش کراٹھے گا لیکن جھوٹے ، بے ایمان اور فریبی شخص کو یہ لباس نظر نہیں آئے گاالبتہ اخراجات بہت زیادہ ہوں گے کیوں کہ کپڑا سونے کی تاروں سے تیار ہوگا اور لباس پر ہیرے جواہرات سے کام ہوگا۔
بادشاہ نے لڑکوں کومطلوبہ رقم فراہم کردی۔
دس پندرہ دن کے بعد بادشاہ نے اپنے سپہ سالار سے کہا وہ جا کردیکھے کہ ان لڑکوں کا کام کہاں تک پہنچا ہے۔ سپہ سالار نے دیکھا کہ لڑکے کپڑے بننے کے انداز میں خالی ہاتھ ہلارہے ہیں۔
سپہ سالار چونک ایک قریبی اور بے ایمان شخص تھا اس لیے اس نے اپنا بھرم رکھنے کے لیے بادشاہ کو اطلاع دی کہ حضور لڑکوں نے آپ کیلئے لاجواب پوشاک تیار کی ہے۔ تین چار دن بعد جھوٹے اور بے ایمان وزیرنے بھی بادشاہ کو یہی رپورٹ دی۔
بادشاہ بہت خوش تھا کہ کل شام جب وہ پوشاک پہن کردرباریوں کے ساتھ گشت کرے گا تو لوگ اسے مبارکباد دیں گے۔ اگلی صبح لڑکے بڑے بڑے خالی تھان لے کر محل میں آئے۔ بادشاہ خالی تھان دیکھ کر حیران ہوا۔ پھر اس کو اپنے جھوٹے اور بے ایمان وزیرکی داستانیں یاد آئیں اور لباس نہ نظر آنے کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی۔
اس لیے اس نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا یہ لاجواب لباس ہے۔ سب لوگ بادشاہ کو فقط ایک سرخ کی نیکر میں دیکھ کر قہقہے لگارہے تھے اور بادشاہ سمجھ رہاتھا کہ اس کی پوشاک کی تعریف ہورہی ہے۔ اچانک بادشاہ کو ایک بچے کی آواز آئی جو اپنے باپ سے پوچھ رہا تھا ابو ! بادشاہ سلامت صرف ایک نیکر پہنے کیوں کھڑے ہیں؟ خاموش بے ادب اگر بادشاہ نے سن لیا توسزا ہوجائے گی۔
دیکھا بچو! تین ذہین لڑکوں نے بادشاہ کو کیسے بے وقوف بنایا۔
علم کی لگن
سیما اختر
اسکول بس کے تیز ہارن کی آواز سنی بلال نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ وہ ننگے پاؤں میلے کپڑے پہنے، آس پاس بکھری ہوئی گندگی میں کھڑا، کچرے کا تھیلا اپنے کندھے پر ڈالے ہوئے صرف یہ سوچ رہا تھا کہ میں بھی ان بچوں کی طرح صاف ستھرایونی فارم پہن کر اسکول جاتا۔
اس کے باپ نے کچراچن کر ہی سہی، مگر اپنی اولاد کو حرام کی کمائی کبھی نہ کھلائی۔ باپ کے لیے دو وقت کی روٹی کھلانا ہی مشکل تھا۔ تعلیم کے اخراجات پورے کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔
سب بچے اپنااپنا بیگ سنبھالتے ہوئے اسکول کے اندر داخل ہوئے۔
کام سے فارغ ہوکر بلال نے باپ سے پوچھا: بابا! کیا میں کبھی نہیں پڑھ سکوں گا؟
روزانہ ایک ہی سوال ، تیرادل نہیں بھرتا؟ جب توجانتا ہے کہ میں تیری یہ خواہش نہیں پوری کرسکتا توکیوں مجھے تنگ کرتا ہے۔ بیٹا ! اب روٹی کھالے اورسوجا جتنی جلدی صبح اٹھے گا اتنا اچھا کچرا ملے گا۔
کچرا توکچرا ہوتا ہے بابا! اچھابرا کچرا کیاہوتا ہے!آخر وہ سوچتے سوچتے سوگیا۔ اگلے روز کچرے کے ڈھیر کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کے باپ کو عربی زبان میں لکھاہوا ایک کاغذ ملاتو اس نے اسے چوم کر آنکھوں سے لگالیا۔ اب اسے رکھتا کہاں! ہاتھ میں جوتھیلا تھا، وہ گندی چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔
اس نے قریبی ایک بڑی جامع مسجد کارخ کیا۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ دوسرے تمام علوم کی تعلیم مفت دی جاتی تھی۔ دروازے کے اندقدم رکھتے ہوئے اس کادل ہچکچایا۔ سامنے لکھا تھا: صفائی نصف ایمان ہے۔ اسے مسجد کے احاطے کے اندر صاف ستھرے لباس پہنے، سلیقے سے ٹوپی لگائے ہوئے ایک بچہ نظر آیا۔
اس نے بچے کو اشارے سے بلایا: بیٹا! یہ اس ڈبے میں ڈال دو۔ قریب آنے پر اسے اپنا بیٹا یاد آگیا۔
تم یہاں کیا کررہے ہو؟ اس نے یونہی پوچھ لیا۔
بچے نے بڑی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ میں یہاں پڑھتاہوں۔
یہاں کیا پڑھتے ہو؟
قرآن وحدیث اور دوسری علمی کتابیں۔
اتنے میں مسجد کے امام صاحب آگئے تو اس نے پوچھا: امام صاحب یہاں پر بچوں کی تعلیم پر کتنا خرچا آتا ہے۔
کچھ بھی نہیں، ہم یہ کام اللہ اور اس کے رسول ؐ کی رضاکے لیے کرتے ہیں، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟
میرے بیٹے کوپڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے۔۔۔ مگر کہا کروں کچرے کے ڈھیر سے پیٹ کی آگ تو بجھ جاتی ہے، مگر علم حاصل کرنے کے لیے تو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے لاؤں۔۔۔‘‘
تم اس کوکل ہمارے پاس لے آنا۔
مگر۔۔۔‘‘
مگر کیا؟ جناب ! اس کے پاس صاف ستھرے کپڑے اور جوتے نہیں ہیں۔
مولوی صاحب نے اس کے بیٹے کی عمر معلوم کی اور پھر ایک شاگرد کواشارے سے بلایا۔ اس کے کان میں کچھ کہا۔ شیرخان نے مایوس ہوکرواپسی کاارادہ کیااور کچرے کا تھیلا کندھے پرڈال کر ابھی چندقدم آگے بڑھا ہی تھا کہ مولوی صاحب کی آواز آئی: یہ لوکپڑے اور جوتے ، کل اسے نہلا دھلا کر ہمارے پاس لے آنا۔
کل سے تمھارا بیٹا ہمارا شاگرد ہے۔
شیرخان نے گھر پہنچ کر دیکھا کہ آج بلال چپ چاپ کمرے کے ایک کونے میں لیٹا ہوا ہے۔ نہ کوئی فرمائش اور نہ کچرے کے تھیلے میں سے کچھ ڈھونڈنے کی لگن۔ شیرخان نے وہیں زمین پر بیٹھتے ہوئے اس کے سر کواپنی گود میں رکھ لیا اور بے ساختہ اور اس کے ماتھے کوچومنے لگا۔
وہ باپ کی گود میں چھپ گیا: بابا ! مجھے پڑھنا ہے، اچھا انسان بننا ہے۔
ضروربیٹا ضرور۔
غیر متوقع جواب سن کر بلال اٹھ کر بیٹھ گیا۔
ہاں بیٹا! یہ کہہ کر شیرخان نے اسے نئے کپڑے اور جوتے دیے اورکہا: کل سویرے ہی ہم چلیں گے۔اب تجھے رونے اورکچرااْٹھانے کی ضرورت نہیں۔
بلال کی آنکھوں میں چمکتی خوشی دیکھ کر شیر خان کا چہرے بھی خوشی سے کھل اٹھا۔
چوتھا سیب
قائد اعظم ،گورنر جنرل ہاؤس کے اخراجات کے متعلق بہت محتاط تھے۔ وہ کم سے کم خرچ کرنے پرزور دیتے تھے۔ ذاتی خرچ پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔ ان کا حکم تھا کہ کہ کھانے پرجتنے مہمان آئیں، پھل اسی تعداد میں پیش کئے جائیں۔ مثلاًاگر تین مہمان ہیں تو صرف تین ناشپاتیاں ہوں۔
کشمیری رہنماوں میں غلام عباس صاحب قائداعظم کے بہت نزدیک تھے۔ ایک دن وہ قائداعظم سے ملنے تشریف لائے۔ دوپہر کے کھانے پر قائداعظم ،محترمہ فاظمہ جناح اور غلام عباس تین لوگ موجود تھے۔ کھانے کے بعد جب پھل لائے گئے تو وہ چار سیب تھے۔
غلام عباس صاحب چلے گئے تو قائداعظم نے اپنے ADC (ماتحت افسر) کو بلوایا اور پوچھا کہ کھانے پر صرف تین لوگ تھے تو چوتھا سیب کس کے لئے تھا؟
نوجوان افسر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیوں کہ قائداعظم کا حکم تھا کہ جتنے لوگ کھانے پر ہوں ، اتنی ہی تعداد میں پھل ہونے چاہئیں۔
چوتھا سیب قائداعظم کے حکم کے خلاف تھا۔ افسرنے صرف اتنا ہی کہا:’’ سر! غلطی ہو گی۔‘‘
قائداعظم نے انتہائی نرمی سے کہا:’’ ایسی غلطی آئندہ نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ پاکستان جیسا غریب ملک سرکاری اخراجات میں فضول خرچی برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
قائداعظم نے افسرکو معاف کر دیا۔ حکم یہی تھا کہ سرکاری خرچ کو کم سے کم رکھا جائے۔ قائداعظم کی زندگی میں کسی نے ایسی غلطی دوبارہ نہیں کی۔ قائداعظم جیسی خوبیوں والی شخصیات ہی پاکستان جیسا ملک بنا سکتی ہیں۔