تیزاب گردی

905

قدسیہ ملک
بی بی سی اردو کی حال ہی میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیزاب گردی سے متعلق قانون کے باوجود حال ہی میں کراچی میں چار کیسز سامنے آئے جس پر خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان میں تیزاب گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن) کی تین سالہ کارکردگی کے جائزے کے لیے پیر کو کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں سیمینار ہوا جس میں تیزاب گردی اور اس سے متعلق قانون میں کمزوریاں زیر بحث رہیں۔ پاکستان میں تیزاب کے حملوں سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے بنائے گئے ادارے ایسڈ سروائیور فاؤنڈیشن کی ترجمان ویلیری خان نے بتایا کہ ’’پاکستان میں 2014ء میں تیزاب گردی کے 143 کیس سامنے آئے اور اس سال یہ تعداد بڑھی ہے۔ تیزاب گردی کے 80 فیصد کیس پنجاب سے آرہے ہیں، لیکن حال ہی میں کراچی سے چار کیس رپورٹ ہوئے۔ موجودہ قانون بہت بہتر ہے کیونکہ اس میں تیزاب گردی کو ریاست کے خلاف جرم مانا جاتا ہے اور بہت سی جگہوں پر ایسے مقدمات کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں شنوائی ہوتی ہے، اور جلد ہی اس کا نتیجہ نکلتا ہے‘‘۔ خاور ممتاز، چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نے اس موقع پر حال ہی میں تیزاب کے حملے کا شکار ہونے والی ایک متاثرہ خاتون سدرہ کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ اُن کا شوہر کماتا نہیں تھا اس لیے سدرہ نے ملازمت شروع کی تھی، لیکن کام پر جاتے ہوئے صرف چار ماہ ہوئے تھے کہ گلی میں رہنے والے ایک شخص نے ان پر تیزاب پھینک دیا۔ ’’رمضان میں صبح چھ بجے میں کام پرجارہی تھی کہ وہ سڑک پر آیا اور کہا کہ مجھ سے شادی کرو گی؟ میں نے انکار کیا تو کہنے لگا کہ اگر تم شادی نہیں کروگی تو میں تمہیں کسی بھی لائق نہیں چھوڑوں گا، اور میرے منہ پر تیزاب پھینک کر بھاگا، مگر محلے والوں نے اسے پکڑ لیا۔ میرے چہرے سے خون بہہ رہا تھا، سارا چہرہ گل گیا تھا، لیکن ہسپتال والوں نے سرجری کیے بغیر پانچ روز کے اندر چھٹی دے دی۔گھر کی چھتیں ٹین کی ہیں، میں گرمی کی وجہ سے بہت بے سکون تھی‘‘۔ بعد میں سدرہ پر تیزاب کا حملہ کرنے والے کے خلاف چالان داخل کرانے اور سدرہ کے علاج معالجے کی ذمے داری غیر سرکاری تنظیموں عورت فاؤنڈیشن اور ویمن ایکشن فورم نے اٹھائی۔ سدرہ نے بتایا کہ اس واقعے نے اس کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
پاکستان میں تیزاب کے حملوں پر کڑی سزائیں دینے سے متعلق 2011ء میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا۔ خاور ممتاز نے کہا کہ ’’اس قانون کے بہت سے مثبت پہلو ہونے کے باوجود یہ کافی نہیں ہے، کیونکہ اس میں ابھی تک تیزاب کی کھلے عام فروخت کو روکنے اور متاثرہ شخص کی طبی، نفسیاتی اور معاشی بحالی سے متعلق کوئی شق نہیں ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج مہتا کیلاش ناتھ کوہلی کا تیزاب گردی سے متعلق قانون سازی میں بنیادی کردار رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’تیزاب کے حملے کے بعد متاثرہ شخص کی بحالی کی ذمے داری حکومت کو دینے سے متعلق قانون منظور نہیں ہوسکا تھا، جس کی وجہ سے متاثرہ شخص کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل سکا‘‘۔ اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے سدرہ کی معاشی مدد کے لیے دس لاکھ روپے دینے کے علاوہ لیاری میڈیکل کالج میں مفت علاج کی پیش کش کی۔ اس سلسلے میں جلد از جلد اسمبلی سے تیزاب گردی کے خلاف ایک جامع بل پیش کرکے منظور کرنے کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم ’بولو بھی‘ مہم چلا رہی ہے۔ لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نظر نہیں آرہے۔ ایک حد تک تو قانون سازی کردی گئی ہے لیکن قانون پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ قانون پر عمل تو ایک طرف، ایسی خواتین کو جس طرح کی سرجری کی ضرورت ہوتی ہے حکومت وہ ضرورت بھی پوری نہیں کررہی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نہ صرف حکومت ایسے درندوں کو کڑی سزائیں دیتی بلکہ سرکاری سرپرستی میں ایسی خواتین کے لیے اسپیشل سرجری سینٹر بنائے جاتے جہاں اُن کے چہرے کے خدوخال دوبارہ درست کیے جاتے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ویسے تو فیمین ازم کا شور مچاتی ہیں لیکن اس حوالے سے ابھی تک حوصلہ افزا کام نہیں ہوسکا۔ صحافی حضرات بھی حقوق و فرائض کی ایک لمبی فہرست لیے پھرتے ہیں، لیکن گنتی کی چند خواتین صحافی ہیں جو عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرتی ہیں۔
پاکستان میں ہی نہیں، ترقی یافتہ ممالک میں بھی تیزاب گردی عام ہے۔ ایکسپریس اردو کی رپورٹ کے مطابق رواں برس مارچ میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کی جانب سے رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ لندن میں تیزاب گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ 2014ء میں لندن میں مجموعی طور پر تیزاب سے حملے کے 166 واقعات رپورٹ کیے گئے تھے، جبکہ 2015ء میں ان کی تعداد بڑھ کر 261، اور 2016ء میں 454 تک جاپہنچی تھی۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں لندن ہی میں ایک مسلم خاتون ماڈل ریشم خان اور ان کے کزن پر تیزاب سے حملہ کیا گیا تھا، جبکہ گزشتہ دنوں یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ بنگلادیش کے کرکٹر تمیم اقبال اور ان کی اہلیہ پر بھی لندن کی سڑک پر تیزاب سے حملے کی کوشش کی گئی تھی، جس کے بعد تمیم اقبال کاؤنٹی کرکٹ کو ادھورا چھوڑ کر فوری طور پر وطن واپس آگئے تھے۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں تیزاب گردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ایک ہی رات میں تیزاب گردی کے پانچ واقعات رپورٹ ہوئے۔ نیونیٹ ورک میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سے برطانیہ میں تیزاب گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پچھلے 6 ماہ میں تیزاب پھینکنے کے چار سو سے زائد واقعات رپورٹ کیے گئے ہں۔ سیاست دانوں اور تیزاب کے حملوں سے متاثرہ افراد نے ان حملوں میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دینے کے مطالبات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ارکان پارلیمان نے بھی اس معاملے پر ایوان میں بحث شروع کردی۔ نیشنل پولیس چیف کا کہنا ہے کہ 6 ماہ کے دوران برطانیہ اور ویلز میں تیزاب کے 400 سے زائد حملے کیے گئے۔ برطانیہ میں پہلے سے موجود قانون کے تحت نقصان دہ تیزابی مواد سے حملے پر عمرقد تک کی سزا ہوسکتی ہے۔
تیزاب گردی معاشرے میں عام کرنے میں جہاں الیکٹرانک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے وہیں سوشل میڈیا پر بھی گمراہ کن خیالات اور خاندانی رسومات کے نام پر تیزاب گردی کی جاتی ہے، اور پھر اس کی تشہیر کے لیے ان ذرائع کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لوگوں میں دین کا فہم اور خوفِ خدا نہ ہونے کے باعث اس اہم مسئلے پر آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلاشبہ یہ ایک گھنائونا اور قبیح فعل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ کراچی ویمن جیل میں ایک قیدی لڑکی کے ساتھ پیش آیا، جس کی عینی شاہد خود یہ لڑکی ہے، اور کسی مرد نے نہیں خود ایک عورت ہی نے اس پر تیزاب پھینکا۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تعاون سے معمولی و ناگزیر تبدیلیوں کے بعد ہم یہ واقعہ اپنے قارئین کی نذر کررہے ہیں۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی کونسلنگ کے ذریعے اس لڑکی کو قرآن و سنت اور رب کی خوشنودی کی جانب کیسے گامزن کیا گیا، آیئے اسی کی زبانی سنتے ہیں:
’’میرا نام عروسہ ہے۔ مجھے کراچی جیل آئے چوتھا سال ہے۔ جب یہاں آئی تھی تو میری عمر 16 سال تھی۔ ہمارے محلے میں ایک ماں بیٹی رہتی تھیں، جن کے ہاں بہت سے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ان کے ہاں بیش قیمت چیزیں ہر وقت موجود رہتیں۔ آنٹی کی بیٹی میری ہم عمر تھی۔ میں اُن کے گھر آتی جاتی رہتی تھی۔ وہ میری پکی سہیلی بن گئی تھی۔ کرن اور میں ساتھ کھیلتے۔ کبھی وہ ہمارے گھر آجاتی، کبھی میں اُس کے گھر چلی جاتی۔ میں نے ہمیشہ یہ بات نوٹ کی کہ وہ ہمارے گھر آنا زیادہ پسند کرتی تھی، حالانکہ ہمارے ہاں ضرورت کی ایسی کوئی اشیاء موجود نہ تھیں جبکہ کرن کا گھر ان تمام چیزوں سے بھرا رہتا۔کھانے پینے سے لے کر گھریلو استعمال کی ہر شے اس کے ہاں ہر وقت موجود رہتی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ ہمارے گھر رکنا زیادہ پسند کرتی تھی۔ خیر، میری امی کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا، اس لیے وہ گھنٹوں ہمارے گھر رہتی تھی۔ میں اپنے تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ میں اسے اپنے کمرے میں لے آتی جہاں اس کی لائی ہوئی مختلف اشیاء کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتی۔ اس کی امی نے تمام محلے والوں کو بس یہی بتایا تھا کہ کرن کا باپ ایک حادثے کی نذر ہوگیا ہے، اسی کے رشتے دار اس سے ملنے آتے ہیں تاکہ ماں بیٹی کی مدد کرسکیں۔ آخر وقت گزرتا گیا، میں اور کرن ساتھ ساتھ بڑے ہوئے۔ اس نے کبھی مجھ سے کچھ نہ مانگا تھا۔ ایک دفعہ وہ میرے گھر آئی اور مجھ سے چھ ہزار روپے مانگے۔ میں گھر میں اکیلی تھی، میں نے کچھ نہ سوچا اور اپنی تمام جمع پونجی اُس کے حوالے کردی۔ تھوڑی دیر میں وہ چلی گئی۔ میری امی آئیں، میں نے انہیں کچھ نہ بتایا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کرن اور اس کی ماں کے خلاف محلے میں عجیب وغریب باتیں ہونے لگیں۔ اور واقعی کچھ باتیں سچ بھی ثابت ہوئیں۔ میری امی نے اب مجھے کرن کے ساتھ بات کرنے تک کو منع کردیا۔ اب میں نے اُس سے اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا تاکہ میری ماں کو یہ بات پتا نہ چل سکے۔ لیکن کرن ہر دفعہ ٹال مٹول سے کام لیتی۔ روز ایک ہفتے کا کہتی اور وہ ہفتہ کبھی بھی نہ آتا۔ بالآخر مجھے یہ ساری بات اپنی ماں کو بتانی پڑی۔ وہ مجھ سے ناراض ہوئیں اور کہا کہ فوری کرن سے رقم لو، ان کا یہی کام ہے کہ وہ لوگوں سے پیسے بٹور کر محلہ تبدیل کرلیتی ہیں۔ میں اسی وقت اُس کے ہاں گئی اور اس سے فوری اپنی رقم کا مطالبہ کیا۔ وہ ٹال مٹول کرتی رہی۔ میری آواز بلند ہوتی چلی گئی۔ اچانک وہ اٹھی، اپنے باتھ روم سے ایک بوتل لائی اور مجھ سے کہنے لگی کہ یہ تیزاب ہے، اب تُو نہیں بچے گی۔ اس کا اتنا کہنا ہی میرے لیے کافی تھا۔ ہم دونوں میں ہاتھاپائی ہوگئی۔ اس کے ہاتھ سے تیزاب کی بوتل گرگئی جس کے باعث اُس کا منہ اور ہاتھ کا کچھ حصہ متاثر ہوا۔ شور سن کر اُس کی ماں آگئی۔ میرے پیسے تو مجھے کیا ملتے، اس کے مضبوط اثررسوخ کے باعث میں جیل میں ہوں، لیکن اب تک وہ لوگ الزام ثابت کرنے میں ناکام ہیں۔ بوتل سے انگلیوں کے نشانات تک مٹادیئے۔ میرے جیل آتے ہی مجھ سے تمام عزیزوں نے رابطے توڑ لیے، صرف ماں مجھ سے ملنے آتی ہیں۔ یہاں آکر میں بہت مایوس ہوگئی تھی، پھر میرا رابطہ یہاں قرآن پڑھانے والی باجیوں سے ہوا۔ زینب باجی نے مجھے کمپیوٹر کورس کروایا۔ وہ لوگ اتنی محبت سے پیش آتے ہیں کہ مجھے ان کی آمد کا ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔ قرآن اور احادیث کے ذریعے مجھے امید دلائی گئی۔ حضرت یوسفؑ کے واقعات کے ذریعے مجھے مایوسی سے نکالا گیا۔ اللہ ان باجیوں کو ہمیشہ خوش رکھے، آمین۔‘‘
ویمن ایڈ ٹرسٹ کے ذریعے عروسہ کی قانونی، مالی و روحانی مدد کی گئی۔ اس کی کونسلنگ میں رب کی رحمت کو بطورِ خاص شامل کیا گیا۔ انبیاء اور صحابہ کرام کے قصوں کے ذریعے عروسہ کی ذہنی آبیاری کی گئی تاکہ جیل سے رہا ہونے پر وہ معاشرے کی بہترین فرد ثابت ہوسکے۔

حصہ