افشاں نوید
4 اپریل 2018ء کو اخبارات میں ایک خبر لگی، جو3 اپریل کے مختلف ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز تھی۔ خبر خوشی کی تھی یا غم کی، یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا، مگر خبر کے پیچھے ایک نظام کا نوحہ تھا جس کی بازگشت سنی اور محسوس کی گئی۔
خبر یہ تھی کہ تہرے قتل کی واردات جو 1998ء میں کراچی کے علاقے سعود آباد میں ہوئی تھی، اس کی ملزمہ اسماء نواب بیس برس بعد ثبوت نہ ملنے کی بنا پر باعزت بری کردی گئی۔ پھر سب نے اخبارات میں اسماء کے انٹرویو پڑھے اور ٹی وی چینلز پر اس کو گفتگو کرتے ہوئے سنا۔
اسماء کی باتیں جو ہر ایک کے لیے دلچسپی کا سبب تھیں کہ بیس برس کے بعد دنیا کیسی لگی اسے؟ خالی اجڑے گھر میں ادھڑی ہوئی دیواروں پر 1998ء کا کلینڈر لگا ہوا تھا اور بند گھڑی جو اس کی ماں کو کمپنی سے تحفے میں ملی تھی، خاموش دیوار پر نصب تھی۔ یقینا اس گھر کا وقت ٹھیر گیا تھا اپنے مکین کھو کر۔
بہت ساری باتیں اس حوالے سے آئیں سوشل میڈیا پر بھی۔ ایک بات جو کسی درجے میں ہر حساس دل کو مضطرب کرگئی ہوگی کہ اس نے موبائل فون کا ذکر تو سنا تھا مگر دیکھا نہ تھا۔ وہ لوگوں سے سنتی تھی کہ ایسی بھی کوئی چیز ہے!
حیران تو وہ رہائی کے بعد زنگر برگر اور شوارما کھا کر بھی ہوئی تھی، کیونکہ بقول اُس کے اسے ٹھیلے والا انڈے کا برگر ہی یاد تھا جو گلی کے نکڑ سے کھاتی تھی۔ خیر کھانے پینے کے انقلابات انسان کی زندگی میں ایسی کوئی اہمیت نہیں رکھتے، مگر موبائل فون کی ٹیکنالوجی اور ہر دن کی جدت پذیری جس نے معاشرے کے کس بل کھول دیے، ایک نئی دنیا اور نیا انسان پیدا ہوگیا۔ اگرچہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جو اس بدلتے سماج کو اپنی آنکھوں سے یوں نہ دیکھ سکے کہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔
اسماء کی باتوں میں کتنا کرب تھا کہ میری زندگی کے ماہ و سال کون لوٹائے گا؟ میں قاتل نہ ثابت ہوسکی مگر میری جوانی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قتل کرنے کا الزام کس کے سر لگے گا؟
ایک اسماء نواب کے نوحے کی بازگشت کتنے دنوں تک سنی گئی، زندگی تو سب کو ایک بار ہی ملتی ہے۔ کیا اسماء کے کیس سے کوئی فرق پڑا ہمارے نظامِ عدل کے کرتا دھرتائوں کو… بیس برس چھین لیے ایک عورت کے… بیس دن میں فیصلہ ہوجاتا، چلیں بیس ہفتے میں، عدالتی نظام پیچیدہ ہوتا ہے تو بیس ماہ بہت تھے… یہ کیسا عدالتی نظام ہے جس کی دُہائی اسماء دے رہی ہے، اور ایسی سینکڑوں اسمائیں اس وقت بھی جیلوں کی کوٹھریوں میں ہوں گی جو اگلے دس، پندرہ برس بعد رہا کردی جائیں گی۔ کسی کی زندگی برباد ہوئی تو کسی کا کیا بگڑتا ہے!
میں جب جیل جاتی تھی تو اسماء سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔ بہت اچھا لگا کہ آج اسماء نہیں تھی۔ اُس کی جیل کی سہیلیوں سے اُس کی باتیں ہوتی رہیں۔ ایک خاتون بولیں ’’آج سات برس ہوگئے مجھے جیل میں، کوئی عینی شہادت نہیں ہے میرے خلاف، ماسوائے اس کے کہ جو بھانجا کسی کے قتل میں ملوث ہے اُس سے کچھ دیر قبل میں نے بات کی تھی۔ کوئی تو شہادت ہوتی۔ میں بیوہ عورت سات برس سے جیل میں ہوں، میرا سات برس کا بیٹا جس کا باپ اس کے بچپن میں فوت ہوگیا، وہ بن ماں باپ کے سماج کے کون کون سے تھپیڑے برداشت کررہا ہوگا! اسماء کے تو پورے صفحوں کے انٹرویو آرہے ہیں، ٹی وی کے کیمرے اس کے پیچھے پھر رہے ہیں، باجی میری تو اخبار کے اندر کے صفحے پر چھوٹی سی خبر لگ جائے گی کہ الف ب ج دس برس کی جیل کاٹ کر ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری کردی گئی۔ اگر مسلمان نہ ہوتی تو کب کی خودکشی کرچکی ہوتی، مگر میرا ایمان ہے کہ میری بے گناہی اللہ ثابت کرے گا۔‘‘
اُس کے عقب میں کھڑی ایک اور عورت اُس کو روتا دیکھ کر اُس کے قریب آکر کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ’’کل تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، میں نے اللہ میاں سے شکوہ کیا کہ آپ بھی امیروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ رات کو کس ٹھاٹ باٹ سے وہ جیل میں آئی تھی اور صبح ناشتے کے بعد غائب۔ پیشی کا کہہ کر گئی، بعد میں پتا چلا کہ رہائی مل گئی اسے۔ بڑے جاگیردار باپ کی بیٹی تھی۔ ڈیفنس کے بنگلہ میں رہتی ہے۔ بہن سے لڑائی میں بات بڑھی، چاقو اٹھا لائی۔ تیز چھری سے کوئی ایسی نس کٹ گئی کہ اسپتال پہنچنے تک اتنا خون بہہ گیا کہ بے ہوشی کی حالت میں دو دن کے بعد انتقال کر گئی۔ وہ تو اقرار کررہی تھی کہ اس سے غلطی ہوئی ہے، قتل ہوا ہے، پھر بھی ایک رات سے زیادہ اس کے گھر والوں کو اس کا اِس منحوس دنیا میں رہنا گوارہ نہ ہوا۔ اس کو چھڑا کر لے گئے۔ کاش ہمارے پیچھے بھی اتنے مال و دولت والے خاندان ہوتے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ہتھیلی سے اپنی نم آنکھیں رگڑنے لگی۔ قریب کھڑی عورتوں نے اسے سہارا دیا۔ ہم بھی صبر کی تلقین کے سوا کیا کرسکتے تھے!
سوال تو یہ ہے کہ انصاف اتنا مہنگا کیوں ہے کہ غریب کی دسترس سے باہر ہے؟ وکیلوں کی فیس اتنی کیوں ہے کہ ایک غریب انصاف کے لیے ایڑیاں رگڑتا ہوا مر جائے؟ بات سادہ سی ہے کہ جس ملک میں سینیٹ کے الیکشن میں ایک سیٹ کروڑوں کی خریدی جائے، جہاں ایوانِ زیریں میں بیوپاری دام لگائیں بکنے والوں کے، جہاں الیکشن میں ووٹر خریدے جائیں، اس نظام میں انصاف کہاں سے ملے گا؟ جہاں قانون ساز ادارے بھی اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہوں اور ہارس ٹریڈنگ کی خبریں زبان زدِ عام ہوں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ اسماء نواب کی اسٹوری سامنے آنے کے بعد بالخصوص عورتوں کے حوالے سے ان کے کیس جلدی نمٹائے جانے کی کوئی پالیسی بنے، نظام میں ایسی تبدیلی لائی جائے کہ کوئی بے گناہ اپنی زندگی کا اتنا قیمتی وقت محض اس لیے ان سلاخوں کے پیچھے نہ گزارے کہ زنجیرِ عدل تک ہر ایک کے ہاتھ نہیں پہنچ پاتے۔
اسماء نواب کے حوالے سے جب ہم نے جیل سپرنٹنڈنٹ شیبا شاہ سے بات کی تو وہ بولیں ’’بیس برس اسماء جیل میں رہی مگر جیل انتظامیہ کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ یہاں عورتیں عموماً ڈپریشن کی کیفیت میں مبتلا ہوکر مسائل بھی پیدا کردیتی ہیں، مگر وہ خود کو سنبھال لیتی تھی اور انتظامیہ سے تعاون کرتی تھی۔ اپنی صلاحیتوں سے اس نے مفید کام کیے، یہاں بچوں کو اسکول میں پڑھایا، کمپیوٹر کورس بھی کیے۔ ہمارا کام تو جیل کی خواتین کی بہبود، ان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ قیدی خواتین پڑھی لکھی ہوتی ہیں تو نہ صرف خود مسئلے پیدا نہیں کرتیں بلکہ یہاں کے مسائل کے حل میں ہماری مدد بھی کرتی ہیں۔‘‘
آج جیل کے دیوہیکل گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ جو قیدی عورتیں ان دروازوں سے اندر جاتی ہیں اُن کے لیے ان دروازوں سے باہر آنا اُن کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے۔ کتنے بے گناہ اندر رہ جاتے ہیں، اس لیے کہ اس سماج کا کمزور حصہ ہوتے ہیں۔ اور کتنے مجرم باہر آجاتے ہیں، اس لیے کہ وہ ہر چیز کی قیمت ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔
ہم دورِ عمر فاروقؓ کو یاد کرتے ہیں جو انصاف کا درخشاں دور تھا، مگر جب انتخاب کا موقع ملتا ہے تو منتخب انہی لوگوں کو کرتے ہیں جو خود کرپٹ اور انصاف کے بیوپاری ہوتے ہیں۔ قدرت ہمیں موقع دے رہی ہے اپنے نمائندوں کے انتخاب کا۔ ہم انہیں منتخب کرلیں جو دیانت دار ہیں تو انصاف کا چلن عام ہوگا۔ ورنہ بے گناہوں، مظلوموں کا ہاتھ قیامت کے دن ہم سب کی گردن پر ہوگا۔