ڈاکٹر نثار احمد نثار
۔12 اپریل 2018ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ادیب‘ کالم نویس اور مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی 25 ویں کتاب ’’کتنے آدمی تھے‘‘ کی تقریب اجرا آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں منعقد کی گئی جس کی مجلسِ صدارت میں لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر‘ سردار یاسین ملک‘ عبدالحسیب خان اور میاں زاہد حسین شامل تھے۔ مہتاب اکبر راشدی مہمان خصوصی تھیں۔ اظہار خیال کرنے والوں میں نسیم انجم اور محمد اسلام بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے محمد فریس قریشی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور حافظہ اُسورہ عزیر نے نعت رسولؐ پیش کی۔ تقریب کی ناظمہ نے کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی کا شمار انتہائی اہم قلم کاروں میں ہوتا ہے‘ یہ مزاح نگاری میں خصوصی اہمیت و شہرت کے حامل ہیں۔ آج ہم ان کی 25 ویں کتاب کی تقریبِ اجرا میں ان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ یہ کتاب 59 مضامین پر مشتمل ہے جس کا انتساب انہوں نے اپنی بیوی کے نام لکھا ہے۔ اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصے کو الگ الگ عنوان دیا گیا ہے ان کا یہ کارنامہ اردو ادب کے قارئین کے لیے دل بستگی کا سامنا ہے۔ محمد اسلام نے کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی کی تحریروں میں شائستگی اور سنجیدگی موجود ہے۔ وہ مزاح کے انداز میں بڑے بڑے فقرے لگا جاتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ مزاح نگاروں میں ایک ہیوی ویٹ مزاح نگار ہیں۔ یہ انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کے بھی علم بردار ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ انسان کو گدھا قرار دینے میں انسان کی توقیر میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوگا لیکن گدھے کا استحقاق بری طرح مجروح ہو جاتا ہے ان کے بہ قول ’’جس گدھے میں جان ہوگی‘ وہ گدھا رہ جائے گا۔‘‘ نسیم انجم نے کہا کہ اس نفسا نفسی کے دور میں ڈاکٹر معین قریشی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ زندگی کے مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں کے لیے ان کی تحریریں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں‘ ان کی اس کتاب میں ان کے تجرباتِ زندگی بھی شامل ہیں اور بہت سی آپ بیتیاں بھی۔ یہ ہمہ جہت شخصیت ہیں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور ہر سال اپنے گھر پر ’’اعلیٰ پائے‘‘ کی ادبی تقریب ترتیب دیتے ہیں۔ صاحب کتاب ڈاکٹر معین قریشی نے کہا کہ وہ تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ آرٹس کونسل کی دعوت اور میری درخواست پر یہاں تشریف لائے۔ آج کی تقریب کا وقت سوا سات بجے تھا جو کہ صرف سات منٹ تاخیر سے شروع ہوئی ہے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ’’مٹی پائو‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے پاکستان کی سیاسی صورت حال کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ مفت کتاب مانگ کر شرمندہ نہ ہوں کیونکہ اس کی طباعت پر میری پنشن کی کمائی خرچ ہوئی ہے جس کی Re-covery ضروری ہے۔ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ آج کا دن اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ ہم منظر اکبر ہال میں جمع ہیں اور ہمارے چہروں پر مسکراہٹیں ہیں یہ ڈاکٹر معین قریشی کی P.R کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہال بھرا ہوا ہے اور کچھ لوگ کھڑے ہو کر تقریریں سن رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی کاقلم کوڑے سے بھی تیز چلتا ہے۔ وہ بہت عمدگی سے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کے جملوں میں بذلہ سنجی کے ساتھ ساتھ دور اندیشی بھی نظر آتی ہے۔ یہ بہت زرخیز ذہن کے مالک ہیں‘ بڑے بڑے مسائل کو دل چسپ انداز میں لکھ جاتے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے سیاست دانوں کو بہت گھسیٹا ہے اس کتاب کا ہر مضمون طنز و مزاح اور زندگی کے رویوں سے لبریز ہے۔ ان کا ہنر سر چڑھ کر بولتا ہے ان کے ذخیرۂ الفاظ پر مجھے رشک آتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی چند سال قبل سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن سے بطور سینئر ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے ہیں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں اعزازی پروفیسر بھی رہے ہیں انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 1953ء میں کیا انہوں نے مجید لاہوری کے شہرۂ آفاق جریدے نمک دان میں میں مزاحیہ مضامین لکھے‘ ان کے موضوعات میں سیاست‘ صحافت‘ سیاحت‘ معیشت‘ ادب‘ مذہب اور معاشرت ہیں ان کے مضامین پاکستان کے علاوہ ہندوستان‘ امریکا‘ برطانیہ کینیڈا‘ سعودی عرب‘ ایران‘ ترکی اور عرب امارات کے اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہ انگریزی اور اردو میں بیک وقت سنجیدہ اور مزاحیہ تحریروں سے قارئین کو محظوظ کر رہے ہیں۔ ان کا ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’Crocodille‘‘ ڈیلی نیوز میں مسلسل 32 سال تک شائع ہوا۔ انہوں نے تقریباً سات برس تک ’’حسب منشا‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ایکسپریس میں ابنِ منشا کے قلمی نام سے کالم نگاری کی۔ ’’برجانِ درویش‘‘ کے عنوان سے ان کا فکاہی کالم جو پہلے روزنامہ جنگ میں شائع ہوتا تھا اب نوائے وقت میں شائع ہو رہا ہے۔ انہوں نے روزنامہ ڈان میں لگ بھگ 20 سال تک Friday Feature کے لیے اسلامی موضوعات پر مضامین لکھے اور ڈان کے میگزین میں بھی ان کی مزاحیہ تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں۔ کئی سال قبل پی ٹی وی سے ان کے مزاحیہ ڈراموں پر مبنی سیریل ’’کہتا ہوں سچ‘‘ نشر ہوئی انہیں بہترین کالم نویسی پر اے پی این ایس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حکومت سندھ نے ان کی خدمات پر ایک لاکھ روپے کیش ایوارڈ بھی دیا۔ اب ان کی شخصیت اور فن پر مختلف یونیورسٹیز میں ایم اے اور ایم فل کے مقالے لکھے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کا ادبی سرمایہ ہیں میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
عبدالحسیب خان نے کہا کہ لوگوں نے اپنے قلم بیچ دیے‘ اپنے الفاظ فروخت کر دیے ایسے ماحول میں ڈاکٹر معین قریشی کا قلم پھول بکھیر رہا ہے یہ سچے اور کھرے آدمی ہیں انہوں نے اصولوں پر سودا نہیں کی۔ انہوں نے حقائق سے پردہ پوشی نہیں کی۔ یہ منفرد اسلوب کے مزاح نگار ہیں ان کے کاٹ دار جملے نشتر کا کام کرتے ہیںلیکن طبیعت پر گراں نہیں گزرتے۔ سردار یاسین ملک نے کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی نے فلم شعلے کے ایک ڈائیلاگ کو اپنی کتاب کا نام دے دیا یہ اس دور کے بہت بڑے لکھاری ہیں میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں میں ان کی خدمت میں حاضریاں لگاتا رہتا ہوں تاکہ میری کتاب بھی جلدازجلد شائع ہو جائے۔ لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر نے کہا کہ ان کی فکر انگیز مزاحیہ تحریریں ہمیں مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہیں ان کے جملوں میں سچائی کے جگنو چمکتے ہیں۔ ان کے مضامین میں تہذیبی تہہ داری‘ شگفتگی اور شائستگی پائی جاتی ہے‘ ان کے لکھے ہوئے شخصی خاکے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ان کا شعری ذوق نہایت منفرد اور روایات میں رچا بسا ہے‘ ان کا مطالعہ بہت عمیق اور نظر بہت تیز ہے۔ یہ آنے والے زمانے کے مسائل سے ہمیں آگاہی فراہم کرتے رہتے ہیں۔
اس موقع پر ڈاکٹر ایس ایم معین کی خدمت میں پھولوں کے تحائف بھی پیش کیے گئے۔
ادبی تنظیم تخلیق کار کی 32 ویں شعری نشست
فنون لطیفہ کی مختلف شاخوں سے وابستہ افراد تخلیق کار کہلاتے ہیں۔ شاعری بھی فنونِ لطیفہ کی ایک شاخ ہے جو کہ مؤثر ترین ذریعۂ ابلاغ ہے۔ آپ غزل کے دو مصرعوں میں ایک مضمون باندھ سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و نقاد سلمان صدیقی نے ادبی تنظیم تخلیق کار کے زیر اہتمام ہونے والی شعری نشست میں اپنے خطبہ استقبالیہ میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے اردو زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ورنہ اس زبان کی بے قدری کا یہ عالم ہے کہ کورٹ کے احکامات کے باوجود یہ سرکاری زبان نہیں بن سکی اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ دوسری افسوس ناک بات یہ ہے کہ اردو کا سوفٹ ویئر موجود ہے لیکن رومن انگریزی میں فیس بک پر خط و کتابت ہوتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی الفاظ کے تلفظ کا خیال نہیں رکھا جارہا اس صورت حال پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے اپنی ادبی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ اس پروگرام کی صدارت امریکا سے تشریف لائے ہوئے شاعر شبی فاروقی نے کی۔ آصف رضا رضوی مہمانخصوصی اور علاء الدین خان زادہ مہمان اعزازی تھے جب کہ حجاب عباسی نے نظامتی فریضہ کی انجام دہی کے علاوہ کلماتِ تشکر پیش کرتے ہوئے کہاکہ ادبی تنظیم تخلیق کار 4 سال قبل تشکیل دی گئی تھی۔ ہم صرف مشاعرے نہیں کرتے بلکہ ہم نے مذاکرے‘ تنقیدی نشستیں اور قلم کاروں کی تقاریب پزیرائی کے پروگرام بھی کیے ہیں۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت ادب کی خدمت کررہے ہیں۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں اچھی شاعری ہو رہی ہے۔ دبستان کراچی میں ادبی تنظیموں کے باعث ادبی محفلیں آباد ہیں نوجوان شعرا بھی بہت اچھا کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے ادبی تنظیم تخلیق کار کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے ان کے لیے یہ محفل سجائی۔ اس موقع پر شبی فاروقی‘ آصف رضا رضوی‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی‘ حجاب عباسی‘ سلمان صدیقی‘ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی‘ وضاحت نسیم‘ ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ احمد سعید خان‘ اشتیاق طالب‘ عامر شیخ اور آفتاب عالم قریشی نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ یہ پروگرام 14 اپریل 2018ء بروز ہفتہ پریس کلب کراچی میں منعقد ہوا تھا جس میں سامعین اور شعرا کی تعداد برابر برابر تھی۔ ہر اچھے شعر پرسامعین دل کھول کر داد دے رہے تھے۔
کراچی پریس کلب کی تنقیدی نشست
کراچی پریس کلب ادبی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے یہاں کی ادبی کمیٹی بے حد فعال ہے اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے ایک تنقیدی نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت رونق حیات نے کی‘ صبا اکرام مہمان خصوصی تھے‘ موسیٰ کلیم نے نظامت کے فرائض انجام دیے‘ سخاوت علی نادر کی غزل اور نغمانہ شیخ کا افسانہ ’’ضرورت‘‘ تنقید کے لیے پیش کیا گیا جس پر رحمان نشاط نے اس افسانے کے منفی پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس تحریر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دیگر تبصرہ نگاروں میں احمد سعید فیض آبادی‘ حامد علی سید‘ مجید رحمانی‘ الطاف احمد‘ زیب اذکار‘ شکیل احمد ستی‘ طاہرہ سلیم سوز‘ موسیٰ کلیم‘ عبدالصمد‘ ظفر عادل‘ اے خیام‘ خورشید عالم‘ سعدالدین سعد‘ عتیق احمد‘ نبیل نجمی اور وقار زیدی شامل تھے۔ مجموعی طور پر نغمانہ شیخ کے افسانے کی تعریف کی گئی کچھ تبصرہ نگاروں کے نزدیک افسانہ نگار نے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے جملوں کی ساخت اچھی ہے‘ افسانے میں ایک پیغام ہے‘ سخاوت علی نادر کی غزل پر کہا گیا کہ اس کا مطلع اور مقطع بہت اچھا ہے ان کی غزل میں زندگی کے مسائل اجاگر کیے گئے ہیں کیونکہ نادر علی سخاوت صاحب اسلوب شاعر ہیں ان کے ہاں جدید لفظیات و ماڈرن استعارے نظر آتے ہیں کلاسیکیت اور غنائیت بھی ہے ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ انہوں نے بہت کم وقت میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ صاحب صدر نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ افسانہ ایک کامیاب افسانہ ہے اس دور میں افسانہ نگاری کم ہوتی جارہی ہے۔ افسانہ نگار کا فرض ہے کہ وہ معاشرتی رویوں پر بحث کرے۔ نغمانہ شیخ نے اپنے اردگرد پھیلے مناظر کو قلم بند کیا ہے امید ہے کہ یہ ایک بڑی افسانہ نگار بن جائیں گی۔ سخاوت علی نادر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ نوجوان شعرا میں بہت تیزی سے ابھر کر سامنے آرہے ہیں یہ بہت سوچ سمجھ کر لفظ لکھتے ہیں۔ اس غزل کے اشعار میں روانی ہے‘ منظر نگاری ہے‘ گہرائی اور گیرائی بھی ہے‘ ہم اسے ایک اچھی غزل کہہ سکتے ہیں۔ صاحب صدر نے مزید کہا کہ ایک زمانے میں تنقیدی نشستوں اور طرحی مشاعروں کا دور دورہ تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ سلسلہ کم ہوتے ہوتے ختم ہوتا جارہا ہے پہلے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں نقاش کاظمی ہر ماہ تنقیدی نشست کراتے تھے۔ تنقیدی نشستوں کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں‘ اس قسم کے پروگرام زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مددگار و معاون ہوتے ہیں۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی قابل مبارک باد ہے کہ اس نے تنقیدی نشست کا اہتمام کیا۔