شریکِ مطالعہ

1350

نعیم الرحمٰن
یونس جاوید اردو کے صاحبِ طرز ادیب ہیں۔ افسانوی ادب کو انہوں نے ’’تیز ہوا کا شور‘‘، ’’میں ایک زندہ عورت ہوں‘‘، ’’آوازیں‘‘، ’’ربا سچ یاربِ قدیر‘‘ جیسے مجموعے دیے تو ناولوں میں ’’کنجری کا پُل‘‘ اور ’’ستونت سنگھ کا کالا دن‘‘ جیسے منفرد تحریروں کے تحفے عطاکیے۔ ’’حلقہ اربابِِ ذوق‘‘ کے اجلاسوں پر مبنی تحریر بھی یونس جاوید نے لکھی ہے۔ انہوں نے پاکستان ٹی وی کو ’’کانچ کاپُل‘‘، ’’رگوں میں اندھیرا‘‘ ، ’’وادیٔ پُرخار‘‘ جیسے ڈرامے اور ’’اندھیرا اجالا‘‘ جیسا یادگار سیریل بھی لکھا۔ یونس جاوید کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’ایک چہرہ یہ بھی ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا جس میں یونس جاوید نے خاکہ نگاری کے بارے میں اپنا نظریہ کچھ اس طرح بیان کیا تھا۔
’’خاکہ لکھنا… لکھنے والے کی عمر بھر کی کمائی ہے۔ اس لیے کہ دوسرے کی پرتیں کھولنے کے لیے شرطیں بہت کڑی ہیں جس میں ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونا پہلی شرط ہے۔ پیالے میں مشروبِ مغرب ہو تو راقم خود اپنی پرتیں بھی گن سکتا ہے۔ دوسری شرط سچ بولنا ہے۔ سو ہر خاکہ نگار سچ ہی بولتا ہے مگر زیادہ تر دوسرے کے بارے میں۔ لہٰذا جب میرا دل دوسروں کے بارے میں سچ بولنے کو دھڑکتا ہے تو میں خاکہ لکھنے یاخاک اُڑانے بیٹھ جاتا ہوں۔‘‘
یونس جاوید کے شخصی خاکوں کا دوسرا مجموعہ ’’ذکر اُس پری وَش کا‘‘ کے نام سے جمہوری پبلشرز نے شائع کی ہے۔ چارسوصفحات کی کتاب کی قیمت 950 روپے ہے جس میں مصنف کے اپنے بارے میں دو تحریروں اور’’لاہور کی گواہی‘‘کے نام سے شہر لاہورکے ذکرسمیت 28 خاکے شامل ہیں۔ کتاب کی ابتداڈاکٹرانور سدید مرحوم کے 19 صفحات کا طویل مضمون ’’یونس جاوید اوراس کے خاکے‘‘ شامل ہے جس میں ’’ایک چہرہ یہ بھی ہے‘‘ کے خاکوں کا بھرپور تجزیہ کیا گیا ہے اور مصنف کے اسلوب اور تحریر کی گہرائی اور گیرائی کو اقتباسات کے ذریعے واضع کیا گیا ہے۔
کتاب کا نام یوسف کامران کے خاکے ’’ذِکراُس پری وَش کا‘‘ کے نام پر ہے۔ جس کا آغاز کچھ یوں ہے: ’’یوسف کامران لاہورکے ماتھے کا جھومر تھا۔ ہر چند میرے لاہورکا فریم بھی اتنا ہی تھا جس قدر میری نگاہ میں آسکتا تھا۔ اسی فریم میں یوسف ایک زیورکی طرح سجا رہتا تھا۔ بے حد شگفتہ، خوش لباس، تروتازہ اور مسکراہٹوں سے مزین کہ دوسرے کی آنکھوں کے راستے دل میں اترکر ہلچل مچا دیتا۔ کوئی جملہ‘ کوئی مختصر واقعہ، لطیفہ، شگفتہ بیان کا ٹکڑا اس کے لبوں سے پھسل پھسل پڑتا۔ دل کے تاروں کو تو جھنجھناتا ہی تھا وہ سڑک کراس کر رہا ہوتا تو سڑک خوب صورت دکھائی دیتی۔‘‘
کیا طرز بیان ہے۔ شخصیت نکھرکر قاری کی نگاہوں میں گھوم جاتی ہے۔ کتاب کا پہلا خاکہ’’شجرِ سایہ دار‘‘ کے نام سے مصنف ودانشور اشفاق احمدکا ہے۔ یونس جاوید نے اپنی کتاب ’’میں ایک زندہ عورت ہوں‘‘ اشفاق احمد اوربانو قدسیہ کے نام معنون کی تھی۔ وہ یہ کتاب اشفاق صاحب کی نذرکرنے جارہے تھے مگراسی دن فون پر اشفاق احمد کے انتقال کی قیامت خیز اطلاع انہیں ملی۔ یونس جاوید کچھ دن بعد کتاب اشفاق صاحب کی قبر پر رکھ آئے۔کیا دل کش خاکہ ہے جس میں اشفاق مرحوم سے پہلی ملاقات پھر ان کی محبتوں کا بھرپور ذکر ہے۔ پورے خاکے میں یونس جاویدکی عقیدت چھلکتی ہے۔
سعادت حسن منٹوکے خاکے کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے۔ ’’میرے حافظے میں ہمیشہ دمکنے والے تین نام ایسے ہیں جنہیں جب بھی میں نے لکھا ’’صاحب‘‘ ضرور لکھا۔ منٹو صاحب‘ فیض صاحب‘ دلیپ صاحب۔ مگر منٹو صاحب ہمیشہ میری ذہنی اسکرین پر جگمگاتے جاگتے رہتے تھے حالاں کہ میں ان سے کبھی ملا نہ انہیں دیکھا۔‘‘ منٹو صاحب نے بیالیس سال سات مہینے اورسات دن کی زندگی میں اتنا کام کیا جو اُن کے ہم عصروں میں دگنی عمرجینے والوں سے بھی نہ ہوسکا۔ یہ بھی ایک زندہ جاوید خاکہ ہے۔
انتظار حسین کے خاکے کو یونس جاوید نے ’’وہ ہجر کی رات کا ستارہ‘‘ کا نام دیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’کوئی اسے ہجرت کا ڈسا ہوا کہتا، کوئی ناسٹلجیا کا مارا ہوا۔ ترقی پسنداسے رجعت پسندکہتے تھے۔ ترقی پسند ہی کیوں انتظار حسین خود یہی کہتے تھے کہ وہ رجعت پسند ہیں۔ روایت سے جڑے رہنے میں وہ عافیت سمجھتے تھے۔ جو نقش، آغاز میں منقش ہو گیا سو ہو گیا۔ جو تہذیب 1857ء سے زوال پذیرہوتے ہوتے معدوم ہوچکی تھی وہ اس کانمائندہ نہ بھی ہو، اس کا خمیرالبتہ اسی سے اٹھا تھا۔ دھیما انداز، سنجیدہ لہجہ ،دلیل کی ہنڈیاسے اترا ہوا۔ احمد بشیرجیسا لٹھ مار شخص سے کڑوی کسیلی سن کر بھی جواب میں وہی دمکتی مسکراہٹ۔‘‘
کیاخوب طرزِ بیان ہے۔ سبحان اللہ قاری کتاب میں گم نہ ہو جائے تو کیا کرے۔ سید وقار عظیم کاخاکہ ’’کیوں ترا راہ گزر یاد آیا‘‘ کے نام سے ہے۔ منیر نیازی کے خاکے کو ’’انا اور عجزکا مسافر‘‘ کا عنوان دیاہے۔قراۃ العین حیدر کا خاکہ ’’جراتوں کے درمیان‘‘ کے نام سے ہے۔ قتیل شفائی، میرزا ادیب، انیس ناگی حبیب جالب، استاد امانت علی خان، منو بھائی، اظہر جاوید، سہیل احمد خان، احمد راہی، وسیم گوہر ،احمد ہمیش، ناصر زیدی او اے جی جوش کے خاکوں کے علاوہ ’’بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں‘‘ کے زیرعنوان اور کتاب کے آخر میں ’’ایک ادھورا خواب‘‘ کے نام سے ذاتی یادوں اور خوابوں کا ذکر کیا ہے۔لاہور شہر کاذکر بھی ہے اور ’’دودِ چراغ ِ محفل‘‘ کے نام سے پاکستان سے محبتوں کا ذکر ہے۔’ ’ذکر اُس پری وَش کا‘‘ ایک بہت منفرد اورخوب صورت کتاب ہے جسے شروع کر کے ختم کیے بغیر چھوڑنا مشکل ہے۔
…٭…
آصف فرخی ماہر تعلیم، ادیب شاعر اور دانشور اسلم فرخی کے صاحبزادے اور خود بھی مشہور ادیب و افسانہ نگار ہیں۔ آصف فرخی ادبی کتابی سلسلہ ’’دنیا زاد‘‘ کی اشاعت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا پبلشنگ ادارہ ’’شہرزاد‘‘ کے نام سے اردوکے جدید شعرا اور ادیبوں کی کتب بھی شائع کرتا ہے۔ دنیا زاد کے اشاعت میں اب کچھ بے قاعدگی آگئی ہے۔ اس کے ہر شمارے کو ایک عنوان دیا جاتا ہے جس کے تحت کچھ مضامین شاملِ اشاعت ہوتے ہیں۔ دنیا زاد کے شمارہ نمبر 45 کا عنوان ’’نظم کی تلاش‘‘ ہے جس کے حصہ نظم میں کشور ناہیدکی طویل نظم ’’نظم کی تلاش‘‘ کے تین حصے، ’’سہون شریف درگاہ پر شیماکرمانی‘‘، ’’سرگزشت‘‘، ’’پاکستان کے ستر سال سوال کرتے ہیں‘‘ اور ’’سوال ہی جواب ہیں‘‘۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ زہر انگاہ اور افضال احمد سید کی نظمیں بھی عمدہ ہیں۔بینا سرکار کی انگلش نظموں کاترجمہ اسدعلوی نے عمدہ کیا ہے۔
شمارے کا آغاز شمس الرحمن فاروقی کے منشی مظفر علی اسیر اور خلیل الرحمن اعظمی پر دو بہترین مضامین سے ہوا ہے جس کے بعد شمیم حنفی نے ’’اپنے بیگانے‘‘ ہمارے ادبی پس منظرکا جائزہ لیا ہے۔لکھتے ہیں: ’’ادب وآرٹ جو صدیوں تک حسن، خیر اور صداقت کی تلاش اور تخلیق کرتے آئے تھے، ہمارے زمانے تک آتے آتے ان کا ضمیر اس حد تک بدلا کہ اپنے باطن یا اپنے گرد و پیش کی دنیا میں حُسن اور خیر کے کسی مظہر تک رسائی مشکل ہو گئی۔ ٹیگور نے اَنا کی کینچلی سے نکل کر دنیا کو اور اپنے آپ کو دیکھنے پر اس لیے زور دیا تھا کہ اب لکھنے والوں اور ان کے تخلیقی شعور کے درمیان تاریخ حائل ہو چکی تھی۔‘‘
افسانوں میں حسن منظر کا ’’شب ِ ہراس‘‘ ایک یادگار افسانہ ہے۔ مسعود اشعر اب کم کم لکھتے ہیں۔ وہ اس بار ’’ستر سال کی دوری‘‘ لے کرآئے ہیں۔ اشعرصاحب کا سفر نامہ اب تک شائع نہیں ہوا نہ ہی اب اس کا ذکرسننے میں آتا ہے۔ ذکیہ مشہدی کے دو افسانے ’’گداہن‘‘ اور ’’آدمی‘‘ شامل ہیں۔ ناصر عباس نیر نے تاخیر سے افسانوں کی جانب رجوع کیا لیکن دو بہت عمدہ افسانوی مجموعے دے کر چھا گئے۔ نیر صاحب ’’حکایات جدید و ما بعد جدید‘‘ اورخورشید حسنین کا افسانہ ’’چوڑھا‘‘ بھی عمدہ تحریریں ہیں۔ ذوالفقار عادل کے افسانے کا نام ’’منٹو‘‘ ہے لیکن اس کا افسانہ نگار منٹو سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کامرکزی کردار منٹو ایک شعبدہ باز ہے۔ افسانہ کے آغاز سے اختتام تک دلچسپی قائم رہتی ہے۔ گردیال سنگھ کے پنجابی افسانے کا ترجمہ انعام ندیم نے کیاہے۔ انعام نے منشی پریم چند کی روایت کے آخری افسانہ نگار گردیال کے تعارفی مضمون کاترجمہ بھی کرکے اردوادب کے قارئین کوان سے متعارف کرایاہے۔
غزلوں میں اس بار انور شعور، اکبرمعصوم، عرفان ستار، کاشف حسین غائر اور محمد علی منظرکی غزلیں ہیں۔ باصرسلطان کی غزل اوران کی شاعری پر انور شعور کا مضمون بھی لاجواب ہے۔
انورشعورکے کیاحسب حال اشعارہیں۔
یہی ملنے ملانے کے بہانے رہ گئے ہیں
کوئی ماتم ہو برپا، کوئی تقریبِ مسرت ہو
ہمیں تو چار دن رُکنا ہے اِس مہمان خانے میں
یہ عالم کوئی افسانہ ہو یا کوئی حقیقت ہو
افسانہ نگار خالدہ حسین کا طویل انٹرویو نجیبہ عارف نے لیا ہے۔ اردو کے صاحب طرز افسانہ نگار نیر مسعود پر دو تعزیتی مضامین ’’یادِ یارِ مہرباں‘‘ اصغر ندیم سید اور ’’نیر مسعود کا افسانہ‘‘ محمد حمید شاہدکے شامل ہیں جن پرکچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ آصف فرخی نے مصور و افسانہ نگار تصدق سہیل پر تعزیتی مضمون کو ’’طوطے والی سرکار‘‘ کاعنوان دیا ہے اور تصدق سہیل کے بارے میں کچھ نئے گوشے عیاں کیے ہیں۔
مرحوم انتظار حسین کے افسانے ’’دن‘‘ اور نوبل انعام یافتہ جاپانی ناول نگار کازوا واشیگیرو پر تاثراتی مضامین بھی آصف فرخی نے لکھے ہیں۔ غرض دنیا زاد کا تازہ شمارہ تاخیرسے آنے کے باوجود اپنا معیارقائم رکھے ہوئے ہے۔

نظمیں

روایت/عادل رضا
ہر روز
بدل جاتا ہے کچھ نہ کچھ
کمرہ
ہر ہفتے عشرے میں
نئے سلیقے سے
سجایا جاتا ہے
سامان
وقت کے ساتھ
بدل جاتی ہیں
کچھ چیزیں بھی
مگر
ایک ساتھ
سب کچھ بدلنے کے لیے
بدلنا ہی ہوتا ہے
گھر

بہت آسان نسخہ ہے /افسانہ مہر

زمیں تو بس اُگا دے گی
جو بویا ہے دکھا دے گی
چمن سینچا ہے یا جنگل
وہی نقشہ سجا دے گی
لہٰذا جو بھی پھل پایا
ہے وہ کاوش کا ہی جایا
بھلا اُس کا ہی تو ہوگا
جو غم پی کر ہنسا آیا
محبت ڈھونڈنے والو!
بہت آسان نسخہ ہے
فقط بود و ہنسی ہر جا
تم پھر تم دیکھتے جانا
وہی بوٹے وہی کلیاں
جو ہنس ہنس کر ہنساتی ہیں
زمیں جنت بناتی ہیں

حصہ