رنگت

852

نائلہ شاہد
’’تمہیں ذرا سینس نہیں کہ تم پر کیا سوٹ کرے گا، اتنا پڑھنے لکھنے کا کیا فائدہ!‘‘ قاسم نے آج پھر اُس کے اعتماد کے بخیے ادھیڑ دیے۔ اپنی تربیت کی وجہ سے وہ بالکل خاموش رہتی تھی ورنہ اس کے اندر لاوا سا ابل رہا ہوتا، آنسوئوں کو اندر اتار کر وہ اس لاوے کی حدت کو ٹھنڈا کرتی۔
ارمین جو کہ گھر بھر کی آنکھ کا تارا تھی، چار بھائیوں کی اکلوتی بہن۔ اللہ نے ساجدہ بیگم کو بہت دعائوں کے بعد اپنی رحمتِ خاص سے اس رحمت کو نوازا تھا۔ دادی نے جب گود میں لیا تو ٹھٹھک گئیں ’’ارے سجو اس کی رنگت کس پر چلی گئی؟ ہماری تو سات پشتوں میں سانولی رنگت کا کوئی نہیں!‘‘
’’ارے اماں یہ میرا ہیرا ہے، دیکھیے ہیرے کی طرح دمک رہی ہے‘‘۔ مصطفی نے بیٹی کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔ دادی بھی فی الوقت پوتی کی محبت میں رنگت کو بھول گئیں۔
ارمین جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اُس کی سانولی رنگت میں نکھار آتا گیا۔ سارے بھائی اُس کے پیچھے دیوانہ وار گھومتے رہتے۔ ذہین اتنی کہ کلاس میں ہر مضمون میں پہلی پوزیشن لیتی۔ سارے اساتذہ اس کی قابلیت کی وجہ سے اسے بہت چاہتے تھے۔ اسکول کی ہر بچی اُس کے قریب رہنے کے مواقع ڈھونڈتی۔ اُس کی سانولی رنگت تو کبھی اُس کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہی نہیں۔ بابا نے اس کی پوزیشنز کو دیکھتے ہوئے اسے امریکا کی یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا تیسرے نمبر کا بیٹا بھی وہیں تھا۔ بابا کے اس فیصلے پر دادی اور ساجدہ بیگم دونوں مخالفت پر اتر آئی تھیں۔
’’نہ پتر، لڑکی کو اتنی دور نہ بھیج، اور ہم اس کے بغیر کیسے رہیں گے؟‘‘ دادی کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ساجدہ بیگم کا بھی یہی حال تھا۔ لیکن ارمین اور بابا کے آگے کسی کی نہ چلی اور گھر بھر کی رونق، آنکھوں کا تارا دو سال کے لیے امریکا روانہ ہوگئی۔
گولڈ میڈل کے ساتھ جب وہ امریکا سے لوٹی تو اس کی سانولی رنگت پر سرخی نے ساجدہ بیگم کو کچھ آگہی دے دی۔
ائرپورٹ سے باہر آتے ہوئے لمبے چوڑے خوبصورت سے نوجوان نے اسے مسکراتے ہوئے اللہ حافظ کہا تو اس کے گالوں کی لالی بڑھ گئی۔
اور پھر قاسم کے گھر والے کچھ دنوں بعد رشتہ لے کر آگئے۔ قاسم کا تعلق کشمیر سے تھا، پوری فیملی سرخ و سفید۔ قاسم کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھا۔
ارمین جب ڈرائنگ روم میں آئی تو قاسم کی پوری فیملی کا منہ بن گیا سوائے قاسم کے، جو ارمین کو دیکھ کر واری جارہا تھا۔ ماں نے جب بیٹے کا اتنا جھکائو دیکھا تو وہ بھی ارمین کی طرف دیکھ کر مسکرادیں، لیکن بہنوں نے ایکا کرلیا تھا کہ ہماری بھابھی اتنی کالی ہرگز نہیں ہوگی۔ ساجدہ بیگم سب بھانپ گئیں۔ ارمین کے اندازِ گفتگو اور طور طریقے سے قاسم کے ماں باپ خاصے متاثر تھے، انھیں بیٹے کی پسند پر اعتراض نہ تھا، لیکن قاسم کی ماں نے قاسم کو یہ ضرور کہا کہ ’’بیٹا شادی کے کچھ عرصے بعد جب عشق کا بھوت اترے گا تو تم اس لڑکی سے اپنا رویہ بدلنا مت‘‘۔ اور قاسم غیر یقینی کی کیفیت کے ساتھ بس ماں کو دیکھے گیا۔
’’ماما، خاندان والے ہمارا بہت مذاق اڑائیں گے، ہمارے خاندان میں اور جاننے والوں میں ایک سے ایک حسین چہرے ہیں، بھیا نے یہ کیا کیا!‘‘ قاسم کی چھوٹی بہن مستقل احتجاجی رویہ اختیار کیے ہوئے تھی۔ ’’بیٹا، شکل صورت ہی سب کچھ نہیں ہوتی، اتنی قابل ہے تمہاری ہونے والی بھابھی‘‘۔ ماما نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
ارمین ان سب باتوں سے بے خبر اپنی نئی زندگی کی منصوبہ بندی کررہی تھی، کیونکہ اس کو آج تک اس کے سانولے رنگ پر کسی نے کچھ کہا ہی نہیں تھا۔ قاسم نے بھی دو سال بعد جب اس کو ڈگری ملی اور وہ گولڈ میڈل پہن کر اسٹیج سے اتری تو مبارکباد کے بعد شادی کی آفر کردی، اور وہ حیران و پریشان بس اس کو دیکھے گئی۔ اسی ایک ہفتے میں وہ قاسم کے بیک گرائونڈ سے واقف ہوگئی تھی، لیکن اس نے قاسم سے صاف کہہ دیا کہ میرے والدین کا جو فیصلہ ہوگا وہ میرا فیصلہ ہوگا۔ ساجدہ بیگم نے جب اپنے تحفظات ارمین کے بابا اور دادی کے سامنے رکھے کہ ہماری باصلاحیت ہیرا جیسی بچی صرف رنگت کی وجہ سے رُل نہ جائے، اس کا اعتماد، اس کی شخصیت بکھر نہ جائے، قاسم کے گھر والے خاصے حسن پرست ہیں۔‘‘ ساجدہ بیگم ماں تھیں، وہ بیٹی کو ٹوٹتے بکھرتے کیسے دیکھ سکتی تھیں! سب نے اُن کی بات کو رد کردیا ’’ارے سجو، اتنا اچھا رشتہ ہے، تمہیں خوامخواہ کے وسوسے آرہے ہیں۔ ‘‘
قاسم کی دلہن کی شاپنگ پر بہت باتیں بنائی گئیں۔ ’’کیسا رنگ، کیسا پرنٹ بھیا! بھابھی گوری ہوتیں تو ہر رنگ لے لیتے۔ سچ ابھی تو اتنا مشکل ٹاسک ہوگیا ہے کہ ان پر سوٹ کیا کرے گا!‘‘ قاسم دن میں پچیس بار یہ جملے سنتا اور نظرانداز کرتا۔ شادی کا جوڑا بھی بہنوں نے ہلکے رنگ کا ہی لیا، سلون بھی خود بک کروایا۔ ساجدہ بیگم ان سب باتوں سے خاصی پریشان سی ہوگئی تھیں، وہ بس اپنی بیٹی کے لیے دعا ہی کرسکتی تھیں۔ ارمین دلہن بننے کے بعد خاصی خوبصورت لگ رہی تھی لیکن قاسم کے سارے خاندان والے ناک بھوں چڑھائے ہوئے تھے۔ پہلی بار ارمین نے اپنے رنگ کے متعلق کوئی منفی بات سنی ’’ارے قاسم بیٹا تو اتنا سوہنا اور بیوی ایسی کالی پسند کی، بیٹا جی اپنے خاندان میں اب کالے بچے پیدا ہوں گے‘‘۔ ارمین نے دیکھا وہ کوئی بوڑھی خاتون تھیں جنہیں قاسم کی ماما پھوپھو کہہ رہی تھیں۔ ارمین اچھی خاصی ڈسٹرب ہوگئی تھی۔ قاسم اس کی کیفیت کو سمجھ گیا تھا، اس کے کندھوں کو ہلکے سے دباتے ہوئے کان میں سرگوشی والے انداز میں کہا ’’ارے ان کی نظر کمزور ہے۔‘‘
بہنوں اور خاندان والوں کے جملوں نے قاسم کو غور کرنے پر مجبور کر ہی دیا تھا۔ اب وہ بھی وقتاً فوقتاً ارمین کو اس کی سانولی رنگت پر جملے بول دیا کرتا۔
قاسم کے کزن کی شادی شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں تھی، اس کی دلہن کو دیکھ کر سب واہ واہ کررہے تھے، ایسا لگ رہا تھا آسمان سے حور اتر آئی ہے۔ قاسم کی نظریں بھی اسی کا تعاقب کررہی تھی ۔
’’ارے ہم نے بھیا کے لیے ان کو پسند کیا تھا، یہ لوگ دینے کو بھی تیار تھے، لیکن ہمارے بھیا کو تو ٹیلنٹ بھا گیا‘‘۔ قاسم کی چھوٹی بہن اپنی دوستوں کو بتارہی تھی… اور پھر ان کے بلند بانگ قہقہے قاسم کو ناگوار لگے۔ اس کی نظریں خودبخود ارمین کو ڈھونڈنے لگیں۔ کچھ ہی فاصلے پر وہ دوسری خواتین کے ساتھ نظر آگئی۔ گہرے کاسنی رنگ کے سوٹ میں ہلکا سا میک اپ کیے وہ اس کو ہمیشہ کی طرح پیاری ہی لگی، لیکن اس وقت اتنی سرخ و سفید خواتین کے بیچ میں وہ دبی دبی سی لگ رہی تھی۔ اسی لیے ولیمے میں جانے کے لیے جب وہ عنابی رنگ کے اسٹائلش سوٹ میں تیار ہوکر آئی تو قاسم کے منہ سے یہ جملے نکل ہی گئے۔
’’دیکھو یار میرا مطلب تھا رنگوں کا استعمال اپنے جسم کے مطابق ہی ہونا چاہیے‘‘۔ ارمین اب آئینے کے سامنے بہت دیر تک اپنا جائزہ لیتی رہتی۔ اس کا اب کسی تقریب میں جانے کو دل نہ چاہتا۔ آج تک اس کے گھر والوں نے کسی بھی رنگ کو پہننے سے اسے منع نہ کیا تھا، بلکہ جب وہ کہیں جانے کے لیے تیار ہوتی تو سارے گھر والے اس کو گھیر لیتے، بھائی تصویریں بناتے، اماں اور دادی بلائیں لیتیں، اور بابا ’’میری شہزادی‘‘ کہہ کر اپنی بانہیں پھیلا دیتے اور وہ ان کے سینے سے لگ جاتی۔
’’مجھے کیوں اماں نے میرے رنگ کے بارے میں کبھی کچھ نہ کہا؟ میرے گھر والے تو میری اک اک ادا پر واری جاتے تھے۔ کیوں دادی مجھے حور پری کہہ کر بلاتی تھیں؟ میری اتنی بڑی کمی کو کیوں نظرانداز کیا؟ میرے شوہر اور سسرال والوں کو تو میرا تیار ہونا بہت بڑا مسئلہ لگتا ہے‘‘۔ یہ سوچتے ہوئے اُس کے آنسو نجانے کب آنکھوں سے رواں ہوگئے۔ اپنی ساس کی آواز پر اُس نے جلدی سے آنکھیں صاف کیں۔
آج بھی ولیمے کی تقریب میں جانے کے لیے سوچ سمجھ کر تیار ہوئی لیکن قاسم نے پھر ٹوک دیا۔ جلدی سے لائٹ پنک کلر کا جوڑا نکالا اور تیار ہوکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اسے اپنی شخصیت ان باتوں سے ٹوٹتی بکھرتی محسوس ہورہی تھی۔ اب اکثر وہ تقریبات میں جانے سے گریز کرتی۔ ساس اور نندوں نے اب نیا شوشا نکالا وائٹنگ انجیکشن۔ ’’ارے بھابھی دیکھنا آپ کا رنگ کیسا گورا ہوجائے گا، پھر بھائی صرف آپ کو ہی دیکھا کریں گے اور ہر رنگ آپ پر سوٹ کرے گا۔‘‘ اور وہ یہ سارے جملے کتنی ہمت اور برداشت سے سن رہی تھی۔ اس کا سانولا رنگ ایک عیب ہے، یہ انکشاف اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ اس کا اعتماد، اس کا سلیقہ، اس کا اخلاق، اس کی تہذیب، اس کے گولڈ میڈلز سب ختم… رنگت ان سب پر سبقت لے گئی، جس کو نکھارنے کے لیے لاکھوں خرچ کرنے کو تیار ہیں، اور یہ کیسے لوگ ہیں جو ظاہری صورت کے لیے روح کو کچوکے لگا رہے ہیں، اس کو روند رہے ہیں۔
اب قاسم پارٹیوں میں اکثر اکیلا جاتا، اور وہ جانتی تھی کہ قاسم بھی وہی سوچ رکھتا ہے جو اس کے گھر والوں کی ہے۔ آج بہت دن بعد وہ میکے کی طرف آئی۔ بابا تو آفس گئے ہی نہیں، اماں اور دادی نے دیکھتے ہی کہا: ’’ارمین کتنی پیاری ہوگئی ہے‘‘۔ اس کے قدم وہیں رک گئے۔ ’’ہماری بیٹی ہے ہی پیاری‘‘ بابا نے بھی پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اور جیسے اس کے اندر کا پکتا لاوا پھٹ گیا ’’جھوٹ بولتے ہیں آپ لوگ، فریبی ہیں آپ لوگ‘‘۔ اس نے سامان کو پھینکتے ہوئے چیخ کر کہا۔ سب دنگ رہ گئے۔ اماں نے اس کے کانپتے جسم کو اپنی آغوش میں لے لیا ’’میرا بچہ، میری ارمین کیا ہوا؟‘‘
’’چھوڑیں اماں، میں کالی رنگت کی بدشکل لڑکی ہوں، کیوں مجھے حور پری کہتے تھے آپ؟‘‘
ساجدہ بیگم پورا معاملہ سمجھ گئیں۔ شکایتی انداز سے ساس اور شوہر کی طرف دیکھا اور ارمین کو اندر لے گئیں۔ دودھ کے ساتھ دوائی کھلا کر اسے سلا دیا اور قاسم کو فون کردیا کہ وہ آج نہ آئے، دو دن اس کو یہاں رہنے دے، بھائیوں کے رشتے طے ہونے والے ہیں۔ دادی نے نظر کی آیتیں پڑھ کر پھونکیں ’’ہائے بچی پر کسی نے جادو کردیا ہے‘‘۔ ’’نہیں اماں، رویّے اور سوچ کے اثرات بھی بہت خطرناک ہوتے ہیں‘‘ ساجدہ بیگم نے ارمین کا سر سہلاتے ہوئے کہا ’’بس ہم نے بیٹی کو کچھ تلخ حقائق کی بھی آگہی دی ہوتی تو وہ بہادری سے یہ سب فیس کرتی۔ بس اب اس کو اس خطرناک اسٹیج سے بچانا ہے جس میں یہ جاتی نظر آرہی ہے، اس کی صلاحیتیں، اس کی خوبیاں سب پیچھے چلی گئیں، اس کو باہر نکالنے کے لیے اس کے ساتھ رہنے والوں سے بات کرنا ضروری ہے، اگر مستقل اسی ماحول میں رہی تو شاید بہت بڑا نقصان ہوجائے‘‘۔
دو دن میکے میں رہنے سے ذہن پر بہت اچھے اثرات پڑے، اور وہ فریش سی ہوگئی۔ قاسم سے بھی فون پر اچھی بات چیت ہوئی۔ بھائیوں کی ہونے والی دلہنوں کی تصاویر اماں نے اس کو دکھائیں۔ دونوں بہنیں ہی تھیں، پیاری سی، پرکشش سی۔ رنگت ارمین کی طرح سانولی تھی۔
’’نہیں اماں آپ ان کو کیسے پسند کرسکتی ہیں! اماں ان کا رنگ گورا نہیں ہے، اماں نہیں، اماں نہیں…‘‘ وہ باقاعدہ چیخ رہی تھی۔ سارے گھر والے پریشان تھے۔ ’’بٹیا سارے رنگ اللہ نے بنائے ہیں، اور اللہ کی تخلیق کیسے بری ہوسکتی ہے؟‘‘ قاسم دروازے پر کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ ’’نہیں بابا، رنگ گورا ہو تو کچھ برا نہیں ہوتا۔ بابا آپ کچھ بھی پہن لیں، اچھے لگتے ہیں۔ دیکھیے آپ کی بیٹی نے لال جوڑا اپنی شادی پر صرف کالے رنگ کی وجہ سے نہیں پہنا۔ بابا، میری بھابھیاں اس اذیت سے کیوں گزریں!‘‘ وہ زارو قطار روئے جارہی تھی۔ ساجدہ بیگم اس کو سنبھالے قاسم کی طرف شکوہ بھری نظروں سے کہہ رہی تھیں ’’ہمارا ہیرا غلط انگوٹھی میں جڑ گیا‘‘۔ قاسم سکتے کے عالم میں اپنی متاعِ حیات کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھ رہا تھا۔ نادانستگی میں اس سے کتنی بڑی زیادتی ہوگئی۔

حصہ