غزالہ عزیز
مسلم اسپین کا ایک بڑا اسکالر تھا ’’احمد عبدالنور‘‘۔ علم کی ترویج و اشاعت میں ایسا مشغول کہ اس کو دن و رات کا ہوش نہ رہتا تھا۔ کپڑے انتہائی معمولی پہنتا، معمولی گھر میں رہتا، مشقت کی زندگی میں اپنے لیے اس کے پاس وقت نہ تھا۔ کسی نے ایک دفعہ اس سے پوچھا کہ ’’تم نے یہ اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’میری حالت موم بتی کی سی ہے جو خود کو جلا کر دوسروں کو روشنی پہنچاتی ہے۔ میں اپنے آپ کو جلاتا ہوں تو میری قوم کو روشنی ملتی ہے‘‘۔ یہ بات کسی سائنسی فارمولے کی طرح ٹھیک بیٹھتی ہے کہ زمین میں کامیابی اور عروج اُن قوموں کو حاصل ہوتا ہے جن کی ایک اچھی خاصی سمجھ دار اکثریت اپنے آپ کو مٹا ڈالنے کے لیے تیار ہو۔ انفرادی طور پر بھی کسی دانے کی تقدیر میں تناور درخت بننا اُسی وقت لکھا جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو خاک میں ملا ڈالتا ہے۔
سوڈان کے ایک دور دراز گائوں کا واقعہ سوڈانی فوج کے ایک جنرل کی زبانی منظرعام پر آیا، وہ کہتا ہے: ہم جب جیپ کے ذریعے وہاں گئے تو وہاں کے لوگ ڈر کے مارے گھروں میں گھس گئے، انہوں نے اس سے پہلے کبھی گاڑی نہیں دیکھی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ یہ کیا چیز ہے کہ جو چلتی ہے، جو نہ گائے ہے، نہ خچر اور نہ گھوڑا… ہم نے انہیں جمع کیا اور سمجھایا کہ ہم بھی تمہاری طرح سوڈانی ہیں اور تمہارے فائدے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ابھی ہم گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ایک گھنٹی کی آواز آئی۔ پوچھا، یہ کس اسکول کی گھنٹی بج رہی ہے؟ جواب ملا: یہاں کوئی اسکول نہیں، نہ اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ یہ گھنٹی تو ایک صاحب کی ہے جو اپنی سائیکل پر آتے ہیں۔ ان کے پاس دو تھیلے ہوتے ہیں، ایک میں بچوں کے لیے مٹھائی اور ٹافیاں، اور دوسرے میں معمولی دوائیں، مرہم اور اسپرین وغیرہ۔ یہ صاحب لوگوں کو مسیح اور مریم کے بارے میں بتاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ ہفتے میں دو دفعہ آتے ہیں اور تقریباً چالیس گائوں کا دورہ کرتے ہیں۔ ہم اُن کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا کہ آپ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں؟ کہنے لگے: میں ’بروکسل‘ کا رہنا والا ہوں۔
ہم نے پوچھا: اس علاقے میں کتنے عرصے سے ہیں؟ کہنے لگے: ’’تیس سال سے‘‘۔ ہم نے پوچھا: ان تیس سال میں کتنی مرتبہ اپنے وطن اور گھر والوں کے پاس گئے ہیں؟ کہنے لگے: ایک مرتبہ بھی نہیں۔ دریافت کیا: وطن کب جانے کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان سوالوں کا کیا مطلب ہے؟ یہی میرا وطن ہے، یہیں میرا جینا اور مرنا ہے، یہیں میری قبر بنے گی۔
غور کیجیے ایک شخص اتنی محنت کرتا ہے ایک ایسے پیغام کو پہنچانے کے لیے جس کو وہ مقدس سمجھتا ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق مشنریز کی تعداد اس وقت 47 لاکھ 50 ہزار ہے۔ اسلام سے بڑھ کر سچا دین کون سا ہے؟ لیکن اس سچے دین کے لیے ایسی سچی لگن رکھنے والے مردانِ کار کتنے ہیں؟
مولانا مودودیؒ کہتے ہیں ’’خدا کی راہ میں کام کرنے والوں کو اعلیٰ ظرف اور فراخ حوصلہ ہونا چاہیے۔ ہمدرد اور خیر خواہ ہونا چاہیے، متواضع اور منکسرالمزاج ہونا چاہیے، شیریں کلام اور نرم خو ہونا چاہیے۔ جو اپنے حق سے کم پر راضی ہوں اور دوسروں کو اُن کے حق سے زائد دینے پر راضی ہوں۔ جو برائی کا جواب بھلائی سے دیں۔ جو اپنے عیوب کے معترف ہوں اور دوسروں کی بھلائی کے قدردان ہوں۔ جو اتنا بڑا دل رکھتے ہوں کہ لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرسکیں، زیادتیوں سے درگزر کرسکیں، اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیں، خدمت لے کر نہیں خدمت کرکے خوش ہوتے ہوں، ہر تعریف اور ہر مذمت سے بے نیاز ہوکر اپنا فرض ادا کریں اور خدا کے سوا کسی کے اجر پر نگاہ نہ ہو۔ جو طاقت سے دبائے نہ جا سکیں، دولت سے خریدے نہ جاسکیں، مگر حق اور راستی کے آگے بلاتامل سر جھکا دیں۔‘‘
یہ وہ دل موہ لینے والے اوصاف ہیں جن کی کاٹ تلوار سے بڑھ کر اور ان کا سرمایہ سیم و زر کی دولت سے گراں تر ہے۔ بس یہ ہے وہ آئینہ جس میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کو دیکھنا اور پرکھنا چاہیے۔
پھر تیغ بہ کف رزمِ گہِ وقت میں آکر
تم کون ہو؟ کیا ہو؟ زمانے کو بتا دو
کچھ بہنوں نے لکھنے کے بارے میں ہدایات سے متعلق پوچھا تھا، تو گزارش ہے کہ لکھنے کے لیے پڑھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا پیاس بجھانے کے لیے پانی۔ لہٰذا مطالعہ وسیع کریں، لکھتے وقت ایک موضوع کا انتخاب کریں اور پھر اس پر ہی ذہن کو مرکوز رکھیں۔ افسانوں میں درس و نصیحت بین السطور میں ہونی چاہیے، نہ درمیان میں، نہ آخر میں۔ شاعری میں نکتہ آفرینی کرنے والی خواتین اصلاح کے خیال سے کسی شاعرہ یا غیر شاعرہ لیکن شاعری کا ذوق رکھنے والی خواتین کو ضرور دکھا لیا کریں، باقی سب مشق پر منحصر ہے۔
انچارج صفحہ خواتین