ارم فاطمہ
کبھی اپنی روزمرہ کی مصروف زندگی سے اور اپنی ذات سے نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو اپنے اردگرد اطراف میں کتنے ہی ایسے پھول سے معصوم چہرے نظر آئیں گے جو حسرت و یاس کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں۔ ان کی آنکھوں کو قریب سے دیکھیں تو ان میں آپ کو کتنے ہی خواب مرتے نظر آئیں گے۔ کبھی ان کے اداس لبوں کا تصور کیجیے ،کیا آپ کو ایسا لگا ہوگا کہ یہ کبھی مسکرائے بھی ہوں گے؟
ان کی زندگی روزمرہ مشقت کی ایسی تصویر ہے جس میں صرف انہیں کام ہی کرنا ہے اور پھر بھی وہ اپنی محنت کے حساب سے معاوضہ نہیں پاتے۔ان کا معاشی، جسمانی، روحانی استحصال کیا جاتا ہے۔ معاشی اس لحاظ سے کہ ان کی عمر کے مطابق اور وقت کا حساب کیے بغیر بے حساب کام لیا جاتا ہے اور انہیں ان کی محنت کا اتنا صلہ نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں۔
جسمانی اس لحاظ سے کہ اس قدر نوعمری میں استطاعت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ ان کے کام کے اوقات مخصوص نہیں ہیں۔ ان کے جسم درد سے بکھر رہے ہوں مگر انہیں دن کی دیہاڑی پوری کرنی ہے۔ روحانی استحصال اس انداز میں کہ کبھی انہیں جھڑکیاں ملتی ہیں اور کبھی مختلف سزائیں انہیں ذلت کا احساس دلانے کے لیے ملتی ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے ان کے ساتھ جو یہ سلوک کیا جاتا ہے، تو ان کے دل پر کیا گذرتی ہے۔وہ کس کرب سے گزرتے ہیں۔ کیا معاشرے میں بسنے والے افراد کے دل میں ان کے لیے کسی قسم کا احساس بیدار نہیں ہوتا ؟
میں بات کررہی ہوں ان معصوم پھول جیسے بچوں کی جن کی عمریں بمشکل 5 سے 10 سال کی ہیں اور وہ پورے کنبے کا بوجھ اٹھانے کے لیے صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ ان سبھی بچوں کے گھروں کی یہی کہانی ہے۔ گھر کے افراد زیادہ ہیں اور باپ نشے میں دھت اپنی ذمہ داریوں سے دور۔ ہر احساس سے عاری، اولاد تو پیدا کرلیتے ہیں مگر ان کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں تبھی ان ننھے محنت کش کاریگر بچوں کو اپنے بچپن کی معصومیت اور شرارتوں کو بھول کر زندگی کی مشقت زدہ شاہراہ پر قدم رکھنا پڑتا ہے جہاں قدم قدم پر ان کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔
آپ صبح اپنے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں راستے پر آپ کو کسی دکان پر ، کسی ڈھابے پر، چوراہوں پر ، ٹریفک سگنلز پر، بے شمار ایسے بچے نظر آئیں گے جو اپنی عمر سے بڑھ کر بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے۔کہیں ان کے ہاتھ سخت اوزار پکڑے گاڑی کے نٹ بولٹ ٹھیک کرتے ، ٹائر مرمت کرتے نظر آئیں گے ، تو کہیں ڈھابے پر چائے کی ٹرے پکڑے گاہکوں کے آگے پیچھے بھاگتے نظر آئیں گے اور اگر کہیں ٹرے ان کے ہاتھوں سے پھسل کر گر جائے اور کپ ٹوٹ جائیں تو ان کے ننھے گالوں پر پڑنے والے طمانچوں کی تکلیف کوایک لمحے کے لیے محسوس کر کے دیکھئے گااگر آپ حساس دل کے مالک ہیں تو آنکھوں میں نمی آئے بغیر نہیں رہے گی۔
مگر کچھ لوگوں کے نزدیک یہ روز کا معمول ہے۔چائلڈ لیبر کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں چائلڈ لیبر کا تناسب 37فیصد ہے اور اس میں 49 لڑکے اور 51 لڑکیاں ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں اس تناسب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کم عمر بچیاں کوٹھیوں میں صبح سے شام تک کام کرکے اپنے گھروں کی کفالت کرتی ہیں۔ ان کی زندگی بھی آسان نہیں ہے۔ ان کی الگ درد بھری کہانی ہے۔ ان گھروں میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے۔وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کہیں ان پہ چوری کا الزام لگا کر تشدد کیا جاتا ہے تو کہیں ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ ان کی زندگی برباد کردی جاتی ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ معصوم عزت جانے پر بھی خاموش رہتی ہیں جس کے باعث اس نوع کے جرائم میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور کوئی اس جرم کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرتا۔ اخبارات میں کتنے ہی ایسے واقعات آپ کی نظروں کے سامنے سے گزرے ہوں گے اور آپ نے سرسری نظر سے پڑھا بھی ہوگامعصوم بچیوں پر تشدد کیا گیا۔ اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا گیا۔ اس سلسلے میں انہیں انصاف بھی نہیں ملا۔ نہ جانے کتنے ایسے کیس ہوں گے جو منظر عام پر بھی نہیں آسکے۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام بچے جن کی عمریں بمشکل 13 سے 15 سال ہیں زندگی کے مشکل دور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو نہ صرف تعلیم ، خوراک اور لباس جیسے مسائل کا سامنا ہے بلکہ بعض اوقات زندگی سختیوں سے گھبرا کر یہ مختلف جرائم کی راہ اختیارکرلیتے ہیں۔ کسی گروہ کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ پھر ساری زندگی اسی دلدل میں گزار دیتے ہیں جبکہ صرف ذرا سی کوشش سے انہیں معاشرے کا مفید فرد بنایا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی- ایل- او) کے تحت ہر سال 12 جون کو بچوں سے جبری مشقت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 2002 ء میں ہوا تھا۔ آئی ایل او کے تحت کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد ایک کروڑ سترہ لاکھ تھی اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ SPARC نامی ایک این جی او کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان 2 کروڑ4 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ 1کروڑ 5لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے ملک میں ہر طرح کے قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں متعدد واقعات ایسے سامنے آتے ہیں جن میں قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوتیں ہیں۔ ٹریفک قوانین کی پابندی سے لے کر دفتری اوقات کی پابندی تک ، ہم اپنے اخلاقی رویوں میںہر قسم کے قانون سے آزاد ہوچکے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ استحصال لیبر قوانین کا کیا جاتا ہے جس کا شکار یہ معصوم بچے ہوتے ہیں اس کا اندازہ ان کی شب وروز کی زندگی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں وہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ قوم کے ان نونہالوں کے مستقبل کی یہ ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کم از کم کبھی زندگی میں اس مقام پر بھی ہوں گے کہ وہ یہ مشقت بھری زندگی سے نجات پاسکیں۔کیا ان کا صرف یہی ایک خواب پورا نہیں کیا جاسکتا؟پاکستان میں متعدد این جی او اور فلاحی ادارے اپنے طور پر کام کرہے ہیں مگر ان کی مالی استطاعت میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو تاکہ یہ کام مؤثر اور وسیع پیمانے پر ہوسکے اور مزدور بچوں کی زندگی سنور سکے۔
اس سلسلے میں خوش آئند بات یہ ہے کہ 2014 ء میں پنجاب نے پہلی بار ساؤتھ ایشیا لیبر کانفرنس بلا کر چائلڈ لیبر خاتمے کے لیے پہلے میگا پراجیکٹ مربوط منصوبہ برائے بچگانہ وجبری مشقت کا خاتمہ کا آغاز کیا۔اس پراجیکٹ کا مقصد چائلڈ لیبر کی بدترین صورتوں کا خاتمہ، قرض کی ادائیگی کے نام پر جبری مشقت کا خاتمہ، متاثرہ خاندانوں کی بحالی، جبری مشقت کے خلاف قوانین کی مضبوطی اور افسران کی استعداد کار میں اضافہ کرنا تھا۔کچھ وقت کے لئے یہ پروگرام تعطل کا شکار رہا۔ شاید اس پر مکمل طور سے عمل درامد نہیں ہوسکا۔
مگر اس سلسلے کی خوش آئند بات یہ ہے کہ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے محنت کش بچوں کے لئے خصوصی مراعات کا اعلان کرتے ہوئے ان کے لیے ایوننگ اسکولز بنانے کا اعادہ کیا ہے جنہیں سرکاری اسکولوں اور ٹیکنیکل کالجوں کی عمارتوں میں محنت کش بچوں کے لیے بنایا جائے گا۔
ایک کثیر الاشاعت اخبار کی 7 مارچ 2018ء کی خبر کے مطابق محکمہ اسکول ایجوکیشن، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، ٹیوٹا اور لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ مل کر منصوبے کو حتمی شکل دیں گے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر عائشہ غوث نے کہا کہ ان بچوں کی استحصالی مشقت ختم کرنے کے لئے ان بچوں کے ماہانہ وظائف اور ان کے والدین کی مالی مدد کی جائے گی۔ ان میں آٹوورکشاپس،پیٹرول پمپس،قہوہ خانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے والے بچوں کو اسکول میں داخلہ دیا جائے گا اور جلد ہی اس کا دائرہ کار چائلڈ لیبر کے تمام ممکنہ شعبوں تک پھیلایا جائے گا۔ان بچوں کو رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جائے گی۔
اس خبر کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید نے متعلقہ محکموں کے افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلے اجلاس میں موجودہ صورتحال کے مطابق درپیش مسائل اور وقت و اخراجات کا تخمینے کے ساتھ شرکت کریں تاکہ پروگرام پہ جلد عمل کیا جاسکے۔ یہ ایوننگ اسکول پروگرام نوعمری میں مجبوری کے تحت کام کرنے والے بچوں کو اسکول تک لے آئے گا اور ان کے بہتر مستقبل کا ضامن ہوگا۔
یہ ایک مثالی اور روشن قدم ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انقلابی اقدامات کو نہ صرف نیک نیتی اور خلوص سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے بلکہ اسے مثال بناکر ایسے اقدامات دیگر صوبوں میں بھی کئے جائیں تاکہ مستقبل کے یہ معمار پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے ضامن بن سکیں۔
مورخ لکھے گا
سفیر احمد چوہدری
شام میں جاری خانہ جنگی کو 7 سال مکمل ہو چکے ہیں اور حالات بہتر ہونے کے بجائے دن بدن خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں 2011 میں شامی قصبے ڈیرہ سے شروع ہونے والا نوجوانوں کا احتجاج اب ایک چھوٹی عالمی جنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ سات سالوں میں تقریباً پانچ لاکھ شامی ہلاک ہو چکے ہیں اور ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں جو کہ شام کی کل آبادی کا نصف ہے یہ اس صدی کا سب سے بڑا اور دلخراش واقع ہے۔
آنے والے وقتوں میں تاریخ کا سیاہ ترین باب شام اور وہاں ہونے والے مظالم ہوں گے اور مورخ لکھے گا کہ کیسے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ہوتے ہوئے ایک مسلمان ملک کو تباہ و برباد کر دیا گیا،کیسے ایک ہنستے بستے اور پر امن ملک کو کھنڈر بنادیا گیا،کیسے نہتے اور معصوم عوام جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کیے گئے،کیسے روس اور امریکا جیسی عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کی جنگ سرزمین شام پر لڑی،کیسے ترکی اور ایران جیسی بڑی اسلامی قوتوں نے بھی ترجیح اپنے مفادات کو ہی دی،کیسے پوری اسلامی دنیا بت بن کر اس مظلوم قوم کا تماشا دیکھتی رہی،کیسے اسلام کا قلعہ تصور کیا جانے والا واحد ایٹمی ملک پاکستان جوکہ امریکا نواز سعودی عرب کے لیے ہر مسئلہ پر فوج بھیج دیتا تھا شامی مسلمانوں کی نسل کشی پر صرف احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکا۔
تاریخ گواہی دے گی کہ شام کے معصوم بچوں کی آہیں عرش تک سنی گئی مگر فرش والے کیا مسلمان اور کیا غیرمسلم بت بنے یہ انسانیت سوز مظالم دیکھتے رہے کیسے 4 سالہ ایلان کردی اپنے ہی ملک سے جان بچا کرفرار ہوتے ہوئے والدین کے ساتھ کشتی پہ بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے سمندر کی لہروں کی نذر ہوگیا اور اس معصوم اور نئی لاش کا بوجھ سمندر بھی نا اٹھا سکا اور اسے کنارے پر پھینک کر انسانیت سے سوال کر ڈالا،کیسے پانچ سالہ عمران کو جب کئی گھنٹے بعد اپنے ہی گھر کے ملبے سے زندہ نکالا گیا تو وہ گرد اور خون میں لت پت تھا مگر اس آنکھ میں کوئی آنسو نہ تھا نہ ہی زخموں کا درد بس کسی بت کی مانند کئی گھنٹوں تک شاید یہی سوچتا رہا کہ آخر اس کا قصور کیا تھا کیوں اس کے بچپن کے ساتھی چھین لیے گئے کیوں اسے بچپن میں ہی اتنا کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے،کیسے کافی دن بھوکا رہنے والے بچے کو جب روٹی دی گئی تو اس نے دینے والے ڈاکٹر سے کہا کہ”کیا کوئی ایسی دوا ہے جس سے بھوک نہ لگے”،کیسے معصوم بچے بلک بلک کر یہ پوچھتے رہے ہمارا قصور کیا ہے،کیسے اہل شام پر زندگی تنگ کردی گئی تاریخ سب گواہی دے گی اور ہم آج کے دور کے انسان اور خاص طور پر مسلمان تاریخ کے اس سیاہ باب کا مرکزی کردار ہوں گے جونا تو اس ظلم کا طاقت سے مقابلہ کرسکے اور نہ ہی زبان سے اور دل میں برا کہنا جہاد اور ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے۔