کے الیکٹرک کو آخر کب تک برداشت کرنا پڑے گا

309

محمد انور

گیس نہیں ملی تو لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ ہوسکتا ہے ، ترجمان کے الیکٹرک

لوڈشیدنگ کے حوالے سے کے الیکٹرک کے ترجمان نے سنڈے میگزین کے استفسار پر بتایا ہے کہ کے الیکٹرک کو اپنا سسٹم چلانے کے لیے فوری 190 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی ضرورت ہے جب تک مطلوبہ مقدار میں گیس نہیں ملے گی کے الیکٹرک اس وقت تک لوڈشیڈنگ کرنے پر مجبور ہوگی اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ گیس نہ ملنے پر لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھادیا جائے گا ۔ترجمان نے بتایا ہے کہ ہائی کورٹ سوئی سدرن گیس کو 73 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے الیکٹرک کو سپلائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ ابھی تک کے الیکٹرک کا کنٹرول ابراج کے پاس ہی ہے۔ شنگھائی الیکٹرک نے بوجوہ کنٹرول نہیں سنبھال سکی۔
نیشنل پاور اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے منگل 17 اپریل کو جاری کیے گئے اپنے ایک اعلامیے میں بتایا ہے کہ کراچی میں جاری بجلی کے بدترین بحران کی ذمے داری کے الیکٹرک پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کے الیکٹرک کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ شہریوں کو امید ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے فیصلے اور اس فیصلے کے اعلان سے کراچی میں لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔
نیپرا کی رپورٹ کے مطابق اتھارٹی نے سفارش کی ہے کہ وفاقی حکومت فریقین کا گیس بحالی کا تنازع حل کرائے۔ رپورٹ کے مطابق ’کے الیکٹرک‘ کو گزشتہ سال کی نسبت 50 سے 60 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کم مل رہی ہے لیکن کورنگی اور بن قاسم کے گیس پلانٹس پر متبادل فیول کا نظام موجود ہونے کے باوجود انہیں استعمال نہیں کیا گیا۔ گیس نہ ملنے پر ان پلانٹس کو ہائی اسپیڈ ڈیزل یا متبادل ایندھن پر نہ چلانا غیر ذمے دارانہ عمل ہے۔ نیپرا نے کہا ہے کہ متبادل فیول پر پلانٹس چلانے سے ’کے الیکٹرک‘ کو تقریباً 350 میگاواٹ بجلی مل سکتی تھی، لیکن 27 مارچ سے 10 اپریل تک بن قاسم پاور اسٹیشن سے استعداد سے کم بجلی پیدا کی گئی، یعنی 1015 میگاواٹ کے بجائے صرف 647 میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی، جب کہ بن قاسم کا یونٹ نمبر دو بھی ستمبر سے بند پڑا ہے۔
نیپرا کی خصوصی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اپنی جگہ، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد شہریوں کو اس اذیت ناک لوڈشیڈنگ سے نجات مل جائے گی؟
کیا جان بوجھ کر کم بجلی پیدا کرنے کے الزام میں ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی؟
کیا ’کے الیکٹرک‘ کے قصور کی وجہ سے شہریوں نے جن تکالیف کا سامنا کیا اور کررہے ہیں، اس کا مداوا کیا جائے گا؟
کیا ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف کی جانے والی کارروائی سے اس کے صارفین کو بھی کوئی فائدہ پہنچے گا؟
کراچی کے عوام یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ’کے الیکٹرک‘ کو ناکام ادارہ قرار دے کر اس کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو فوری منسوخ کرکے سابقہ کے ای ایس سی بحال کی جائے، کیونکہ کے ای ایس سی کی نج کاری کا مقصد فوت ہوچکا ہے۔ آج بجلی کے صارفین ’کے الیکٹرک‘ کی زیادتیوں سے جتنے پریشان ہیں اتنے کے ای ایس سی کے دور میں بھی نہیں تھے۔ اُس دور میں کم از کم اس قدر مہنگی بجلی نہیں ہوا کرتی تھی، اور نہ ہی اس طرح وقفے وقفے سے ایک تا تین گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جاتی تھی۔
1913ء میں قائم کی جانے والی کراچی الیکٹرک کمپنی کو 1952ء میں حکومتِ پاکستان نے خرید کر اسے ’’کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن‘‘ میں تبدیل کردیا۔
2005ء میں پرویزمشرف حکومت نے کے ای ایس سی کی نج کاری کا فیصلہ کیا۔ یہی وہ فیصلہ تھا جو ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگوں کے لیے آج تک دردِ سر بنا ہوا ہے۔ کے الیکٹرک پرائیویٹ ہونے کے بعد ابراج گروپ سے ہوتے ہوئے شنگھائی الیکٹرک گروپ تک پہنچ گئی، مگر کل سے زیادہ آج اس کی صورتِ حال خراب ہے۔ فرق یہ ہوا کہ تانبے کے تاروں کے بجائے پورا نظام سلور کے تاروں سے بدل دیا گیا۔ نئے کمپیوٹرائزڈ میٹر لگا دیے گئے۔ لیکن معاہدے کے تحت نہ نئے بجلی گھر لگائے گئے اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے کی استعداد بڑھائی گئی۔ ’کے الیکٹرک‘ کی ہٹ دھرمی کی وجہ اس کے شیئر ہولڈرز بتائے جاتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے مہنگے داموں بجلی فروخت کرنے اور بدلے میں کم بجلی پیدا کرنے پر متفق نظر آتے ہیں۔
’کے الیکٹرک‘ گھارو میں دس میگاواٹ کا سولر انرجی بجلی گھر قائم کررہی ہے تاکہ سستی بجلی پیدا کرکے مہنگے داموں فروخت کی جاسکے۔ یہی نہیں بلکہ کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ’کے الیکٹرک‘ نے گیس کی سپلائی کی کمی کا بہانہ بناکر پورے شہر میں بلا امتیاز لوڈشیڈنگ شروع کی تو اس کی وجہ گیس کی کمی سے زیادہ یہ ہے کہ فیول سے بجلی گھروں کو چلا کر کمپنی کو مالی نقصان سے دوچار کرنے کے بجائے بجلی دیے بغیر صارفین سے بل وصول کرنا ہے۔
کراچی دنیا کا آٹھواں بڑا شہر ہونے کے باوجود بجلی کی بنیادی ضروریات کے مسائل سے دوچار ہے، جس کی وجہ حکومت کی طرف سے سخت کارروائی کرنے کے بجائے ’کے الیکٹرک‘ کے ساتھ رعایت برتنا ہے۔
شدید گرم موسم کے دوران کراچی میں بجلی کی طلب 2700 میگاواٹ ہوتی ہے۔ ’کے الیکٹرک‘ کی اپنی پیداواری صلاحیت 2010 میگا واٹ ہے، جبکہ نیشنل گرڈ اور دیگر اداروں (مثلاً کینپ، ٹپال وغیرہ) سے ملا کر 1300 میگاواٹ بجلی الگ موجود ہے جو شہر کی مجموعی طلب سے 600 میگا واٹ زیادہ ہے، یعنی3310 میگاواٹ بجلی شہر میں موجود ہے جبکہ ضرورت صرف 2700 میگاواٹ کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اضافی600 میگاواٹ بجلی ہونے کے باوجود بدترین لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ وہی ہے یعنی کم سے کم خرچے میں ’’کام چلانا‘‘۔
بن قاسم پاور اسٹیشن نمبر1 پر 6 یونٹ موجود ہیں، جو گیس اور فرنس آئل دونوں پر چلتے ہیں اور جن کی پیداواری صلاحیت تقریباً 1104 یونٹ ہے، وہاں صورتِ حال یہ ہے کہ یونٹ نمبر 3 اور 4 بند کیے ہوئے ہیں کہ اس کو Coal پر چلائیں گے جو سستا پڑے گا۔ یہ کام انہوں نے ’’کے کول‘‘ کے نام سے ایک کمپنی کو دیا ہوا ہے اور یہ دونوں یونٹ 4 سال سے بند ہیں۔ یہ یونٹ نہ تو کول پر چل رہے ہیں اور نہ ہی گیس اور فرنس آئل پر۔ بقیہ چار یونٹ، جو گیس اور فرنس آئل دونوں پر چل سکتے ہیں، صرف گیس پر چلائے جارہے ہیں، کیونکہ گیس پر بجلی کی پیداوار فیول کے مقابلے میں سستی پڑتی ہے۔
’کے الیکٹرک‘ نیپرا اور حکام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یا پھر اُن کی ملی بھگت سے گیس سے بجلی بناکر صارفین سے فرنس آئل کے چارجز وصول کررہی ہے۔ اسی طرح اسٹیم ٹربائن سے 262 میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے لیکن پیدا نہیں کی جارہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ٹربائن بھی ہائی اسپیڈ ڈیزل آئل پر چلتے ہیں جو ’کے الیکٹرک‘ کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ اس ٹربائن سے 770 میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ ’کے الیکٹرک‘ کو نیپرا نے اس کا متبادل انتظام کرنے کو کہا مگر ’کے الیکٹرک‘ نے ایسا نہیں کیا۔ اس تمام صورتِ حال اور نیپرا کی رپورٹ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے، اور ایسا کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بدنیتی اور جعل سازی کی بھی مرتکب ہورہی ہے۔ کراچی کے عوام حکمرانوں سے اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ وہ ’کے الیکٹرک‘ کو معاہدے کی خلاف ورزیوں کے باوجود کیوں پال رہے ہیں؟ شہریوں کا کہنا ہے کہ اب ’کے الیکٹرک‘ ایک ادارہ نہیں بلکہ مافیا کا کردار ادا کررہی ہے۔

حصہ