سید اقبال چشتی
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے پاک چین دوستی کے حوالے سے بہت کچھ سنا اور پڑھا ہے۔ پاک چین دوستی بہت پرانی ہے لیکن یہ دوستی اب اقتصادی معاملات کے ذریعے مزید تقویت کا باعث ہونے جا رہی ہے۔
سی پیک چین کا اقتصادی منصوبہ ہے اور پاکستان اس منصوبے کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اس لیے پاکستان میں سی پیک منصوبے کی کامیابی اور تکمیل کے لیے مختلف منصوبوں پر جن میں سڑکیں اور پُل بنانے کا کام کیا جا رہا ہے ان منصوبوں کی نگرانی اور تکمیل کے لیے چین سے مزدور اور انجینئرز کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کے آغاز سے ہمارے اقتصادی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ سی پیک سے پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ اب تک چین اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے اپنے ہی مزدور اور انجینئرز لا رہا ہے یہاں تک کی اطلاعات ہیں کہ رنگ روغن کے لیے بھی چین ہی سے مزدور لائے جا رہے ہیں۔ جب معمولی نوعیت کے کام بھی چین کے لوگ کریں گے تو پھر ہمارے مزدور اور انجینئرز کیا کریں گے اگر یہی صورت حال رہی تو ترقی اور خوش حالی کے راستے کہاں سے کھلیں گے کیونکہ اب ہر چیز چاہے وہ معمولی نوعیت کی ہو یا خاص نوعیت کی‘ چین سے آرہی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر کپڑے اور بچوں کے کھلونے تک چین سے آرہے ہیں اور دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ اس منصوبے سے خوش حالی آئی گی۔
سی پیک کے ذریعے اب تک ترقی اور خوش حالی کے راستے پاکستان میں تو کھلتے نظر نہیں آرہے شاید آگے نظر آئیں‘ لیکن چین کے لوگوں کی بدمعاشی اور فراڈ ضرور نظر آرہا ہے۔ یقینا جب ایک ملک کے لوگ ہمارے ملک میں کسی بھی منصوبے کے لیے آئیں گے تو کچھ معاشرتی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ایک مسئلہ گزشتہ دنوں بہت زیادہ سوشل میڈیا پر اُٹھایا گیا جب چینی انجینئرز پولیس کی گاڑی پر چڑھ کر پاکستانی پولیس اور قانون کے سینے پر مونگ دَل رہے تھے ان انجینئرز کی طرف سے پاکستانی پولیس اور پا کستانی قا نون کے لیے یہ پیغام تھا کہ ہم تمہارے قانون کو نہیں مانتے۔ اس واقعہ کے بعد کئی منفی رجحانات کا عوام کی طرف سے اُبھرنا فطری عمل تھا جس میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی چائنا کی شکل میں آرہی ہے۔ بالآخر عوام کے شدید احتجاج اور میڈیا پر خبروں کے بعد پاکستان نے قانون ہاتھ میں لینے اور بدمعاشی کرنے والے انجینئرز کو ملک بدر کر دیا ہے۔ یہاں پولیس کا بھی امتحان تھا کہ جنھوں نے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ انجینئرز ہمارے مہمان تھے بلکہ ان کی حفاظت کرنا بھی ہمارے قا نون نافذ کرنے والوں ہی کا کام ہے کیونکہ اس منصوبے کی ناکا می کے لیے پاکستان دشمن ممالک بھی اپنا کام کر رہے ہیں اور اب تک کئی چائنا کے انجینئرز کو قتل کیا جا چکا ہے جہاں سی پیک پر کام کر نے والے چینی انجینئرز کی زندگیوں کو خطرہ ہے وہاں پاکستان میں کاروبار کی نیت سے آنے والے چینی شہریوں کی طرف سے پاکستانی شہریوں کی املاک کو بھی خطرہ ہے جس طرح کراچی میں ATM کے ذریعے چینی کمپیوٹر ماہرین نے مختلف طریقوں سے پاکستانی شہریوں کے اکائونٹ کو ہیک کرکے لاکھوں روپے کی رقم سے محروم کردیا تھا ATM کے ذریعے رقم نکالنے کے واقعات پر پولیس کی بروقت کارروائی سے فراڈ کرنے والے چینی شہری گرفتار ہوئے اور عدالت میں پیش کیے گئے شاید انہیں جرم پر سزا بھی ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ابھی سی پیک منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے اور پاکستان کو اس کے ثمرات کب ملنا شروع ہوں گے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن سی پیک کے ذریعے کرپشن اور فراڈ کے ساتھ بدمعاشی کے ثمرات ابھی سے ظاہر ہو؎نا شروع ہو چکے ہیں جس پر عوام میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے جس کا ایک اظہار سوشل میڈیا پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے تعبیر دینا ہے تو چین کی تہذیب کی اچھائی اور برائی دونوں کا تذکرہ ساتھ ساتھ کیا جا رہا ہے اور جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ کسی حد تک درست ہیں کیونکہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی برائے نام ہے اور کرپشن سب سے بڑا کاروبار ہے اس کے برعکس چین میں فراڈ اور کرپشن کے حوالے سے سخت سزائیں ہیں کیونکہ راتوں رات امیر بننے کے خواب پاکستان اور چین کیا ہر جگہ کے کریمنلز دیکھتے ہیں اچھے اور برے ہر قوم میں ہو تے ہیں لیکن کرپشن اور فراڈ کی روک تھام کے لیے سخت قانون ہی ضروری ہوتا ہے اس لیے شاید چین میں کرپشن کی سزا موت ہے لیکن پاکستان میں جہاں کرپشن ناسور بن چکا ہے مگر اب تک کوئی سخت قانون نہیں بنایا جا رہا کہ کرپشن پر قابو پایا جا سکے۔
چینی شہریوں کے جرائم کی ایک دو واقعات سامنے آئے ہیں اور نہ جانے کتنے جرائم کس قسم کے ہوں گے‘ جو اب تک سامنے نہیں آسکے ہیں‘ پاکستان میں ہیروئن کی اسمگلنگ پر کوئی سخت سزا نہیں ہے حالانکہ جو جرائم پیشہ عناصر ہیروئن کے ذریعے لوگوں کو جیتے جی موت دے دیتے ہیں اُن افراد کو بھی جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا ہونی چاہیے تاکہ پاکستانی معاشرہ اس لعنت سے پاک ہو سکے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ایوانوں میں بیٹھے لوگ ہی جرائم پیشہ عناصر کے سر پرست نکلتے ہیں۔ اگر حکومت پاکستان اور چین کی حکومت نے مل کر جرائم کو قابو کرنے ‘فراڈ اور کرپشن کے حوالے سے مشترکہ قانون سازی نہیں کی تو آئندہ ان جرائم کے بڑھنے کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کم نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بے ایمانی کے کام میں سب سے زیادہ ایمان داری سے کام کیا جاتا ہے اور یہ کام ملکی اور انٹرنیشنل سطح پر ایک معاہدے اور سسٹم کے تحت ہوتا ہے اس میں نہ مذہب دیکھا جاتا ہے اور نہ شہریت کہ کس ملک کا رہنے والا ہے۔ اس لیے جرائم کی دنیا کا نیٹ ورک بہت مضبوط اور منظم ہوتا ہے۔ پاکستان میں نیکی کرنا مشکل مگر جرم کرنا آسان ہے کیونکہ عدلیہ کے جج صاحبان خود کہتے ہیں کہ ہمارے تھانے بھتے کی وجہ سے چلتے ہیں اور جرائم کی سرپرستی بھی انتظامیہ کرتی ہے۔ بینک ڈکیتی اور بینک سے رقم لے کر نکلنے والے افراد کو لوٹنے میں بینک کی سیکورٹی پر مامور پولیس والا یا گارڈ زیادہ تر ملوث ہو تے ہیں اور اکثر اخبارات میں خبریں شائع ہوتی ہیں کہ بینک اور سنار کی دکان پر ہونے والی ڈکیتی ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار جرائم پیشہ گروہ کا سربراہ نکلا‘ جرم کا اقرار کرلیا اسی لیے سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ’’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے ’’جرائم کی دنیا کے‘‘ دیوانے دو‘‘ اسی طرح پاکستان کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہو ئے عوام کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کفیل کے بغیر زمین خریدنے پر پابندی لگائی جائے تاکہ کل ہمارا بھی حال فلسطین کی طرح نہ ہو۔ اگر اس حوالے سے سوچ بچار نہ کیا گیا تو کل ہم چین کے غلام نہ بن جائیں اس غلامی کی مثال اس طرح ہے کہ ابھی پاکستان نے سی پیک کے ثمرات سمیٹنے شروع نہیں کیے مگر ہمارے حکمرانوں نے پاک چین دوستی کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ابھی سے اعلان کر دیا ہے کہ آئندہ اسکولوں کی سطح پر چائنز زبان پڑھائی اور سکھائی جائے گی۔ اس تعلیم سے ہمیں کتنا فائدہ ہو گا‘ یہ تو ماہرین تعلیم ہی بتائیں گے‘ مگر جس ملک میں انگریزی، عربی، سندھی زبانیں پہلے ہی پڑھائی جا رہی ہوں‘ اس پر ایک اور زبان پڑھنے کا بوجھ بچوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ انگریزی تہذیب سے ہماری اب تک جان نہیں چھوٹی کہ اب چائنز تہذیب زبردستی ہمارے گلے میں ڈالی جارہی ہے۔
یہ تہذیبوں ہی کا تصادم ہے کہ اب تک بھارت پاکستان کی ترقی کے تمام راستے بند کرنا چاہتا ہے اسی لیے حکمرانوں کی طرف سے اکثر بیانات دیے جاتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کے خلاف بھارت منصوبہ بندی کرکے سازش کر رہا ہے اور اس کا ایجنٹ گلبھوشن بلوچستان میں اسی مقصد کے لیے کام کر رہا تھا۔ دہشت گردی اور جرائم کو قابو کرنے کے لیے ہی عوام حکومت پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ایسا مکینزم بنائے جس سے غیر ملکی پاکستان آئیں۔ مگر کاروبار اور تجارت کی نیت سے‘ جرائم کرنے کی نیت سے نہیں۔ اسی میں سی پیک کی کامیابی اور پاکستان کی ترقی اور خو ش حالی پوشیدہ ہے۔