نجیب ایوبی
قسط نمبر :133
گیارہواں حصہ
( قسط نمبر:133 )
اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم حفاظتی گشت مکمل کرنے کے بعد سرگودھا بیس پر اتر چکے تھے۔ وہ جہاز سے باہر نکلے اور تیزی کے ساتھ کمانڈ اینڈ کنٹرول روم کی جانب بڑھے، تاکہ دورانِ گشت ہونے والے مشاہدے کی رپورٹ کرسکیں۔ اسی دوران سرگودھا ائربیس ’’نعرۂ تکبیر…اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونجنے لگا۔ معلوم ہوا کہ کنٹرول ٹاور کو اطلاع مل چکی ہے کہ پاکستانی شاہینوں نے ہلواڑہ ائربیس کو تہس نہس کردیا ہے۔ اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم خوشی کے مارے سجدے میں گر چکے تھے۔ اسی اثنا میں ایم ایم عالم کو اپنے جہاز پر ریڈ الرٹ رہنے کا حکم ملا۔
ہندوستان کے فضائی مستقر ہلواڑہ کے عین سر پر سرفراز رفیقی اپنے دو جانبازوں کے ساتھ الٹے وی کی فارمیشن میں اپنا ایک چکر مکمل کرچکے تھے۔ فارمیشن کی ترتیب میں سب سے آگے اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کا جہاز تھا، جس سے قدرے فاصلے پر دائیں جانب دوسری فلائٹ پر لیفٹیننٹ سیسل چودھری اور بائیں جانب تیسری فلائٹ پر لیفٹیننٹ خواجہ یونس حسن مکمل طور پر تیار تھے۔ نیچے ہندوستانی مستقر پر خاصی گہما گہمی تھی، دو درجن سے زیادہ ہنٹر طیارے گرائونڈ میں اڑان بھرنے کو تیار دکھائی دیتے تھے، جبکہ کچھ طیارے اپنے ہینگرز میں کیمو فلاج پوزیشن پر تھے تاکہ دشمن کی نظروں میں نہ آسکیں، مگر رفیقی کی عقابی نگاہ کو مستقر پر موجود ایک ایک ہنٹر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اسکواڈرن لیڈر رفیقی نے سیسل چودھری اور خواجہ یونس حسن کو سگنل دیا کہ ’’میرے مزید آگے جانے کا انتظار کرو اور اپنے اپنے طیاروں کو مجھ سے دور ہی رکھو، مگر مجھے نگاہ میں رکھنا، میں آگے جا کر واپس آتا ہوں۔‘‘
سیسل اور یونس حسین پیغام کو سمجھ چکے تھے۔ دونوں نے اپنے جہازوں کی رفتار دھیمی کرلی اور سرفراز کے جہاز کو اپنی رینج سے باہر نکلنے دیا۔ مگر اُن کی نگاہیں سامنے اسکرین سے رفیقی کے جہاز پر ٹکی ہوئی تھیں۔ سرفراز رفیقی نے تیزی کے ساتھ اپنے طیارے کو مزید بلندی پر لے جانے کے بعد نیچے کی جانب عمودی حالت میں غوطہ لگایا۔ کچھ لمحوں کے لیے سرفراز رفیقی دونوں کی نگاہوں سے اوجھل رہے مگر جلد ہی انہیں اپنی مخالف سمت سے تیزی کے ساتھ نیچے کی جانب جاتے ہوئے دیکھ لیا گیا۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ سرفراز رفیقی بالکل سامنے سے انتہائی نیچی پرواز کے ساتھ ہلواڑہ بیس پر نمودار ہوئے۔ دونوں جانبازوں کے پاس سوچنے کا وقت نہیں تھا، انہیں اپنے قائد کو کور بھی دینا تھا اور کسی بھی لمحے ہونے والے دھماکوں اور ہندوستانی ریڈار کی زد میں آنے سے خود کو بچانا بھی تھا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ نچلی پرواز کا مطلب یہ ہے کہ سرفراز کا طیارہ ہندوستانی ریڈار کی زد میں آچکا ہوگا۔ اور یہی ہوا بھی۔ سرفراز رفیقی دشمن کے ریڈار پر آچکے تھے مگر اس سے پہلے کہ مستقر پر اڑان بھرنے کو تیار ہندوستانی ہنٹر کے پائلٹ اپنے طیاروں کو اڑانے کے لیے ذرا سی بھی جنبش دیتے، سرفراز رفیقی ان کے سامنے سے تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے آئے۔ سیبر F-8 کی چھ مشین گنوں سے سینکڑوں گولیاں سیکنڈوں میں ہندوستانی ہنٹر طیاروں کو چھلنی کرچکی تھیں، پلک جھپکتے میں دونوں ہنٹر طیارے آگ کے گولے میں تبدیل ہوکر تباہ ہوگئے۔
رفیقی برق رفتاری کے ساتھ اپنے طیارے کو بلندی پر لے گئے، جہاں سے ایک اور حملے کے لیے پلٹنے میں کچھ وقت درکار تھا۔ رفیقی نے الٹا غوطہ لگاتے ہوئے جہاز کا توازن بحال کیا اور اسی تیزی کے ساتھ جھپٹنے کے لیے واپس مڑے۔ اب رفیقی کے سامنے دس لڑاکا ہنٹر طیارے تھے، جو سرفراز رفیقی کو بلاک کرنے کے لیے رن وے پر موجود تھے۔ نچلی پرواز کرتے ہوئے یونس اور سیسل چودھری نے بھی اپنے قائد کی مدد کے لیے فوراً مستقر کی جانب جہازوں کو جھکاتے ہوئے گھن گرج کے ساتھ اپنے لڑاکا F-8 ہلوا ڑہ بیس پر لے آئے۔ سرفراز رفیقی نے دونوں کو پیغام دیا کہ ’’پیٹرول کی اضافی ٹنکیاں بیس پر موجود طیاروں پر گرا دو‘‘۔ سیسل چودھری نے ایسا ہی کیا، اور دونوں اضافی ٹینک دشمن کے ہنٹر طیاروں کے سر پر چھوڑ دیے۔ چشم زدن میں دونوں ہنٹر راکھ کا ڈھیر بن گئے اور پورا ائربیس روشنی سے چکاچوند ہوگیا۔ اب سیسل چودھری نے جہاز کی مشین گنوں کا آزادانہ استعمال شروع کیا اور دائیں بائیں موجود ہنٹر طیاروں میں چھید کرتے آگے نکل گئے۔ بدقسمتی سے یونس کے طیارے کی اضافی ٹنکیاں لیور جام ہوجانے کی وجہ سے وقت پر نہیں کھل سکیں جس کا نقصان یہ ہوا کہ یونس اپنے طیارے کو فوری طور پر دائیں بائیں آسانی کے ساتھ نہیں گھما سکتے تھے۔ سرفراز رفیقی نے دشمن کے دو ہنٹر طیاروں کو یونس کی جانب بڑھتے دیکھا تو عقاب کی سی تیزی کے ساتھ دشمن کے عقب میں جاکر اگلے طیارے کو نشانے پر لیتے ہوئے فائر کھول دیا۔ دشمن کا طیارہ فضا میں ہی ڈھیر ہوگیا۔ اب باقاعدہ طیاروں کی دو بدو لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ دشمن بوکھلایا ہوا تھا، اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ اپنے گرائونڈ پر موجود طیاروں کو آسمانی قہر سے کیسے بچایا جائے؟ اسی دوران یونس اور سیسل چودھری بھی اپنے سامنے آئے ہوئے دشمن پر جھپٹے۔ سیسل چودھری نے ایک ہنٹر طیارہ فضا میں مار گرایا، اتنے میں دوسرا طیارہ سیسل کی رینج سے بچ کر بھاگ نکلا۔ یونس نے بھی طیارے کی فنی خرابی کے باوجود ایک ہنٹر طیارے کو واصل جہنم کیا، مگر دشمن کے ایک طیارے نے یونس کے طیارے کے پیچھے آکر ان کے جہاز کی ٹنکیوں پر فائر کھول دیے جس کی وجہ سے یونس کا F-8 فضا میں بے قابو ہوکر ہچکولے لیتا نیچے آگرا، اور اس طرح فلائٹ لیفٹیننٹ یونس نے اس فضائی معرکے میں جامِ شہادت نوش کیا۔ اب فضا میں رفیقی اور سیسل موجود تھے۔ رفیقی کے سامنے ایک ہنٹر طیارہ تھا، جو مسلسل فائر کرتا آگے بڑھتا چلا آرہا تھا۔
اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کو عقب سے سیسل چودھری نے کور دیا ہوا تھا۔ سیسل حیران تھا کہ ہندوستانی ہنٹر اب تک رفیقی سے کیسے بچ رہا ہے؟ سیسل نے تشویش ناک اور جوش بھرے انداز سے پوچھا کہ ’’سر! فائر کریں… فائر کیوں نہیں کرتے؟‘‘ رفیقی نے کہا ’’گن جام ہوگئی ہے‘‘۔ رفیقی نے اس نازک موقع پر قیادت سیسل کے سپرد کرتے ہوئے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا، اور وہ فیصلہ تھا ’’Do and Die‘‘ (مارو اور مرجائو) اب سرفراز رفیقی اپنے قائد سیسل چودھری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عقب میں چلے گئے، اور جب سیسل دشمن کے ہنٹر طیارے پر حملہ آور ہوئے تو دشمن نے سرفراز رفیقی کے طیارے کو نشانہ بنا ڈالا۔ سرفراز رفیقی نے کوشش کی کہ شہادت سے پہلے ملنے والے چند لمحوں کو غنیمت جانتے ہوئے دشمن کو مزید نقصان پہنچایا جائے، مگر اُن کے جہاز کی مشین گنیں جام ہوچکی تھیں۔ نیچے گرتے ہوئے جہاز کو جو چاروں طرف سے جل رہا تھا، زمین پر چھوڑا اور کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔ اور اس طرح سرفراز رفیقی نے جام شہادت نوش کیا۔
سیسل چودھری بخیریت دشمن کے نرغے سے بچ کر سرگودھا بیس کی جانب بڑھے۔ وہ دشمن کی رینج سے تو باہر آچکے تھے مگر سامنے اسکرین پر موجود فیول انڈیکیٹر لال ہوکر خطرے سے آگاہ کررہا تھا۔ لال بتی کا مطلب تھا کہ جہاز کا ایندھن ختم ہوچکا ہے۔ سرگودھا ائربیس تک واپسی ناممکن تھی۔ جہاز کو محفوظ علاقے میں لے جاکر اس سے پیراشوٹ کے ذریعے نکلا تو جاسکتا تھا، مگر ایک ایک جہاز پاکستان کے لیے قیمتی تھا۔ حاضر دماغ سیسل نے انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ بچے کھچے ایندھن کی مدد سے جہاز کو انتہائی بلندی تک لے گئے۔ سیسل چودھری کے پاس اب دو ہی راستے تھے، ایک یہ کہ وہ ایجیکٹ کا بٹن دباکر پیراشوٹ کی مدد سے پاکستان کی سرزمین پر چھلانگ لگا دیں، اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ طیارے کو پیرا گلائیڈ کرواتے ہوئے کسی محفوظ میدان یا شاہراہ پر اتار دیں۔ فیصلہ فوری کرنا تھا۔ پیراشوٹ کی مدد سے اترنا سب سے آسان طریقہ تھا، مگر اس میں جہاز کے تباہ ہونے کا سو فیصد خدشہ تھا۔ جبکہ دوسرا طریقہ فضائی تاریخ کا انوکھا تجربہ ہوتا، مگر کسی حد تک امکان تھا کہ اس طرح پاکستان کا قیمتی جہاز تباہ ہونے سے بچ جائے۔ چنانچہ سیسل چودھری نے جہاز کو پیرا گلائیڈ یعنی فضا میں جھولا جھلاتے ہوئے اترنے کا مشکل ترین فیصلہ کرتے ہوئے پیٹرول کی خالی ٹنکی کو جہاز سے آزاد کرنے والا لیور کھینچ لیا۔ اب جہاز پیٹرول ٹینک کے اضافی بوجھ سے آزاد ہوچکا تھا، پھر اگلے ہی لمحے انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ سیسل چودھری نے طیارے کو (Acceleration) تیز رفتاری کی بنیاد پر سرگودھا ائربیس تک لے جانے کی کوشش کی۔
کنٹرول ٹاور سے رابطے کی بھی کوئی صورت نہیں تھی اور جہاز کو گلائیڈ کرواتے ہوئے ائربیس تک بھی لے جانا تھا۔ سیسل چودھری اُس وقت تک جہاز کو ہوا میں لہراتے رہے جب تک کہ انھوں نے رن وے کی پیلی روشنیاں ایک قطار کے ساتھ جلتی بجھتی نہیں دیکھ لیں۔ مگر یہ لمحات اس قدر مشکل تھے کہ اس کا تصور تک محال ہے ۔ بالآخر فضائی جنگ بازی کا عجیب و غریب کارنامہ کرتے ہوئے سیسل چودھری نے اپنے جہاز کو ہوا میں جھولا جھلاتے ہوئے سرگودھا کے فضائی مستقر پر کامیابی کے ساتھ اتار لیا، اور اس طرح ان تین پاکستانی شاہینوں نے ہندوستانی فضائی مستقر پر قیامت ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سیسل چودھری بتاتے ہیں کہ ’’جب میں نے تباہ حال ہندوستانی فضائی مستقر سے واپسی کا ارادہ کیا تو عالم یہ تھا کہ ہلواڑہ کا رن وے آگ اور کالے دھوئیں کے کثیف بادلوں میں گھرا ہوا تھا، جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے پڑ چکے تھے، رات کی وجہ سے چاروں جانب آگ ہی آگ دکھائی دے رہی تھی اور دشمن کے چار ہنٹر طیارے میرے عقب میں تھے، زمین سے مشین گنیں طیارے کو اپنا نشانہ بنانے کے لیے گولیاں اگل رہی تھیں، جن سے بچنے کے لیے میں پرندے کی مانند دائیں بائیں اوپر نیچے ہوتا ہوا دشمن سے دور ہوتا چلا گیا۔‘‘ اس کامیاب معرکے میں اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی شہید کو بے مثال جرأت و بہادری پر پاکستان کی جانب سے ستارۂ جرأت عطا کیا گیا، جبکہ سیسل چودھری نے 1971ء کی جنگ میں بھی اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ (مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے سچے پاکستانی سیسل چودھری سے پہلے کسی پاکستانی ہواباز نے جنگی جہاز کو گلائیڈ نہیں کیا تھا۔ اس جنگ میں سیسل چودھری کے دلیرانہ کارناموں کے اعتراف میں انہیں ’’ستارہ جرأت‘‘ دیا گیا۔ (جاری ہے)