اسامہ امیر
حسن ظہیر راجا راولپنڈی کے شہر کہوٹہ میں 10 مارچ 1989 کو پیدا ہوئے حسن ظہیر راجا نے ابتدائی تعلیم کہوٹہ سے حاصل کی پھرنمل یونیورسٹی اسلام آباد سے اردو میں ماسٹر کیا اور اب ایم فل کررہے ہیں، انڈس گروپ آف کالج کہوٹہ میں اردو کے لیکچرار کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں، حسن ظہیر راجا کا تعلق ان نوجوان نسل کی صف میں ہوتا ہے جو بہت کم عرصے میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں حسن غزل کے شاعر ہیں اور غزل کو الگ رنگ سے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور بہت ہی شاندار اشعار کہتے ہیں اب چلتے ہیں چند متفرق اشعار کی طرف اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
نام بھی لیتا نہیں اب وہ کہیں جانے کا
کل جو کہتا تھا کہ پنجاب میں رہنا ہی نہیں
٭
ہم ملاقات کے اوقات بڑھا دیں لیکن
دیر تک چاند کو تالاب میں رہنا ہی نہیں
٭
یہ قربت ہی شاید مِرا مسئلہ تھا
میں مل کر کسی سے ہرا ہو گیا تھا
٭
ہمیں بولنے کی ضرورت نہیں تھی
بدن کی تھکن کو بدن جانتا تھا
٭
یہاں تو سب ہیں تمھارے, یہ جان میں نے لیا
گزشتہ رات ہوا کا بیان میں نے لیا
٭
مری فضاؤں کوامن و امان چاہیے تھا
اِسی لیے تو پرندہ نشان میں نے لیا
٭
یہ ہوائیں بھی کتنی جھوٹی ہیں
ہم نے بس ہاتھ ہی ملایا تھا
٭
وہ تو حیرت میں ڈالنا تھا اْسے
کون دریا کو روک پایا تھا
٭
پھر اس کے بعد تمھیں کس نے پوچھنا ہے یہاں
ہمارے دل کی ضرورت کے آخری دن ہیں
٭
ہماری آنکھوں کی ہمت جواب دینے لگی
تمھارے خواب کی وحشت کے آخری دن ہیں
٭
ذرا سی دور مرے گاؤں سے ہے پکی سڑک
مجھے پتا ہے محبت کے آخری دن ہیں