اجالا ظفر
احمد اور اسد نہ صرف کلاس فیلوز تھے بلکہ بہت اچھے دوست بھی تھے لیکن دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ احمد بہت ذہین‘ نرم مزاج‘ خوش اخلاق بچہ تھا۔ ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتا اور ہر کسی کی مدد کے لیے تیار رہتا۔ اس کی انہی عادات کی وجہ سے ہر کوئی اسے پسند کرتا تھا۔ گھر میں‘ محلے میں اور اسکول میں اساتذہ سب اسے بہت محبت کرتے تھے جب کہ اس کے برعکس اسد کی یہ عادت تھی کہ وہ بات بات پرغصہ کرتا تھا‘ جھوٹ بولنا اور کلاس فیلوز کو تنگ کرنا اس کی عادت بن گئی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اسد کام مکمل کرنے کے لیے کلاس کے کسی بچے کی کاپی لیتا اور جلد واپس کرنے کا وعدہ کرتا لیکن ہوتا یہ کہ جب وہ بچہ کاپی واپس مانگتا تو اسد انکار کر دیتا یا جھوٹ بول دیتا کہ میں نے کام مکمل نہیں کیا ۔ اور وہ بچہ اس کی عادت کی وجہ سے خاموش ہوجاتا۔
احمد اکثر اسے سمجھاتا کہ جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں۔ جھوٹ سے اور بہت ساری برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اسد ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا بلکہ کبھی کبھی تو وہ یہ بھی کہتا کہ ’’یار احمد اس دنیا میں جینے کے لیے جھوٹا کا سہارا لینا پڑتا ہے ورنہ ہم زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘‘
احمد اپنے دوست کی سوچ پر افسردہ ہو جاتا اور سوچتا کہ وہ اپنے دوست کو کیسے ان برائیوں سے بچائے۔ وہ اپنے دوست کے لیے بہت دعا کرتا کہ وہ ان برائیوں سے نکل کر ایک اچھا بچہ بن جائے۔
ایک دن اسد کی امی نے اسے پیسے دے کر بازار سے سودا لانے کے لیے بھیجا۔بازار جاتے وقت اسد کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ یہ پیسے گیم کھیلنے میں خرچ کردے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے اس کے کان میں کہا کہ ’’اسد تم اپنی امی کو کیا جواب دو گے جب وہ تم سے سودا نہ لانے کی وجہ پوچھیں گی؟‘‘ ایک لمحے کو اسد نے سوچا کہ ہاں میں امی کو کیا کہوں گا۔ لیکن اس نے فوراً اپنی سوچ کو جھٹک دیا اور فیصلہ کیا کہ وہ امی سے جھوٹ بول دے گا کہ پیسے گم ہو گئے تھے اور ڈھونڈنے میں دیر ہوگئی۔ اس نے ساتھ ہی دیر سے گھر جانے کی وجہ بھی سوچ لی اور گیم کی دکان کی طرف چل پڑا۔ ابھی وہ زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ ایک سفید گاڑی اسد کے قریب رکی۔ اسد ابھی گاڑی کو دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک بڑی مونچھوں والا آدمی گاڑی سے نکل کر اس کے پاس آیا اور اس کے ناک پر رومال رکھ دیا۔ عجیب سی بو اسد کے دماغ میں گھسنے لگی اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ زیادہ دیر بے ہوش رہنے کی وجہ سے اسد کا دماغ سن ہو رہا تھا اور اسے فوراً کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
کچھ دیر بعد آنکھوں کی روشنی بحال ہوئی تو خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ کمرے میں ہلکے پیلے رنگ کا بلب لگا ہوا تھا مگر گردوغبار کی وجہ سے اس کی روشنی بہت کم تھی۔ کمرے کے چاروں طرف مکڑی کے جالے لٹکے ہوئے عجیب وحشت سا منظر پیش کر رہے تھے۔ اسد نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ کرسی سے بندھا ہوا ہے‘ وہ اور بھی خوف زدہ ہو گیا اور رونے لگا۔ اسے اپنی امی بہت یاد آرہی تھیں جو ہمیشہ اسے سمجھاتی تھیں اور احمد… وہ بھی تو ہمیشہ اس کو سمجھانے کی کوشش کرتا۔ اس کے کان میں احمد کی باتیں گونجنے لگیں۔ وہ کہتا تھا کہ جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں‘ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ دیگر برائیوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں تو سزا بھی دیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسے سزا دی۔ اس کا مطلب اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہیں؟ اسد نے روتے ہوئے سوچا۔
پھر اسے یاد آیا کہ ایک دفعہ اس کی اسلامیات کی ٹیچر نے بتایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہو تو ہمیں چاہیے ہم اپنی ساری غلطیوں کو یاد کریں اور اللہ سے معافی مانگیں اور اس سے وعدہ کریں کہ آئندہ ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے جس سے وہ ناراض ہو۔
اس نے باری باری اپنی ساری غلطیوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور ایک ایک کرکے ساری غلطیوں کی اللہ سے معافی مانگی اور سچے دل سے وعدہ کیا کہ اب وہ ایک اچھا بچہ بن کر دکھائے گا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ باہر سے فائرنگ اور بہت سے لوگوں کے دوڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اسپیکر پر مسلسل اعلان ہو رہا تھا کہ گھر کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا گیا ہے‘ خود کو پولیس کے حوالے کردو۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور احمد اندر داخل ہوا اور بھاگ کر اسد کو کرسی سے آزاد کروایا۔ احمد نے پولیس کے ساتھ مل کر ان کی مدد کی اور اپنے دوست تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
گھر واپس جاتے ہوئے اسد سوچ رہا تھا کہ اللہ نے واقعی اسے معاف کر دیا ہے۔ اس کی سچے دل سے مانگی گئی معافی قبول ہوگئی۔ ہاں اللہ تعالیٰ بہت اچھے ہیں۔ وہ بچوں کی دعائوں کو بہت جلدی قبول کرتے ہیں اور پھر امی نے کہا تھا کہ بچے اگر دل سے معافی مانگیں تو اللہ تعالیٰ ضرور سنتے ہیں اور اللہ نے میری دعا بھی سن لی۔ اسد بہت خوش ہو کر اپنے گھر کی طرف لوٹ گیا۔
مسکرائیے
جاوید بروہی
ایک خاتون نے انڈیکیٹر دیے بغیر کار ایک طرف موڑ دی اور پیچھے سے آتی ہوئی کار ان کی کار سے ٹکرا گئی۔ پیچھے والی کار کا ڈرائیور اتر کر آیا اور غصے سے بولا ’’اگر آپ کو اس طرف مڑنا تھا تو انڈیکیٹر کیوں نہیں دیا؟‘‘
خاتون خفگی سے بولیں ’’اس میں انڈیکیٹر دینے کی کیا بات ہے میں برسوں سے یہ موڑ مڑتی آرہی ہوں۔‘‘
…٭…
ایک صاحب اپنے دوستوں کو اپنے بچوں کے نام بتا رہے تھے۔ بڑے بیٹے کا نام نفیس کریم‘ چھوٹے کا رئیس کریم جب کہ میری اکلوتی بچی کا نام ہے…
دوست نے برجستہ کہا ’’آئس کریم۔‘‘
…٭…
ایک شخص ہوٹل میں کھانے کا آرڈر دے کر انتظار میں بیٹھ گیا۔ جب کافی دیر تک کھانا نہ آیا تو اس نے ویٹر کو بلاکر کہا ’’مجھے ایک قلم اور کاغذ لا دو۔‘‘
ویٹر نے حیرت سے پوچھا ’’آپ کو ان چیزوں کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
وہ شخص بولا ’’مجھے یقین ہے کہ میں اپنی زندگی میں یہ کھانا نہیں کھا سکوں گا چنانچہ میں اپنی وصیت لکھنا چاہتا ہوں کہ میرے مرنے ے بعد کم از کم یہ کھانا میری اولاد کو تو مل جائے۔‘‘