جنس حیا اور بے حیائی

2816

حبیب الرحمٰن
(تیسری قسط)
یہاں تک پہنچ جانے کے بعد میں ہر قاری سے ملتمس ہوں گا کہ وہ چند منٹوں کا توقف کرے اور اب تک کی جانے والی گفتگو کا احاطہ کرے۔ جہاں کی جانے والی باتوں میں اپنے بدن کی ساخت کو سمجھنے (جنس) اور اس کے فطری تقاضوں کے متعلق بات کی گئی ہے، وہیں اس میں حیا کے پہلوؤں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
’’حضرت ابوہریرہ ؓرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ساٹھ سے اوپر شاخیں ہیں اور حیا (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (بخاری، جلد اول کتاب ایمان، حدیث نمبر8)
جب یہ فرما دیا گیا ہے کہ ایمان کی بے شمار شاخیں ہیں اور ان میں سے ایک ’’حیا‘‘ بھی ہے تو پھر زندگی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہوسکتا جو حیا سے خالی ہو۔ مثلاً سچ بولنا حیا اور جھوٹ بولنا بے حیائی۔ پورا تولنا حیا اور ڈنڈی مارنا بے حیائی۔ مسکرانا اور ہنس دینا حیا، اور منہ پھاڑ کر ہنسنا اور قہقہے لگانا بے حیائی۔ ستر ڈھانپ کر رکھنا حیا، اور ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنا بے حیائی وغیرہ وغیرہ۔ اگر مختصر الفاظ میں اس گفتگو کو بیان کیا جائے تو ماحصل یہ ہوگا کہ اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا ہی’’حیا‘‘ ہے، ورنہ بے حیائی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا، اور بے حیائی ہلاکت کا باعث تو بن سکتی ہیں فلاح کا سبب کسی طور بھی نہیں بن سکتی۔
ہم عام طور پر اپنے دوست، احباب، رشتے داروں، ہم عمروں اور بیوی بچوں سے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں بات میں اتنا شرمانے کی کیا بات ہے! جبکہ وہ بات اللہ کی کسی نافرمانی کے زمرے میں آتی ہو۔ مثلاً وہ بات ستر سے متعلق ہو، عبادت سے اجتناب کی بات ہو، یا ایسے ہی کسی فعل کی جو ممنوع ہو اور ہمارا اصرار ہو کہ ایسا ہی کیا جائے… تو یہ بھی نہایت بے حیائی والی بات ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری مرد پر گزرے، وہ اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا: اتنی شرم کیوں کرتا ہے! آپؐ نے اس سے فرمایا: جانے دے کیونکہ شرم تو ایمان میں داخل ہے۔ (بخاری، جلد اول، کتاب ایمان نمبر:23)
ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں یہ تمیز دم توڑتی جا رہی ہے کہ’’مشرقی‘‘ اور ’’مغربی‘‘ تہذیب دو مختلف تہذیبیں اور سوچیں ہیں۔ ہم اسی انداز میں مخلوط ہوتے جارہے ہیں جیسے مغربی معاشرہ ہوچکا ہے۔ یہ اختلاط ہی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ بے شمار خرابیوں کا شکار ہوتا جا رہا ہے، جس میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتیاں، زنا، زنا کے بعد قتل، فحش تصاویر بنوانا، ویڈیوز بناکر فروخت کرنا جیسی وارداتیں شامل ہیں جن میں ہر آنے والے دن کے ساتھ ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے۔ الیکٹرونک اور آزاد سوشل میڈیا نے تو خواتین کو نہ صرف حد سے زیادہ بے باک کردیا ہے بلکہ اب تو ان کے لباس بھی یا تو اُتر گئے ہیں یا ایسے ہوگئے ہیں جس پر بے لباسی بھی شرما جائے۔ بے لباسی شیطان کا وہ حربہ ہے جس کے بعد کسی بھی معاشرے میں ایسی بڑی بڑی خرابیاں جڑ پکڑ جاتی ہیں کہ پورا معاشرہ سیاہ رو ہوکر رہ جاتا ہے ۔ یہی وہ شیطانی حربہ ہے جس نے آدمؑ و حواؑ کو جنت سے زمین پر اتر جانے پر مجبور کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’پھر جب انھوں نے اس درخت کا پھل چکھ لیا تو ان کی شرم گاہیں ان کے سامنے بے پردہ ہوگئیں اور وہ اپنے آپ کو باغ کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔‘‘ (الاعراف 22)
شیطان (ابلیس) خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ جس درخت کے پھل کو اللہ نے کھانے سے منع کیا ہے اس میں ایسی تاثیر ہے کہ اس کو کھاکر جنت کا وہ خاص لباس جو آدمؑ و حواؑ کو زیب تن کرایا ہوا ہے وہ اتار لیا جائے گا، اور اگر وہ اس کے بہکائے میں آگئے اور بے لباس ہو گئے تو پھر وہ جنت میں کسی بھی طور قیام نہ کرسکیں گے۔ پھر ہوا بھی یہی، اور آدمؑ و حواؑ کی خطا تو ضرور معاف ہوئی لیکن ان کو (ہم سب کو) ایک خاص مدت کے لیے زمین پر بھیج دیا گیا۔ لباس کے اترتے ہی دونوں نے جنت کے باغوں کے پتّوں سے اپنی اپنی شرم گاہوں کو ڈھانپنا شروع کردیا۔ اس آیت کی رو سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ شرم گاہوں کو چھپانے کا یہ اضطراری فعل نہایت فطری ہے اور انسانی حیا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ اپنی ستر بہت اچھی طرح چھپا کر رکھے۔
جس طرح میں نے ذکر کیا کہ ہر وہ کام جسے کرنے سے اللہ نے منع کیا ہو لیکن وہ کیا جائے تو اللہ کے نزدیک وہ حیا والا نہیں… اور جس نے بھی روکے جانے والے افعال سے اپنے آپ کو روکے رکھا وہ با حیا انسان ہے۔ باَلفاظِ دیگر ’’حیا‘‘کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر اُس کام سے رک جائیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں رک جانے کا حکم دیا ہے، اور ’’بے حیائی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر اُس کام کو کر گزریں جس سے اللہ روک رہا ہو۔ ذیل کی حدیث یہی مفہوم لیے ہوئے ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے: 1۔ ہمیشہ شراب پینے والا، 2۔ والدین کا نافرمان، 3۔ وہ بے غیرت جو اپنے گھر میں بے حیائی کو (دیکھنے کے باوجود اسے) برقرار رکھتا ہے۔ (احمد، نسائی)
حیا کیا ہے؟ حضرت ابی ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار چیزیں سب پیغمبروں کی سنت ہیں: شرم، عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔ (جامع ترمذی، جلد اول باب النکاح 1079)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا ایمان کا ایک ٹکڑا ہے، اور ایمان کا انجام جنت ہے۔ اور بے حیائی ظلم ہے، اور ظلم کا انجام دوزخ ہے۔ (جامع ترمذی، جلد اول باب البرو الصلہ)
حضرت ابی امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلام میں حیا اور تامّل ایمان کی دو شاخیں ہیں، اور بے ہودہ گوئی اور بہت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں۔ (جامع ترمذی، جلد اول باب البر والصل)
حیا کیونکہ جزوِ ایمان ہے اس لیے زندگی کے ہر ہر پہلو میں اس کا پایا جانا بھی ایسا ہی ہے جیسے ’’چولی دامن‘‘ کا ساتھ۔ اوپر بیان کی گئی احادیث کی روشنی میں اس بات کو بہت ہی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے کہ حیا کا تعلق صرف اور صرف جنسی معاملات سے نہیں، بلکہ زندگی کا ہر پہلو حیا کے بغیر ’’بے حیائی‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ پہلی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ عطر لگانا، مسواک کرنا، اور نکاح کرنا ’’حیا و شرم‘‘ کی باتیں ہیں اور پیغمبروں کی سنتیں ہیں۔ گویا اس کے برعکس ’’بے حیائی‘‘کے سوا اور کچھ نہیں۔ عطر لگانا اس لیے حیا ہے کہ آپ جب کسی دوسرے سے ملیں تو اُس سے آپ کو کوئی شرمندگی اس لیے نہ اٹھانی پڑے کہ وہ آپ کے بدن سے آنے والی پسینے یا جسم کی بدبو پر ناگوار تاثر دے۔ ٹھیک یہی بات مسواک نہ کرنے پر بھی منہ سے اٹھنے والی بدبو میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان بدبوؤں سے اگر نہ بچا گیا تو یہ آپ کی حیا کے خلاف ہوگا۔ رہی نکاح کرنے کی بات، تو اس کے سوا جو فعل بھی ہوگا وہ تو ہوگا ہی سراسر گناہِ عظیم اور خلافِ حیا و شرم۔
اسی طرح دوسری حدیث میں ’’ظلم‘‘ کو بے حیائی کہا گیا ہے، جس کی سزا کے متعلق بتادیا گیا ہے کہ ظلم کرنے والے کا مقام دوزخ ہے، جبکہ ہر وہ فرد جو دوسروں سے اچھا سلوک رکھتا ہے اُس کے لیے عیش و آرام کی زندگی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ حیا ایمان کا ایک جزو ہے اور اس کا انجام جنت ہے۔ یعنی جس شخص میں حیا ہوگی وہ کبھی کسی پر ظلم کرنا تو درکنار، ظلم کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔
تیسری حدیث میں ’’حیا اور تامّل‘‘ کو ایمان کی دو شاخیں کہا گیا ہے۔ تامّل دراصل صبر، برداشت، سوچ بچار اور غوروفکر کو کہتے ہیں۔ تامّل کو ایمان کی شاخ قرار دے کر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ جو لوگ صبر و ضبط سے کام لیتے ہیں، غور و فکر ان کا طریق ہوتا ہے اور غیر ضروری گفتگو سے اجتناب ان کا شیوہ، وہی لوگ حیا والے ہوتے ہیں۔ جبکہ وہ تمام افراد جو بے ہودہ اور فحش گو ہوتے ہیں اور بہت زیادہ بولنے والے ہوتے ہیں وہ نفاق سے پُر ہوتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اللہ نے دوکان اس لیے دیئے ہیں کہ زیادہ سنو، اور ایک منہ اس لیے دیا ہے کہ کم بولو۔ جو اس بات پر عمل کرنے والے اور کم گو ہیں دراصل وہی حیا والے ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو فضول اور زود گوئی سے اجتناب کرنا چاہیے اور کم گوئی، تامل اور صبر و تحمل کو اپنا شعار بنا لینا چاہیے۔
قرآن و حدیث میں اس بات کو بہت صاف صاف طریقے سے بیان کردیا گیا ہے کہ اسلام کہیں بھی عورت و مرد کے اختلاط کو پسند نہیں کرتا، لیکن زندگی میں ایسا وقت ضرور آتا ہے جب کسی عورت کو کسی مرد سے، اور کسی مرد کو کسی عورت سے بات کرنا ضروری ہوجائے۔ ایسے وقت کے لیے بھی قرآن اور حدیث میں حیا و شرم کے پہلو کو سامنے رکھ کر خواتین و حضرات کے لیے طریقہ کار متعین کردیا گیا ہے تاکہ دونوں کے بیچ کوئی خرابی پیدا نہ ہوسکے اور اُس وقت کی ضرورت بھی پوری ہوجائے۔ اگر کبھی کسی خاتون کو مرد سے بات کرنا پڑجائے تو اُس کا انداز کیا ہونا چاہیے، اس کو کچھ یوں سمجھیے: ’’موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے کنویں پر جن دو لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلایا تھا، ان میں سے ایک جب انھیں (موسیٰ ؑکو) اپنے باپ کے پاس لے جانے کے لیے بلانے آئی تو اُس وقت اُس کے آنے میں حیا کی جو صفت نمایاں تھی، قرآن نے درج ذیل الفاظ میں اس کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:
’’پس ان میں سے ایک شرماتی ہوئی آئی، کہا کہ میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ جو پانی آپ نے ہماری خاطر پلایا ہے، اس کا آپ کو صلہ دیں۔ (القصص82: 52)‘‘
حضرت موسیٰؑ نے ان کی بات سننے کے بعد کہا کہ ٹھیک ہے لیکن میں آگے چلوں گا اور تم مجھے میرے پیچھے سے راستہ بتانا۔ دیکھیے مردانہ شان۔ انھیں یہ گوارہ نہ ہوا کہ ان سے آگے کوئی خاتون ہو اور وہ شرم و حیا کی وجہ سے شرماتی اور لجاتی رہے۔ مردانہ شرم و حیا کا تقاضا تھا کہ کسی دوسرے کی حیا کا خیال کیا جائے، یہ بات ایک پیغمبر کیسے نہیں جانتا ہوگا! اس میں تمام مردوں کے لیے بھی ایک تعلیم پوشیدہ ہے کہ وہ دوسروں کی اور خود اپنی حیا کا خیال رکھا کریں۔ اس طرح معاشرے میں پاکیزگی کو عام کیا جاسکتا ہے۔ قرآن نے یہاں ایک کنواری عورت کی اُس فطری حیا کا ذکر کیا ہے جو اسے کسی غیر محرم مرد سے بات کرتے ہوئے محسوس ہوسکتی ہے، اور ایک مرد کے کردار کا بھی ذکر کیا ہے کہ اسے کس طرح اپنی حیا کا تقدس برقرار رکھنا چاہیے۔
حیا کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ یہ زندگی کے ہر ہر پہلو میں شامل ہے۔ حیا صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی انسان کسی سے اپنا حق طلب کرے، بلکہ اکثر اوقات اپنا حق جتانا یا طلب کرنا بھی غلط اور بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے۔ مثلاً کوئی آپ کا مقروض ہے اور وعدے کے مطابق وہ قرض کی ادائیگی میں ناکام رہا ہے۔ اس کے حالات کی تنگی بھی آپ کے سامنے ہو تو ایسے عالم میں اس سے تقاضا کرنا بھی کسی حد تک بے شرمی کی بات ہوگی۔ ایسے مواقع پر اس پر دباؤ ڈالنا کسی حد تک زیادتی خیال کرنا بھی حیا و شرم کی علامت ہے۔ اس بات کو قرآن مجید کی روشنی میں پرکھا جائے تو بات اور بھی واضح انداز میں سمجھ میں آسکتی ہے:
’’ہاں جب تمھیں (نبی کے گھر میں) کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو، یہ باتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ تم سے کہتے ہوئے شرماتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں نہیں شرماتا۔‘‘ (الاحزاب35:33)
یہ شرمانا دراصل دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال کرتے ہوئے اُس کا لحاظ کرنا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی ایک کریم النفس آدمی کئی جگہوں پر شرم محسوس کرتا ہے۔ خدا ظاہر ہے کہ انسان کا خالق، رب اور معبود ہے، چنانچہ وہ اس سے بہت بالا ہے کہ کسی انسان کی عزتِ نفس اسے اپنا یا کسی دوسرے کا کوئی حق بیان کرنے سے روک دے۔
دین کے نزدیک حیا ایک بڑی قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے’’حیا تو خیر ہی خیر ہے‘‘۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحابہ کرامؓ بتاتے ہیں کہ آپؐ بہت حیادار تھے۔
فرماتے ہیں:’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردے میں بیٹھنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔‘‘ (بخاری، رقم2653)
(جاری ہے)

حصہ