خاور جتوئی
گزشتہ دنوں افغانستان کے مدرسے پر امریکی بمباری سے 150 بچوں اور بڑوں کی لاشیں دیکھ کر دل افسردہ ہے۔ معصوم بچوں کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر کے ان پر خطرناک میزائل برسانا یقینا کھلی دہشت گردی کہلائے گا۔ سمجھ نہیں آرہا کہ افغان جنگ آخر کب ختم ہوگی۔
افغان جنگ کو سترہواں سال ہو چلا ہے، اگر اس جنگ کے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو کھربوں ڈالرز اور لاکھوں لاشوں کی صورت میں سامنے آئے گا۔ حالت یہ ہے کہ فریقین میں سے کوئی بھی مکمل فتح حاصل نہیں کرسکا بلکہ پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان بری طرح اس جنگ سے متاثر ہوا۔اس جنگ میں ہماری ناقص پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں اگر خودکش حملہ ہو، یا طالبان کی ہلاکت دونوں کی ذمہ داری ہم پر پڑتی ہے۔ ہم افغانستان کے غم میں مرے جارہے ہیں لیکن افغان حکومت پاکستان کو قبول کرنے کے لیے تیار دیکھائی نہیں دیتی۔
افغانستان کی بدامنی اور لاقانونیت کی وجہ سے اب داعش نامی عفریت اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ افغان طالبان نے 2014ء میں امن کا ایک قیمتی موقع ضائع کردیا۔ نتیجہ اب شدید لڑائی کی صورت اختیار کرگیا ہے اور امریکیوں کو افغانستان میں قیام کا جواز میسر آگیا کہ طالبان مذاکرات پر راضی نہیں ہیں۔ ایک فریق خودکش حملہ کرتا ہے دوسرا بمباری سے جواب دیتا ہے، نشانہ بنتے ہیں تو صرف معصوم عوام۔ افغان جنگ کا پر امن حال نکالا جاسکتا تھا مگر امریکا نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہوا۔ زمین پر طالبان کا راج ہے تو اوپر امریکی ڈرون اور بی 52 کا راج کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ صورتحال یقینا خطرناک بھی ہے اور ناقابل بیان بھی۔
اہم بات تو یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ یہ ایک ایسی گنجلگ ڈور ہے جس کا ایک سرا امریکا، دوسرا طالبان اور تیسرا مقامی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ اس تین طرفہ جنگ کا کوئی اختتامیہ نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ فریقین مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھیں اور معاملات کو درست سمت کی طرف بڑھائیں۔ سیاسی روڈ میپ سے طالبان امریکا اور نیٹو کی افغانستان سے انخلاء کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پڑوسی ملک ہونے کے ناتے پاکستان کی ذمے داری ہے تو وزارت خارجہ اس بات کا برملا اظہار کرچکی ہے کہ وہ امن کی راہ میں ہمیشہ افغان حکومت کا ساتھ دیں گے۔ وہ چاہئیں گے کہ افغانستان میں طالبان امن مذاکرات کریں۔ البتہ طالبان جس امارت اسلامیہ کی بحالی کا خواب دیکھ رہے ہیں اس کا دوبار قیام اب شاید ممکن نہ ہو سکے گا۔اگر طالبان نے اب تک کوئی کامیابی سمیٹی ہے تو اسکو سیاسی حل کے ذریعے کیش کروانا چاہیے اور بارگیننگ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے چاہئیں۔
امریکا بھارت کو افغانستان میں مستقل کردار دینا چاہتا ہے۔ چابہار بندرگاہ بننے کے بعد اب بھارت عملی طور پر افغانستان کا تجارتی پارٹنر بن چکا ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ بھارت افغانستان سے نکل جائے یہ مشکل ہوگا۔مگر افغانستان اپنی زمین بھارت کی تخریب کاریوں کے لیے دی تو یقینا پاکستان اس کے خلاف آواز اٹھائے گا۔
ادھر افغان عوام جنگوں سے اب یقینا تنگ آچکی ہے۔ لاشیں لاشیں ہر طرف خوف کا راج ہے۔ آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب اسے ختم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کو بھی عملی میدان میں آنے کی ضرورت ہے۔ افغان جنگ میں بھاری نقصان اٹھایا جا چکا ہے اور حاصل بھی کچھ نہیں ہوا۔انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی ہوئیں اور اب تک ہورہی ہیں۔ مہاجرت کو بھی ایکشن لینا ہوگا۔ یاد رکھیں خطے کے امن و امان کے لیے افغان جنگ اور مسئلہ کشمیر و فلسطین کی مکمل آزادی بہت ضروری ہیں۔