احمد عدنان طارق
پرانے وقتوں میں سمندر کے کنارے ایک گاؤں تھا جس میں ایک بوڑھی عورت اپنے پانچ جوان بیٹوں کے ساتھ رہا کرتی تھی اس کے پانچوں بیٹوں کی شکلیں ایک جیسی تھیں جیسے مٹر کے دانوں میں پہچان نہیں ہوسکتی اس طرح ان کو بھی کوئی پہچان نہیں کرسکتا تھاکون سا بھائی ہے قدرت نے انہیں مختلف خوبیوں سے نوازرکھا تھا سب سے بڑا بھائی اپنے منہ میں پورے دریا کا پانی بھر سکتا تھا دوسرے بھائی کی گردن فولاد جیسی تھی تیسرا بھائی اپنی ٹانگیں جتنی لمبی کرنی چاہے کرسکتا تھا چوتھا بھائی آگ کی بے پنا تپش برداشت کرسکتا تھا پانچویں بھائی میں صلاحیت تھی کہ وہ سانس لیے بغیر کئی گھنٹے تک زندہ رہ سکتا تھا۔
بڑا بھائی اکیلا دریا کے کنارے جاتا اور بے شمار مچھلیاں پکڑ کر گھر لاتا مچھلیاں فروخت کرکے دوسرا سامان لے آتا اس طرح سارے خاندان کا وہی پیٹ پالتا تھا یہ سارے بھائی اپنی یہ خوبیاں کسی کو نہیں بتاتے تھے تاکہ لوگ انہیں عجیب نہ سمجھے سارے گاؤں کے لوگ بڑے بھائی کی خوشامد کرتے کہ وہ ان کے بچوں کو بھی وہ طریقہ بتادے جس سے وہ اتنی زیادہ مچھلیاں پکڑلیتا ہے وہ ہمیشہ انہیں یہ راز بتانے سے انکار کردیتا ایک دن گاؤں والوں کو ضد کے آگے اسے ہتھیار ڈالنا پڑے اس نے گاؤں کے کئی لڑکوں کو ساتھ لیا اور دریا کی طرف چل دیا تاکہ وہ انہیں ڈھیر ساری مچھلیاں پکڑنے کا طریقہ سمجھائے جب وہ سب دریا کے کنارے پہنچے تو بڑے بھائی نے دریا کا پانی اپنے منہ میں بھر لیا صرف اتنا پانی رہ گیا کہ مچھلیاں تیر کر دور نہ جاسکیں پھر اس نے لڑکوں کو اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جتنی چاہیں مچھلیاں پکڑ لیں لڑکے بھاگ کے دریا میں اْتر گئے لڑکوں کو دریا کی تہہ میں بہت خوب صورت رنگوں والے گھونگھے بھی دکھائی دیے وہاں بہت سے خوب صورت سیپیاں اور قیمتی پتھر بھی پڑے ہوئے ملے وہ مچھلیوں کی بجائے انہیں اکٹھا کرنے لگے انہوں نے پتھروں سے اپنی جھولیاں بھرلیں جب کچھ دیر ہوگئی تو بڑ ابھائی پانی کومنہ میں بھرے ہوئے بہت تھک گیا اس نے وہ لڑکوں کو اشارے کرنے لگاکہ وہ جلدی دریا کے کنارے واپس آجائیں لیکن وہ تو دریا کے اس خزانے کو جمع کرنے میں اتنے مصروف تھے کہ انہوں نے بڑے بھائی کے اشاروں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور دریا کی سطح پر آگے ہی آگے بڑھتے رہے بڑا بھائی تنگ آکر زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا لیکن پھر بھی گاؤں کے لڑکوں نے جان بوجھ کر اس کی طرف نہ دیکھا آخر جب بڑے بھائی کو محسوس ہوا کہ وہ اب دریا کا پانی منہ میں نہیں سنبھال سکتا تو اس نے سارا پانی واپس دریا میں انڈیل دیاگاؤں کے سارے لڑکے اپنی لالچ کی وجہ سے دریا میں ڈوب گئے جب بڑا بھائی گھر پہنچا اوران لڑکوں کے ماں باپ نے اس سے پوچھا کہ ان کے بچوں نے کتنی مچھلیاں پکڑی ہیں اوروہ کب گھر آئیں گے بڑا بھائی بہت افسردہ تھا اس نے پڑوسیوں کو سارا واقعہ سنایا اور انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس افسوس ناک واقعے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے اس نے سب کو بتایا کہ کس طرح نے لڑکوں کی منت کی کہ وہ واپس آجائیں لیکن انہوں نے اس کا کہنا نہیں مانا اسے مجبوراً پانی دریا میں دوبارہ ڈالنا پڑا ویسے بھی وہ اتنا پانی کہیں اور نہیں پھینک سکتا تھا لیکن گاؤں والے بہت غصے میں تھے انہوں نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا۔
گاؤں والے نے اسے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے گاؤں کے مکھیا کے پاس لے گئے مکھیا کو ساری بات بتائی تو اس نے فیصلہ کرتے ہوئے بڑئے بھائی سے کہا تم اپنی ذمہ داری پر لڑکوں کو ساتھ لے کر گئے تھے تو یہ تمہاری ہی ذمے داری تھی کہ انہیں واپس بھی لاتے اس لیے سزا کے طور پر کل تمہاری گردن کاٹی جائے گے یہ سن کر بڑے بھائی نے مکھیا سے درخواست کی کہ مرنے سے پہلے وہ ایک دفعہ اپنی بوڑھی ماں سے ملنا چاہتا ہے تواس نے اجازت دے دی بڑا بھائی گھر آیا اور آکر سارا معاملہ بھائیوں کو سنایا اس کے چھوٹے بھائی جس کی گردن فولاد کی بنی ہوئی تھی اس نے کہا تم اپنی جگہ مجھے جانے دو کسی کو پتا نہیں چلے گا تم ہو یا تمہاری جگہ میں ہوں کیوں کہ ہماری شکلیں اتنی ملتی جلتی ہے اور کسی بھی صورت وہ میری گردن نہیں کاٹ سکیں گے اگلے دن چھوٹا بھائی مکھیا کی عدالت میں گیا اور کہنے لگا جناب بہت شکریہ آپ نے مجھے میری ماں سے ملنے کی اجازت دی بس اب مرنے کے لیے تیار ہوں پھر چھوٹا بھائی اس لکڑی کے ٹکڑئے کے پاس بیٹھ گیا اور اپنی گردن اس لکڑی کے ٹکڑئے پر رکھ لی تب جلاد نے اپنی تیز دھار تلوار سے اس کی گردن پر وار کیا لیکن تلوار اس کی گردن پر لگ کر اْچٹ ہوگئی گردن پر کوئی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر فوراً ایک اور تلوار منگوائی گئی جو زیادہ تیز تھی اور پھر ایک اور تلوار لیکن ہر دفعہ پھروہی ہوا جو پہلے ہوچکا تھا کوئی تیز دھار تلوار اس کی فولادی گردن کو نقصان نہ پہنچا سکی بلکہ اس کی دھار کندہوگئی آخر جھنجھلایا ہوا جلاد اسے واپس مکھیا کے پاس لے گیا اور کہنے لگا محترم اس کی گردن کاٹنا ناممکن ہے کیوں کہ اس کی گردن فولاد کی طرح مضبوط ہے۔
منصف نے نیا حکم سنایا کل اس شخص کو سمندر میں پھینک دیا جائے یہ فیصلہ چھوٹے بھائی نے سنا اس نے کہا جناب میں آج ماں کو الوداع کرآیا تھا لیکن کیوں کہ مجھے کل سمندر میں ڈبویا جائے گا تو مجھے دوبارہ ماں کو ملنے کی اجازت دی جائے۔
مکھیا نے پھر اسے اجازت دے دی بھائی گھر واپس آیا اورانہوں نے دوبارہ مشورہ کیا یہ سن کر وہ بھائی جو اپنی مرضی سے اپنی ٹانگیں لمبی کرسکتا تھا اس نے کہا صبح میں جاؤں گا لہٰذا اگلے دن تیسرا بھائی عدالت پہنچا کسی کو بھائیوں کی تبدیلی کا علم نہ ہوسکا مکھیا کے حکم پر کچھ لوگ اسے کشتی میں بٹھا کر سمندر کے بیچ لے گئے اور اسے سمندر میں پھینک دیا لیکن ڈوبنے کی بجائے تیسرے بھائی نے اپنی ٹانگیں اتنی لمبی کرلیں کہ وہ سمندر کی تہ کو چھونے لگیں اب اس کا سر پانی سے باہر تھا اس نکال کر پھر کشتی میں بٹھایا اور مزید گہرے سمندر میں لے جایا گیا لیکن اس کی ٹانگیں سمندر کی گہرائی جتنی لمبی ہوتی گئیں اس طرح وہ ڈوب نہیں پایا اسے ایک دفعہ پھر مکھیا کے سامنے پیش کیا گیا اس دفعہ مکھیا نے حکم دیا کہ اسے اْبلتے ہوئے تیل میں پھینک دیا جائے ایک بڑی دیگ میں تیل ڈال کر اسے گرم کیا جانے لگا تو اس نے ایک دفعہ پھر مکھیا سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی ماں کو مل کر بتا سکتا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہے مکھیا مان گیا جب اس کے بھائیوں نے مصنف کا یہ فیصلہ سنا تو چوتھے بھائی جسے آگ نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی اس نے کہا کہ سزا وہ جھیلے گا پھر جب تیل کڑکنے لگا تو چوتھے بھائی کو تیل میں پھینک دیا گیا وہ اس بڑی دیگ میں یوں تیرنے لگا جیسے کسی ٹھنڈے پانی کی جھیل میں وہ کہنے لگا آگ اور تیز کرو یہ تیل تو گرم ہی نہیں ہوا جب جلاد کو یقین ہوگیا کہ آگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ تی تو وہ اسے دوبارہ مکھیا کے پاس لے گئے مکھیا نے سارا معاملہ سن کر سارے گاؤں کی پنچائت بلالی کہ اب کیا کیا جائے؟تب سے نے فیصلہ کیا کہ اس مجرم کو مارنے کا ایک ہی طریقہ بچا ہے کہ اسے زمین میں زندہ گاڑ دیا جائے ،گاؤں سے باہر ایک جگہ بڑا گڑھا کھودا گیا ایک دفعہ قیدی کو پھر سے ماں سے ملنے کی اجازت دے دی گئی تو اس بھائی کی جگہ پانچویں بھائی نے لی جو سانس لئے بغیر زندہ رہ سکتا تھا پھر زمین میں پانچویں بھائی کو گاڑ دیا گیا مگر اسے کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ وہ سانس لئے بغیر زندہ رہ سکتا تھا جب رات کو سارے مطمن ہوکر اپنے گھر واپس چلے گئے کہ انصاف ہوچکا ہے تو چاروں بھائیوں نے اسے گڑھے سے نکال لیا پھر سب بھائی اپنی ماں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر گزارنے لگے۔