شائستہ
جامعۃالمحصنات سنجھورو
حضرت امام حسین ؓ وضو کرتے تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا کسی نے پوچھا ایسا کیوں ہوتا ہے آپ ؓ نے فرمایا ایک بڑے جبار بادشاہ کی پیشی میں کھڑے ہونے کا وقت آگیا ہے ۔پھر وضو کرکے مسجد میں تشریف لے جاتے اور مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر کہتے اے اللہ تیرا بندہ ڈیوڑھی پر حاضر ہے ۔اے بھلائی کرنے والے خدا تیرا بد اعمال کرنے والا بندہ تیرے حضور آیا ہے تو نے حکم دیا کہ ہم میں جو اچھا ہے بروں سے درگزر کرے ۔پس تو اچھا خدا ہے اور میں تیرا بد اعمال بندہ ہوں ۔اے کرم کرنے والے میری برائیوں سے صرف نظر کر ا ن خوبیوں کے طفیل جن کاتو مالک ہے ۔ اسی طرح جب ہم دیگر صحابہ کرام کی نمازوں کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سے تعلق اور اس رب کائنات سے ملنے کی تڑپ کا شوق دیدنی ہے ۔
نماز کے لئے قرآ ّن میں ذکر کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ذکر وہ چیز ہے کہ جس میں زبان بھی مشغول ہو جس میں ہاتھ اور پائوں بھی لگے ہوں جس میں دل کا دھیان بھی اٹکا رہے اور اس میں ہر وہ چیز شامل ہو جو اللہ تعالی کو مرغوب ہے ۔اس کو محبوب ہے ۔اس کو پسند ہے۔اور اس کو خوش کرنے والی ہے ۔ذکر تو وہ چیز ہے کہ جس میں جسم کے تمام اعضاء مشغول ہوں مگر میرے ہاتھ نماز میں مشغول کیوں نہیں؟؟ میرے پائوں نماز میں مشغول کیوں نہیں۔میرے دل کا دھیان کہاں اٹکا ہوا ہے ؟؟؟میرا دھیان اپنے بچوں میں اٹکا ہوتا ہے ،میرا دھیان کچن میںاٹکا ہوتا ہے۔میرا دھیان ان ڈراموں میں اٹکا ہوتا ہے جو مجھے بہت پسند ہیں جو سات یا آٹھ بجے آنے ہوتے ہیں یا موبائل اور فیس بک کے میسجز میں اٹکا ہے۔۔ ۔یہ ذکر ہی تو ہے جو ہماری غفلت کا علاج ہے ۔یہ ذکر ہم کو اللہ کے قریب کرنے والا ہے مگر افسوس میں اپنے رب سے دور کیوں ہوں ؟؟؟
یہ ذکر تو ہمارے لئے باعث نور ہے ، ہم کو اپنی بھلائی سے اپنے خیر سے آگاہ کرنے والا اور اس کو دل و دماغ کے اندر جاری و ساری کرنے والا ہے ۔یاد رکھئیے !! رحمت رب تو ہر چیز کے اندر ہر لمحہ شامل حال ہے۔۔۔۔
زرارہ بن اوفی بصرہ کے قاضی تھے اور بنی قیشر کی مسجد میں امام کی خدمت انجام دیتے تھے ایک دن صبح کی نماز میںیہ آیت پڑھی
ترجمہ
جس دن صور پھونکا جائے گا وہ دن بہت سخت ہوگا
(سورہ مدثر)
تو دہشت کی وجہ سے روح پرواز کر گئی اور وہ بے جان ہوکر گر پڑے۔جن لوگوں کو فوج یا پولیس میں ملازمت کرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان دونوں ملازمتوں میں ڈیوٹی کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کی مشق کس طرح کرائی جاتی ہے ۔رات د ن میں کئی کئی بار بگل بجایا جاتا ہے ۔سپاہیوں کو ایک جگہ حاضر ہونے کا حکم دیا جاتا ہے ۔اور ان سے قوائد کرائے جاتے ہیں یہ سب اس لئے ہے کہ ان کو حکم بجالانے کی عادت ہو اور ان میں سے جو لوگ ایسے سست اور نالائق ہوں کے بگل کی آواز سن کر بھی گھر بیٹھے رہیں یا قوائد میں حکم کے مطابق حرکت نہ کریں انہیں پہلے ہی ناکارہ سمجھ کر ملازمت سے الگ کردیا جاتا ہے۔
بس اسی طرح نماز کے لئے بھی دن میں پانچ مرتبہ بگل بجائی جاتی ہے تاکہ اللہ کے سپاہی اس کو سن کر ہر طرف سے دوڑے چلے آئیںاور ثابت کریں کہ وہ اللہ کے احکام کو ماننے کے لئے مستعد ہیں اور جو مسلمان اس بگل کو سن کر بھی بیٹھا رہتا ہے اور اپنی جگہ سے
نہیں ہلتا ۔۔۔۔وہ دراصل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ یا تو فرض کو پہچانتا ہی نہیںیا اگر پہچانتا ہے تو وہ اتنا نالائق اور ناکارہ ہے کہ خدا کی فوج میں رہنے کے قابل نہیں ۔