شریکِ مطالعہ

813

نعیم الرحمن
پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاویدکی سربراہی میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کتابوں کی اشاعت، فروغ، اور قارئین کو انتہائی کم قیمت پر فراہمیٔ کتب کا فریضہ بہت شان دار طریقے سے انجام دے رہی ہے۔نہ صرف فاؤنڈیشن کے کارڈ کے ذریعے 55 فیصد رعایت پر کتابیں فراہم کی جارہی ہیں، بلکہ مختلف موضوعات پر مصنفین اور شعراء کی کتب انتہائی کم قیمت پر شائع بھی کی جارہی ہیں۔ این بی ایف نے ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی منفرد موضوع پر معلوماتی کتاب ’’زلزلے، زخم اور زندگی‘‘ شائع کی ہے، جس میں پاکستان میں 1935ء سے 2015ء تک آنے والے بڑے زلزلوں اور عزم و ایثار کی ولولہ انگیز سچی داستانیں پیش کی گئی ہیں۔
مصنف نے کتاب کا انتساب پاکستان کے تمام زلزلہ زدگان، درد آشنا مخیر حضرات اور اُن کارکنوں کے نام کیا ہے جنہوں نے اپنا ’’آج‘‘ مجبور و لاچار بستیوں کے باسی زلزلہ زدگان کے’’کل‘‘کے لیے وقف کردیا، اور جن کے دل آج بھی اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی خدمت کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ کتاب کے انتساب ہی سے کتاب کے موضوع اور ڈاکٹرآصف محمود کی دردمندی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
معروف ادیب، شاعر اور کالم نگار عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں:
’’ہمارے درمیان کیسے کیسے عجیب لوگ موجود ہیں لیکن ہم اُن سے بے خبر رہتے ہیں۔ اِن دنوں اُن لوگوں کو عجیب سمجھا جاتا ہے جو دن رات نوٹ کمانے کے بجائے اپنے انسانیت سے لبریز دھڑکتے ہوئے دل کی پکار سنتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی ہیں جو طویل عرصے سے انسانیت کی خدمت میں مشغول ہیں۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور ایک منفعت بخش سرکاری عہدے پر فائز ہیں۔ لیکن ایسے عہدے اُن لوگوں کے لیے منفعت بخش ہوتے ہیں جنہیں آخرت کے منافع کی پروا نہ ہو، جبکہ ڈاکٹرآصف آخرت کے منافع ہی کو سب کچھ سمجھنے والوں میں سے ہیں۔ 2005ء سے 2015ء تک آنے والے ہر زلزلے کی تباہ کاریوں کا مداوا کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ زلزلہ زدہ علاقوں میں کئی بار گئے، جس کی روداد انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں تحریر کی ہے۔ میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو صرف ایک ڈاکٹر، ایک بیوروکریٹ اور ایک سوشل ورکرکے طور پر ہی جانتا تھا، لیکن یہ روداد پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اس کثیرالجہت شخصیت میں ایک ادیب بھی چھپا ہوا ہے۔ ایک ایسا ادیب جس کی نثر اُس کی اپنی شخصیت کی طرح سادہ اور پرُکشش ہے۔‘‘
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کتاب ’’زلزلے، زخم اور زندگی‘‘ میں زلزلوں کے دوران موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بچ جانے والوں کی داستانیں تحریر کی ہیں، اور زخم خوردہ لوگوں کے مصائب اور اُن کی حرماں نصیبی کا رونا بھی رویا ہے۔ 2005ء کے زلزلے میں بالاکوٹ کا شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گیا، جو اب تک بحالی کا منتظر ہے۔ مصنف کا کمال یہ ہے کہ جہاں انہوں نے زلزلہ زدہ افراد پر ٹوٹنے والی قیامت، اُن کی بلند حوصلگی اور مصیبت کے باوجود اللہ تعالیٰ پر ایمان اور بھروسے کو تحریر کا حصہ بنایا، وہیں انہوں نے زلزلہ زدہ وادیوں کی خوبصورتیوں کا ذکر بھی اس عمدہ طریقے سے کیا ہے کہ آدمی ان جنت نظیر فضاؤں میں گم ہوجاتا ہے۔ یہ کتاب غموں اور زخموں کی داستان کے ساتھ ساتھ ایک طرح سے سچے انسانی جذبوں کی بھی کہانی ہے جو خدمتِ انسانی کے ولولوں کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے۔
ڈاکٹرآصف محمود جاہ نے زلزلوں کے دوران خدمت اور ایثارکی لازوال داستانیں بیان کی ہیں۔ ان کے مطابق 2005ء میں ہم اکیلے ہی چلے تھے جانبِ منزل، لیکن بعدازاں مخیر حضرات کے ساتھ کاوش ویلفیئر ٹرسٹ، اخوت، نئی امید فاؤنڈیشن، کارکنانِ ختمِ نبوت اور ہزاروں دوستوں کا تعاون شاملِ حال ہوگیا۔ زلزلوں پر ان کی دوکتابیں ’’زلزلے، زخم اور زندگی‘‘ اور ’’زلزلہ، زیارت اور زندگی‘‘ شائع ہوچکی ہیں۔ کتاب’’زلزلے، زخم اورزندگی‘‘ میں 1935ء سے 2015ء تک آنے والے زلزلوںکے دوران خدمت اور ایثار کی داستانوں کو یکجا کردیا گیا ہے۔ کتاب 6 حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں دسمبر 2015ء کے زلزلے کا تذکرہ ہے۔ اور اس کے ساتھ اکتوبر2005ء کے فوری بعد چترال، باجوڑ ایجنسی، بالاکوٹ اورکالام میں جاکر ہاؤسنگ پراجیکٹ کے تحت گھر بنوانے کی تفاصیل کا ذکر ہے۔ اس حصے میں چترال کی خوبصورت ترین وادی بمبوریت کیلاش میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی خدمات کا تذکرہ بھی ہے۔ دوسرے حصے میں آواران، بلوچستان میںآنے والے زلزلے اور اس دوران دوردراز کے دشوار سفر اور مشکل حالات میں خدمت کی لازوال داستانیں ہیں۔ تیسرے حصے میں 2008ء میں زیارت کے زلزلے کا ذکر ہے۔ چوتھے حصے میں 8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے دوران کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی خدمات بیان کی گئی ہیں۔30 مئی 1935ء کے زلزلے کے بارے میں حاجی محمد اسمٰعیل مرحوم کی آپ بیتی شامل ہے۔ جبکہ چھٹے حصے میں زلزلے کی پیش گوئی، اس کے آنے کی وجوہ، ارضی وسماوی آفات اور زلزلوں کے دوران حفاظتی تدابیر کے بارے میں بنیادی معلومات دی گئی ہیں۔
یہ ایک بے مثال، ہمت افزا اور منفرد کتاب ہے جو موضوع کی سنگینی کے باوجود دل پذیر اسلوب میں تحریر کی گئی ہے۔ اور نہ صرف انسانی دکھوں بلکہ انسان کے حوصلوں اور عزم وہمت کو بیان کرتی ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد انسانیت پر اعتبار بڑھ جاتا ہے اور کچھ کرنے کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کو ایسی مفید اور منفرد 258 صفحات کی کتاب صرف 230 روپئے میں شائع کرنے پر بھرپور مبارکباد، اور ڈاکٹرآصف محمود جاہ کے لیے دل کی گہرائیوں سے ستائش پیش ہے۔
٭٭٭
اس دور میں جب مطالعے کا شوق روزبروزکم ہوتا جارہا ہے، ادبی جریدے کا اجراء اور اسے جاری رکھنا کسی جہاد سے کم نہیں۔ ان حالات میں محترمہ حجاب عباسی نے ایک بہت عمدہ ادبی جریدے ’’ادبِ عالیہ‘‘ کا اجراء کیا ہے۔ حجاب عباسی کا ادبی خاندان سے تعلق ہے، جس میں سیما غزل اور شمعون عباسی سمیت کئی مصنف، ادیب و شاعر شامل ہیں۔ ادبِ عالیہ کا تیسرا شمارہ حال ہی میں شائع ہوا ہے، جس سے پرچے کی اشاعت میں باقاعدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مشہور شاعر سلمان صدیقی کی مشاورت نے پرچے میں مزید چار چاند لگادیئے ہیں۔ شمارے کا آغاز خورشید بیگ میلسوی کی دل پذیر حمدِ باری تعالیٰ اور عتیق احمد جیلانی کی نعتِ رسولِ مقبولؐ سے ہوا ہے، جس کے بعد مدیرہ محترمہ حجاب عباسی کی نعتیہ نظم نے سماں باندھ دیا ہے۔
مضامین میں اکرام بریلوی کا صبا اکبرآبادی کی مرثیہ نگاری پر مضمون ہے۔ تحریر کا اختتام محترم پروفیسر کرارحسین کے اس قولِ فیصل پرکیا گیا ہے’’صبا اکبر آبادی مرثیے کی کلاسیکی روایت کے آخری بڑے شاعر ہیں اور جدید مرثیہ کے معماروں میں ان کا شمار صفِ اول کے شاعروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کلاسیکی حسن اور جدید احساسات کے ساتھ جس طرح مرثیہ کی صنف کو برتا ہے، اس کی بنا پر اُن کا مرثیہ جدید اورکلاسیکی مرثیے کے درمیان تسلسل کا کام کرتا ہے۔‘‘
عالیان عبداللہ نے سید محمد ارتضیٰ عرف ملاواحدی کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’میرے زمانے کی دِلّی‘‘ کا اچھا انتخاب کیا ہے۔ سید محمد اشرف نے عرفان صدیقی کی شخصیت اور شعری مزاج پر بہت اچھا مضمون لکھا ہے۔ اس طویل مضمون سے عرفان صدیقی کی شخصیت کے کئی نئے گوشے سامنے آئے اور اُن کی شاعری کے پس منظر سے بھی آگاہی ہوئی۔ غلام شبیررانا نے روسی ادیب میخائل باختن سے ’’ادبِ عالیہ‘‘ کے قارئین کو متعارف کرایا ہے۔ طاہر منصور قاضی نے مختصر اور پُراثر انداز میں ’’شاہ جو رسالو‘‘ کی بازخوانی کی ہے۔ افسانہ نگار نیلم احمد بشیر نے اردوکی مایہ ناز ادیبہ عصمت چغتائی کی تحریروں کا ایک نئے انداز سے تجزیہ کیا ہے۔غزلیات حصہ اول میں ظفراقبال اور پیرزادہ قاسم جیسے اساتذہ کے دوش بدوش عرفان ستار، خالد معین، ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، سیما غزل اور حجاب عباسی شامل ہیں۔
گلزار کی تروینیوں اور ستیہ پال آنند کی نظم کے بارے میں کچھ کہنا چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی۔ حصہ نظم میں پیرزادہ قاسم، عشرت آفرین، تسنیم عابدی، سلمان صدیقی اور فیصل عظیم کی نظمیں بہت عمدہ ہیں۔ دیگر نظموں کا انتخاب بھی مدیرہ کے صاحبِ ذوق ہونے کا پتا دیتا ہے۔
تجدید گراں مایہ کے عنوان سے ابراہیم جلیس کی یادگار تحریر ’’آدم خور‘‘ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا سلسلہ ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا رپورتاژ ’’اویس میر کی حویلی‘‘ مصنف کے اپنے رنگ کی بہت شاندار تحریر ہے۔
افسانوں کے حصے میں 14 افسانے شامل ہیں، جن میں مشرف عالم ذوقی کا ’’بھورے بالوں والی لڑکی‘‘، سمیع آہوجہ کا اپنے منفرد اسلوب کا افسانہ ’’گلاب گلی کھولوگم گشتہ گھوڑی‘‘، رشید امجد کا ’’تالوں میں بند شخص‘‘، خالد فتح محمد کا ’’ایک دکھ‘‘، نجم الدین احمد کا ’’ چھل‘‘ اپنیموضوعات، اسلوب اور برتاؤ میں بہت اچھے افسانے ہیں۔ آخر میں بشریٰ رحمن کا طویل افسانہ ’’نتھ کی قیمت‘‘ کا جواب نہیں۔ غزلوں کے دوسرے حصے میں مرتضیٰ برلاس، جان کاشمیری، تاجدار عادل اور تسنیم عابدی کی غزلیں بہت اچھی ہیں۔

ضروری وضاحت

۔25مارچ کے سنڈے میگزین میں ’’ایک چراغ اور گل ہو گیا‘‘کے عنوان سے مرحوم رکن جماعت اسلامی جناب حافظ ادریس کے حوالے سے مضمون میں یہ بات لکھی ہے کہ 2006میں وراثت کی تقسیم کے بعد نارتھ کراچی شفٹ ہو گئے۔ حافظ ادریس صاحب کے بیٹوں نے وضاحت کی ہے کہ وراثت تو تقسیم ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کا تو مقدمہ چل رہاہے اور یہ کہ اسی کے بعد سے والد صاحب نارتھ کراچی شفٹ ہونے کے دو ماہ بعد سے بیمار ہوگئے اور اس بیماری کی شدت بڑھتی گئی پچھلے کئی برسوں سے تو وہ صاحب فراش تھے اور اسی غم میں وہ دنیا سے چلے گئے ۔دوسری وضاحت انھوں نے یہ کی ہے کہ ہمارے دادا مولانا محمد حسین صاحب کے چار بیٹے نہیں بلکہ سات بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ۔ ایک سہو مجھ سے ہو گیا جس کو ضبط تحریر میں لانا ضروری تھا کہ جس طرح حافظ ادریس صاحب نے اپنے والد کو جماعت میں لانے کی کوششیں کیں اسی طرح انھوں نے اپنے بیٹوں کی تربیت بھی اسلامی نہج پر کی اور ان کے بیٹوں نے لیاقت آباد میں ہر اہم موقع پر بالخصوص انتخابات میں جماعت اسلامی کے ساتھ بھرپور کام کیا اور آئندہ بھی وہ اس ملک میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے ساتھ تن من دھن سے کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ (جاوید احمد خان)

غزلیں

سیما نقوی

کتابِ ہجر میں اِک خوابِ نا رسا کی طرح
مجھے بھی لکھے کوئی جون فارہہ کی طرح
وہ مجھ سے ملتا تھا ہر بار اپنی شرطوں پر
کبھی خطا کی طرح اور کبھی سزا کی طرح
مجھے ستاتی رہیں تتلیاں شرارت سے
گلوں کی بات وہ کرتا رہا صبا کی طرح
وہ شخص روز نئی کینچلی بدلتا ہے
جو آستیں میں رہتا ہے ہم نوا کی طرح
یہ بات طے تھی کہ ملنا ہے اجنبی بن کر
سو اُوڑھ لی گئی بیگانگی ردا کی طرح
ہمارے بیچ اگر کچھ نہیں تو پھر کیا ہے
نبھاتے رہتے ہیں دونوں جسے وفا کی طرح
مجھے ہی جلدی تھی کچھ کام اور نپٹا لوں
وہ آ کے بیٹھا تھا اچھا بھلا سدا کی طرح
کسی کے ہاتھوں کی گرمی سے جب ملی ٹھنڈک
تو یاد آ گئی سیماؔ مجھے ’’رسا کی طرح‘‘

افشاں سحر

پھر آج خود سے وہ ڈر گئی ہے
سنو محبت تو مر گئی ہے
جو ہجر کی دھوپ صحن میں تھی
وہ رفتہ رفتہ اتر گئی ہے
مرض سے ہارے طبیب سارے
کہ بات حد سے گزر گئی ہے
گواہی اپنی جو میں نے مانگی
تو ساری دنیا مکر گئی ہے
قبائے ظلمت جو چاک کر دے
کہو کہاں وہ سحر گئی ہے

تبسم فاطمہ جعفری

یہ سب ہی جانتے ہیں جہاں میں بقا نہیں
غافل ہیں پھر بھی ایسے کہ خوفِ خدا نہیں
یوں تو ہجوم لوگوں کا دنیا میں الاماں
سارے جہاں میں پھر بھی تو انساں ملا نہیں
نیزے پہ ورد کر کے بتایا حسینؓ نے
تاریخ کربلا کی کوئی سانحہ نہیں
توڑا ہے مان اُس نے بڑی بے رخی سے اور
اُس کے لیے یہ کوئی بڑا حادثہ نہیں
تارے مچل کے گر پڑے دیکھا جو میرا چاند
پھر تو فلک پہ ایک بھی تارا بچا نہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ جیتے ہیں ہم ابھی
ہم ہیں کہ زندگی سے کوئی رابطہ نہیں
جائوں کی اُس کو لے کے اُفق سے پَرے کہیں
لوگوں کی بھیڑ میں وہ مری مانتا نہیں

حصہ