پی ایس ایل کے بعد ای سی ایل

286

زاہد عباس
بچپن سے ہی مجھے کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا، گو کہ میں بڑا کھلاڑی نہ بن سکا لیکن کرکٹ سے لگاؤ اپنی جگہ قائم رہا۔ علاقائی سطح پر ہونے والے ٹورنامنٹ ہوں یا انٹرنیشنل میچز، میری ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ ہر میچ دیکھوں۔ ایک زمانہ تھا جب ٹیسٹ کرکٹ ہی ہوا کرتی تھی، اس کے علاوہ کاؤنٹی کرکٹ ہوتی، دنیا بھر کے کھلاڑی انگلینڈ جاکر مختلف کائونٹیوں سے معاہدے کرکے ڈھیروں روپیہ کماتے۔ رفتہ رفتہ اس کھیل میں تبدیلی آتی گئی، ون ڈے میچز کا رجحان بڑھے لگا، ایک دن میں ہی کھیل کا نتیجہ آجانے کی وجہ سے اس فارمیٹ کو پذیرائی ملی۔ وقت بدلا، کرکٹ میں ’’ٹی 20‘‘ فارمیٹ متعارف کروایا گیا۔ یوں ایشیائی ممالک میں کاؤنٹی کی طرز پر لیگ کرکٹ نے اپنے قدم جمائے۔ پہلے پہل اس فارمیٹ کے تحت آئی پی ایل کا آغاز ہوا، بعدازاں پاکستان سمیت کرکٹ کھیلنے والے تمام ایشیائی ممالک میں مختلف ناموں سے لیگز کا آغاز کردیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے کروائی جانے والی لیگ پی ایس ایل کا شمار دنیا کی کامیاب لیگز میں ہونے لگا۔ پی ایس ایل کیا ہے، اس میں حصہ لینے والی ٹیمیں کس بنیاد پر کھیلنے کی اہل ہوتی ہیں، یا کتنی ٹیموں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یاددہانی کے لیے صرف اتنا ہی تحریر کرنا کافی ہے کہ پی ایس ایل میں مختلف شہروں کے نام سے چھے ٹیموں کو بذریعہ فرنچائز رجسٹریشن دی جاتی ہے۔ ٹورنامنٹ شروع ہونے پر ایک شہر دوسرے سے مقابلہ کرتا ہے۔ بہترین کارکردگی دکھانے والے دو شہروں کی ٹیموں کے درمیان فائنل میچ کروا دیا جاتا ہے۔ اس طرح جیتنے والی ایک ٹیم فاتح قرار پاتی ہے۔ اور یوں کئی روز جاری رہنے والی پی ایس ایل اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ اتنے بڑے ٹورنامنٹ پی ایس ایل کے انعقاد کا مقصد نوجوان ٹیلنٹ کو سامنے لانا ہے۔ ظاہر ہے جو نوجوان بھی آگے آئے گا وہ کارکردگی کی بنیاد پر ہی آئے گا۔ ایک طرف اگر حکومت نوجوانوں میں کھیلوں کی صلاحیت بڑھانے کے لیے شہروں کے درمیان پی ایس ایل جیسے کامیاب مقابلے کروا رہی ہے تو دوسری طرف سندھ حکومت نے پی ایس ایل فارمیٹ کی طرز پر ’’ای سی ایل‘‘ نامی لیگ بڑے زور وشور سے شروع کررکھی ہے۔ جس طرح پی ایس ایل میں چھے شہروں کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اسی طرح ای سی ایل میں بھی سندھ کے مختلف شہروں لاڑکانہ، سکھر، میرپور خاص، حیدرآباد اور کراچی تعلیمی بورڈز کی ٹیموں نے حصہ لیا، فرق صرف اتنا ہے کہ پی ایس ایل کرکٹ لیگ ہے جبکہ ای سی ایل امتحانی لیگ… یوں گیند اور بَلّے کے درمیان ہونے والا مقابلہ سندھ حکومت کی آشیرباد سے کاپیوں کے پھٹے اوراق اور جدید سائنسی ٹیکنالوجی واٹس ایپ تک آن پہنچا۔ ای سی ایل کے تحت ہونے والے سندھ بورڈز کے درمیان نقل مقابلوں میں کیا کچھ ہوا اس کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال تحریر کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
اندرونِ سندھ میٹرک کے امتحانات میں نقل مافیا کا راج برقرار رہا، سندھ حکومت کے نقل کی روک تھام کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، سکھر اور گھوٹکی میں نویں جماعت کا پرچہ امتحانی وقت سے پہلے ہی واٹس ایپ پر دستیاب ہوگیا۔ سندھ حکومت کی جانب سے رواں سال بوٹی مافیا کو لگام دینے اور نقل کی روک تھام کے دعوے محض دعوے ہی نکلے۔ سکھر میں نویں جماعت کا کیمسٹری کا پرچہ امتحانی وقت سے پہلے ہی واٹس ایپ کے ذریعے آئوٹ ہوگیا، جبکہ حل شدہ پرچے بھی امتحانی مراکز کے باہر امیدواروں کو بآسانی دستیاب رہے۔ اس کے علاوہ امتحانی مراکز میں امیدوار کھلے عام نقل کرنے میں مصروف رہے۔ دوسری جانب گھوٹکی میں بھی ہونے والے پرچے وقت سے پہلے ہی امیدواروں کو واٹس ایپ کے ذریعے دستیاب ہوتے رہے، اور امیدوار کھلے عام نقل کرنے میں مصروف رہے، کوئی انہیں روک نہ سکا۔ عمرکوٹ میں بھی نقل مافیا کی زیر نگرانی میٹرک کے امتحانات میں دسویں جماعت کا فزکس کا پرچہ طلبہ کو واٹس ایپ پر دستیاب ہوگیا تھا۔ انتظامیہ کی جانب سے ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود فوٹو کاپی کی دکانوں پر امیدواروں کا رش رہا اور طلبہ نقل کرنے میں مصروف رہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں میٹرک کے پہلے ہی پرچے میں انتظامیہ کے نقل روکنے کے تمام دعوے بے نقاب ہوگئے۔ لاڑکانہ بورڈ کی جانب سے 5 اضلاع میں 135 امتحانی مراکز قائم کیے گئے، جہاں مجموعی طور پر81 ہزار957 طلبہ و طالبات نے امتحانات میں حصہ لیا۔ نقل کی روک تھام کے لیے 38 چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں، لیکن یہ ٹیمیں اور نگران عملہ نقل مافیا کو روکنے میں بری طرح ناکام رہا۔ لاڑکانہ میں نویں جماعت کا سندھی کا پرچہ بھی آؤٹ ہوگیا، شہر میں قائم فوٹواسٹیٹ کی دکانوں پر سندھی کا حل شدہ پرچہ 100 روپے میں دستیاب تھا۔
سکھر بورڈ کی جانب سے 211 امتحانی مراکز قائم کیے گئے تھے۔ یہاں انگلش ون کا پرچہ 20 منٹ تاخیر سے شروع ہوا، جب کہ چیکنگ کے باوجود طلبہ گائیڈیں اور حل شدہ پرچے امتحانی مراکز کے اندر لے جانے میں کامیاب رہے۔ شکارپور میں بھی نویں جماعت کا سندھی کا پرچہ واٹس ایپ کے ذریعے آؤٹ ہوگیا، جب کہ ڈہرکی کے ضلع گھوٹکی کے چند مراکز میں انگلش ون کا پرچہ واٹس ایپ کے ذریعے آؤٹ ہوا۔
ای سی ایل کے تحت ہونے والے نقل میچ کی یہ رپورٹ بھی ملاحظہ فرمائیں:
سندھ میں میٹرک کے امتحانات میں نقل زوروں پر پہنچ گئی، انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے 15 طلبہ کو گرفتار کرلیا۔ حیدرآباد، بدین، مٹیاری، ٹنڈوالہیار اور قاضی احمد میں نویں جماعت کے انگریزی کے پرچے کے دوران 15 طالب علم نقل کرتے
ہوئے پکڑے گئے۔ سکھر بورڈ کے زیراہتمام 4 اضلاع میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات کے لیے 214 امتحانی مراکز قائم کیے گئے، نقل کی روک تھام کے لیے 27 چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دی گئیں، اور امتحانی مراکز کے باہر دفعہ 144 نافذ رہی، تاہم تمام اقدامات بظاہر ناکام ثابت ہوئے۔ متعدد امتحانی مراکز میں نویں جماعت کے انگلش ون کے پرچے میں نقل زوروں پر رہی۔ طلبہ گائیڈز اور حل شدہ پرچوں کی مدد سے جوابات لکھتے رہے لیکن چھاپہ مار ٹیمیں غائب رہیں۔ کمرۂ امتحانات میں ڈیوٹی پر تعینات اساتذہ بھی نقل کروانے میں ملوث رہے اور امتحانی مراکز کے باہر بھی غیر متعلقہ افراد کا رش رہا۔ میرپور ماتھیلو کے امتحانی مرکز ہائی اسکول میں واٹس ایپ کے ذریعے انگلش ون کا پرچہ وقت سے پہلے ہی آئوٹ ہوگیا۔ دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود امتحانی مرکز کے باہر غیر متعلقہ افراد موجود رہے۔ ادھر بدین میں بھی انگریزی ون کا پرچہ آئوٹ ہوگیا، تاہم ناظم امتحانات مسرور زئی نے آئوٹ ہونے والا پرچہ جعلی قرار دے دیا۔
آئیے اب کراچی میں ہونے والے ای سی ایل کے فائنل میچ پر نگاہ ڈالتے ہیں:
میٹرک کے امتحانات میں نقل مافیا نے انسدادِ نقل کی تمام کوششیں ناکام بنادیں۔ امتحانی مراکز پر طلبہ سے لاکھوں روپے وصولی شروع کردی۔ رقم وصول کرنے کے بعد وی آئی پی رومز میں نقل کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ زیادہ رقم دینے والے امیدواروں کو گھر یا من پسند جگہ پر پرچہ حل کرنے کی سہولیات بھی میسر ہیں۔ کورنگی، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، اورنگی ٹاؤن سمیت شہر کے مختلف مقامات پر نقل مافیا سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ KTS-3، بلال کالونی سیکنڈری اسکول، عیسیٰ میمن، ہاجرہ آباد، لیبر اسکوائر لانڈھی میں واقع ورکرز ویلفیئر بورڈ کے زیرانتظام ورکرز ماڈل اسکول اور گورنمنٹ سیکنڈری اسکول لیبر اسکوائر کے بااختیار افراد نے رقم ادا نہ کرنے والے غریب طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا دیا، ایسے طلبہ کو بلاوجہ تنگ کیا جاتا ہے، ان سینٹرز میں بچوں کی جیبوں میں موجود رقم زبردستی تلاشی کے نام پر نکال لی جاتی ہے، احتجاج کرنے پر طلبہ کو پرچے کینسل کرکے کیس بنانے کی دھمکی کے علاوہ تلاشی کے نام پر گھنٹوں کھڑا کرکے وقت ضائع کرایا جاتا ہے، مذکورہ بالا افراد خود کو محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کے منظورِ نظر بتاتے اور اُن تک حصہ پہنچانے کا تذکرہ بھی سرِعام کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ ان کو رقم ادا کیے بغیر طلبہ کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ نقل مافیا نے بورڈ آفس کے عملے کی ملی بھگت سے من پسند اسکولوں کے امتحانی مراکز اپنے اسکولوں میں رکھوائے ہیں اور ان پرائیویٹ اسکولوں سے غیر قانونی طور پر فی پرچہ ایک ہزار روپے سے 5 ہزار روپے تک وصول کیے جاتے ہیں، جبکہ فی ٹیچر 10ہزار روپے وصول کرکے نجی اسکولوں کا اسٹاف ہی تعینات کیا گیا ہے۔ زیادہ تر نگران ان اسکولوں کے اساتذہ یا مقرر کردہ افراد ہیں جن کے بچے اس اسکول میں امتحان دے رہے ہیں۔ اسکولوں میں تعینات سی سی اوز کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے۔ اسکولوں میں نقل کو تحفظ دینے کے لیے گِرل کو تالے لگا دیئے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی ویجیلنس ٹیم کی آمد پر تالے کھولنے کے نام پر تاخیر کرکے نقل کے تمام شواہد مٹا دیئے جائیں۔ اسکولوں میں اپنے خرچے پر لگائے گئے کیمروں کے علاوہ ٹیموں کی آمد کی نگرانی کے لیے مختلف افراد کی ڈیوٹیاں بھی لگائی جاتی ہیں جو مختلف سیکرٹ کوڈ کے ذریعے اسٹاف کو ہوشیار کرتے رہتے ہیں۔ ان اسکولوں یا دیگر اسکولوں میں تعینات رہنے والے نقل مافیا کے یہ سدا بہار سرپرست بااثر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شاطر اور عیار بھی ہیں۔ جنہوں نے خود کو بچانے اور تمام الزامات سے بری الذمہ رکھنے کے جدید اور انوکھے طریقے اختیار کر رکھے ہیں، انہیں عمومی شکایت پر ویجیلنس ٹیموں کی آمد سے قبل ہی اطلاع مل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو سچا ثابت کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہوجاتے ہیں اور شکایت کنندہ کو ہی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکول مالکان ان سے انتہائی خوفردہ ہوتے ہیں، کیونکہ ان کو ہٹائے جانے کی صورت میں بھی ان ہی کا کوئی دوست، ہمدرد یا اس گھناؤنے کھیل کا پارٹنر تعینات کردیا جاتا ہے۔ افسرانِ بالا شکایت پر کارروائی کا ڈھونگ تو رچا دیتے ہیں لیکن حالات جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔
سندھ میں گزشتہ تین دہائیوں سے ہونے والی لسانی تفریق نے یہاں رہنے والوں کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر تقسیم کردیا۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں ہونے والے میٹرک کے امتحانات میں ہوتی نقل کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ صوبہ سندھ تعلیمی میدان میں بھی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ شہری اور دیہی نقل مافیا کی طرف سے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ آئندہ آنے والے برسوں میں صوبہ سندھ کو کاروبارِ حکومت چلانے کے لیے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو طلب کرنا پڑے گا۔ نقل مافیا کی منظم کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کی آشیرواد سے ایک سازش کے تحت صوبہ سندھ کے غریبوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کیا جارہا ہے تاکہ خاندانوں کی وڈیرہ شاہی قائم رہ سکے۔

حصہ