اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے

266

توقیر عائشہ
رات کے ساڑھے بارہ بجے تھے جب ’’شہاب منزل‘‘ کے مکینوں نے اپنے مہمانوں کو رخصت کیا اور ہنستے بولتے گھر کے اندرونی حصے میں قدم بڑھا دیے، جہاں گھر کو واپس اصلی حالت میں لانے کے لیے بہت سے کام اُن کے منتظر تھے۔
آج سعیدہ اور شہاب کی چھوٹی بیٹی کا خیر سے رشتہ طے ہوا تھا اور اسی سلسلے میں لڑکے والے پھول اور مٹھائی شگون کے لیے لائے تھے۔ وہ اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے فرض کی ادائیگی کے بعد چھوٹی بیٹی کے لیے رشتے کے منتظر تھے۔ چند سال پہلے تک ان کے ہاں خاندان اور برادری سے باہر شادی کا کوئی تصور تک نہ تھا۔ شہاب صاحب نے اپنے سب بچوں کے رشتے دور و نزدیک کے عزیزوں میں ہی کیے تھے۔ گو کہ افشین کی تعلیم ابھی جاری تھی لیکن وہ دونوں اس کے رشتے کے لیے بے حد فکرمند تھے، کیونکہ اب انہیں خاندان میں دور دور تک کوئی مناسب رشتہ نظر نہ آتا تھا۔ وہ تو بھلا ہوا کہ خاندان کے چند لڑکوں نے برادری سے باہر شادیاں کرکے اس روایتی پابندی میں شگاف ڈال دیا تھا۔ سو انہوں نے بھی جان لیا کہ خاندانی دائرے سے باہر بھی ممکنات کی ایک دنیا موجود ہے۔
اپنے ایک جاننے والے کے توسط سے برسرِ روزگار اور تعلیم یافتہ نوجوان فائز کا رشتہ آیا تو انہوں نے منظور کرنے میں دیر نہ لگائی۔ عزیز و اقارب میں مبارک باد وصول کرنے اور مٹھائی کی تقسیم کا سلسلہ تھما تو سعیدہ نے شادی کی تیاری کی طرف دھیان دیا۔ بہوئوں کی مدد سے گھر کی مختلف الماریوں میں سے افشین کے نام سے جمع سامان نکالا گیا۔ کہیں ڈنر سیٹ تھا، کہیں قیمتی بغیر سلے پارچہ جات، ٹاپس اور لاکٹ کا ایک سیٹ اور ایسی ہی کچھ چیزیں۔ پھر جہیز میں دی جانے والی اشیا کی ایک فہرست بھی بنا لی گئی۔
ابھی دو ماہ گزرے تھے کہ افشین کا گریجویشن کا نتیجہ آگیا۔ لیجیے سسرال والوں کو ایک بار پھر مٹھائی کھانے کا بہانہ مل گیا۔ فائز کی امی اور بھابھی شام کو کچھ تحائف کے ساتھ آگئیں۔ باتوں باتوں میں جہیز کا ذکر نکل آیا اور فائز کی امی نے صاف طور پر انہیں منع کردیا کہ ہم جہیز نہیں لیں گے۔
سعیدہ ان کی بات سے کچھ متاثر تو ضرور ہوئیں مگر پھر بھی کہنے لگیں ’’ہم نے اپنی دونوں بیٹیوں کو بھی اچھا جہیز دیا تھا، اب تو یہ ہمارے گھر کی آخری شادی ہے۔ بھائیوں کا دل تو بہن کو بہت کچھ دینے کا ہے۔‘‘
فائز کی امی نے کہا ’’وہ آپ کی مرضی ہے جو بیٹی کو دینا چاہیں، لیکن ہم جہیز کے نام پر فرنیچر اور الیکٹرانکس وغیرہ نہیں لیں گے، میرا بیٹا اچھا کماتا ہے، بعد میں جو افشین کا دل چاہے گا اور جس چیز کی ضرورت ہوگی اپنی پسند سے خرید لے گی۔‘‘
چونکہ سعیدہ کے علم میں ایسی کوئی شادی نہ تھی جس میں جہیز کا لین دین نہ ہوا ہو، لہٰذا انہوں نے بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ تو یوں ہی کہہ دیا جاتا ہے، لینے والے لیتے بھی ہیں اور دینے والے دیتے بھی ہیں، اور بات سرسری سے ذکر پر ختم ہوگئی۔
وقت آگے بڑھتا گیا، یہاں تک کہ شادی کی تاریخ طے کرنے کا مرحلہ آگیا۔ فائز کے والدین نے خاندان کے کچھ بڑوں کو بھی ساتھ لے جانا مناسب سمجھا تاکہ مہمانوں کی تعداد، مہر کی رقم وغیرہ کے معاملات مشورے سے طے کرلیے جائیں۔ اس اہم موقع پر سعیدہ نے بھی اپنے بیٹوں، دامادوں کے علاوہ افشین کی بڑی پھوپھی اور خالہ خالو کو بھی بلا لیا تھا۔ ساتھ کھانے کا اہتمام بھی کرلیا تھا۔
کشادہ ڈرائنگ روم میں مرد بیٹھے اور خواتین ملحقہ ڈائننگ ایریا میں بیٹھ گئیں تاکہ بوقتِ ضرورت اپنے مشورے دے سکیں۔
نکاح اور ولیمے کی تاریخ طے کرنے کے بعد اہم مرحلہ مہر کی رقم کا تعین اور ادائی کا طریقہ کار طے کرنے کا تھا۔ فائز کے والد نے مہر کی وہ رقم جو فائز ادا کرسکے، اُن کے سامنے رکھ دی۔ یہ ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔
یہ سنتے ہی محفل میں خاموشی چھا گئی۔ یہ مقدار لڑکی والوں کی توقع سے بہت کم تھی۔ افشین کے بڑے بھائی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’مہر کی رقم آٹھ سے دس لاکھ مقرر کی جائے۔‘‘
شہاب صاحب کا کہنا تھا ’’جناب یہ بیٹی کا مستقبل محفوظ رکھنے کی ایک شکل ہوتی ہے، اس لیے اِس کا بھاری ہونا ضروری ہے۔ میرے سب بچوں کے مہر تقریباً اتنی ہی رقم کے ہیں۔‘‘
فائز کے والد نے برجستہ پوچھا ’’تو آپ کے دامادوں اور بیٹوں نے یہ مہر ادا کردیے ہیں؟‘‘
شہاب صاحب نے بڑے رسان سے جواب دیا ’’ارے صاحب! مہر کون ادا کرتا ہے، یہ تو ایک گرہ ہے جو لڑکی، لڑکے کو باندھے رکھتی ہے تاکہ خدانخواستہ رشتہ توڑتے وقت لڑکا سو بار سوچ لے۔‘‘
ادھر خواتین میں بھی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ اب فائز کی امی نے شوہر کے مؤقف کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا۔ کہنے لگیں ’’میرے تو دونوں بیٹوں کی شادی کے وقت مہر کی وہی رقم مقرر کی گئی جو وہ ادا کرسکیں، اور انہوں نے فوری ادا بھی کردیے تھے، فائز بھی ان شاء اللہ ایسا ہی کرے گا۔‘‘
یہ سنتے ہی سعیدہ گھبرا کر کھڑی ہوگئیں ’’آئے ہائے، آپ کیسی بات کررہی ہیں! اس کا مطلب بھی پتا ہے آپ کو؟ شادی کی پہلی رات ہی دلہن کو مہر پکڑا کر فارغ کردیا جائے گا، ہمارے خاندان میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ عمر گزار دیتے ہیں اور مرتے وقت شوہر کے سرہانے بیٹھ کر مہر معاف کرا لیتے ہیں۔‘‘
لڑکی والوں کی یہ منطق سن کر فائز کے گھر والے حیران پریشان ہوگئے۔ فائز کے تایا نے قدرے بلند آواز سے کہا ’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ مہر ادا ہونے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟‘‘
سعیدہ نے بھی فوری جواب دیا ’’تو اور کیا، مہر کی ادائی تو اُسی وقت کی جاتی ہے جب لڑکی کو طلاق دینی ہو۔‘‘
ایسے میں افشین کی بڑی خالہ نے انہیں بھاری آواز میں کہا ’’ارے خوشی کے موقع پر آپ لوگ یہ کیا طلاق کی باتیں لے بیٹھے ہیں!‘‘
فائز کے والد نے شہاب صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’شرعی حکم تو یہی ہے کہ فوری ادا کیا جائے، ہاں اس کا طریقہ کار اپنی سہولت سے طے کرلیا جائے۔ کیا آپ نے اس سلسلے میں کچھ بھی علم حاصل نہیں کیا ہے؟‘‘
وہ بولے ’’مہر ادا ہوجائے تو لڑکی کی پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے، اور لڑکا کبھی بھی اسے فارغ کرسکتا ہے، اس لیے ادائی کا سلسلہ نہ رکھیں تو طلاق کا خطرہ نہیں رہتا۔‘‘
فائز کے گھر والوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس جہالت کو ان کے دماغ سے کیسے رفع کریں۔
بالآخر فائز کی امی کہنے لگیں ’’بہن! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ بتایا ہے، ہم اپنے آپ سے تو نہیں کہہ رہے۔ یہ تو عورت کا حق ہے۔‘‘
اب فائز کے تایا کو غصہ آنے لگا تھا ’’آپ لوگ عجیب ہیں، مہر شریعت کی رو سے دلہن کا حق ہے، آپ اس کو ادا کرنے سے کیوں روک رہے ہیں؟ خدا کے ہاں ہم سے پوچھا جائے گا تو ہم کیا کہیں گے؟ اس کو روک رکھنا تو بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔ شہاب صاحب بولے ’’ہوسکتا ہے آپ کا کہنا صحیح ہو، مگر آپ 8 لاکھ نہیں تو 5 لاکھ روپے ضرور مقرر کیجیے۔‘‘
فائز کے تایا کہنے لگے ’’میرا خیال ہے آپ لوگ اس سلسلے میں پہلے شرعی احکامات معلوم کریں۔ زیور، کپڑے کی تیاری بعد میں کیجیے گا۔‘‘
ادھر خواتین میں بھی بحث جاری تھی۔ افشین کی طرف کی خواتین اس بات پر متفق تھیں کہ مہر تو اُسی وقت ادا کیا جاتا ہے جب طلاق یا خلع کی نوبت آتی ہو۔ بالآخر سعیدہ فائز کی امی سے کہنے لگیں ’’بہن! ہمارے ہاں تو ایسا رواج نہیں ہے اور آپ کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آرہی ہیں۔‘‘
فائز کی امی نے کہا ’’رواج کی کیا بات ہے! اب تو سارے ہی رواج ٹوٹ رہے ہیں۔ کیا ہمارے گھرانوں میں رشتہ طے ہوجانے کے بعد فون پر بات کرنے اور آئوٹنگ پر جانے کا رواج تھا؟ مہندی، مایوں کے موقع پر خاندان کے لوگوں کے مل جل کر ناچنے کا رواج تھا؟ کیا اتنے زبردست کھانوں کا راج تھا؟ لیکن اب بہت سے گھرانے ایسا کررہے ہیں۔ غلط باتوں میں ہر رواج توڑنے کی کھلی چھوٹ ہے تو ایک صحیح بات کے لیے رسم و رواج کو توڑنا تو حق بنتا ہے ناں۔‘‘
یہ سن کر خواتین خاموش تو ہوگئیں مگر ماتھے کی سلوٹیں اور بل کچھ گہرے ہوگئے۔ اس اہم نکتے پر اتنی دیر بات کے بعد بھی بحث سمٹنے میں نہیں آئی تو فائز کے گھر والوں نے انہیں موقع دیا کہ آپ آپس میں مشورہ کرلیں، ہم دوبارہ میٹنگ کرلیں گے۔ یہ اہم شرعی نکتہ ہے جس کو خاندانی روایات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔
رات گہری ہوچلی تھی، کھانا دوبارہ گرم کیا گیا۔ ذائقہ دار کھانا، جو بڑی امنگ کے ساتھ تیار کیا گیا تھا، بے دلی اور تنائو کے ماحول میں کھایا گیا۔ آج شہاب منزل کے مکینوں نے مہمانوں کو رخصت کیا تو رات ایسی سیاہی بکھیرنے لگی جو تاروں کی جھلملاہٹ پر حاوی ہوئی جاتی تھی۔
دوسری بار میٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی، دو دن بعد افشین کے والد کا فون آگیا کہ ہم ایسے ڈولتے مستقبل کے پیش نظر افشین کا رشتہ آپ کے ہاں نہیں کرسکتے۔
آہ… یہ رواجوں کی بیڑیاں… بعض لوگوں کے لیے ان کی جھنکار اتنی پیاری ہوتی ہے کہ ان سے دامن چھڑانا اُن کے لیے سوہانِ روح ہوجاتا ہے۔

بہشت کا ٹکٹ

نصرت یوسف
مارچ ہو اور سورج کراچی میں آگ سا لگے تو سمجھ لو بہار یہاں سے کنی کترا کر گزر چکی ہے، اب گرمی مہارانی کا طویل راج چلے گا، جس نے خواتین کے لیے لان تیار کرنے والوں پر دستِ شفقت رکھ کر آنکھیں موند لی ہیں ۔
ہم نے بھی 39 ڈگری پر ’’ہائے گرمی‘‘ کہتے ہوئے تیز رفتار سے گھومتے پنکھے کو اور الماری میں لٹکے کپڑوں کو دیکھا، جو جاذبِ نظر تو تھے لیکن جاذبِ گرمی محسوس نہیں ہورہے تھے۔ حیرت ہے پچھلے برس موسم گرما میں کیا ہم انٹارکٹیکا میں تھے، جو یہ سب بنائے گئے! ہم نے اپنی یادداشت کھنگالی، لیکن نہ اگلو میں رہنا یاد آیا اور نہ برف گاڑی پر پھسلنا۔
’’یہ رنگ برنگے سوتی ملبوسات تم انٹارکٹیکا میں پہن کر زندہ رہ جاتیں تو دنیا کے بیوقوف تمہاری پوجا میں لگ جاتے۔ بی بی اتنا بھی نہ ہانکو کہ دیوانی لگو‘‘۔ دماغ نے خوب گھڑکا، اور ہم نے ایک لمبی سانس لے کر فوری طور پر قریبی لگنے والے ہفتہ واری بازار سے لان کی خریداری کا فیصلہ کرلیا۔ ایسی لان جس کو ہم کچن سے لے کر تپتی دھوپ میں بھی پہن سکیں، ورنہ ایسے سوٹ تو موجود ہی تھے جن کو لان کے نام پر خرید کر اے سی سے باہر آنا سزا لگتی ہے۔ ڈھیروں کڑھائی اور سوت کی کوئی انوکھی سی قسم، گرمی میں سُکھ کے بجائے بھرم بازی کی پون۔ چیتا پرنٹ ہو اور نگاہ نہ ٹکے، ایسا ذرا کم ہی ہوتا ہے۔ سو خریداری سے فارغ ہوکر جب دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہم واپس آرہے تھے تو ایک محترمہ کو دھانی رنگ میں خوب پھیلا پھیلا کر دیکھتے پایا۔ نہ جانے پرنٹ غضب کا تھا یا پسند کا سحر… بس جی، دل اٹک گیا۔ قیمت پوچھی تو حیرت ہوئی۔ اس بازار کی عمومی قیمت سے بڑھ کر تھی۔ نہ کپڑے کا فرق اور نہ طول و عرض کا۔
’’بھائی یہ اس قیمت کا کیوں ہے؟‘‘ ہم نے معلوم کرنا چاہا۔
بھائی نے خشمگیں نگاہ ڈالی اور ہمارے ہاتھ میں تھاما کپڑا اپنی جانب کھینچ لیا۔’’لینا ہے تو لو ورنہ آگے جائو، قیمت یہی ہے‘‘۔ نامناسب لہجے کے ساتھ الفاظ کی مزید گلکاری کرتے حضرت رخ ہی پھیر کر کھڑے ہوگئے۔ لگتا تھا شدید گرمی ان کے مزاج پر خاصا اثر ڈال چکی ہے۔ ہم نے اپنے اندر ہڑبڑاکر جاگتے طیش کے آتش فشاں کو ہاتھ میں تھامی پانی کی بوتل سے غٹاغٹ پانی چڑھاتے دبایا ’’اب تو نہیں لینا، لیکن اگر آپ تمیز سے بات کریں تو بہتر‘‘۔ سامنے والے کے فہم کے حساب سے جملہ ادا کرتے ایک اور پانی کا گھونٹ بھرا۔ اس بات کو سن کر وہ حضرت ایسے تڑپ کر مڑے گویا ہم نے اُن کی شان میں انتہائی درجے کی گستاخی کردی ہو۔
’’تم بی بی تم!‘‘ غصے کی انتہا کی بنا پر اُن کا جملہ بھی پورا نہ ہوا ’’اب تم جیسے ہمیں گورے کے اخلاق کے قصے سنائیں گے، ان کی تمیز تم لوگوں کے سر چڑھا ہے سر!!!‘‘ انہوں نے یہ کہتے ہوئے پیشانی کو اپنی انگلیوں سے تھپتھپایا اور ناگواری سے ہم پر نگاہ ڈالی۔ قریب سے گزرتا لڑکا بھی یہ ڈرامائی منظر دیکھ کر تھم گیا۔ ہم نے خفت کی نمی اپنی ہتھیلیوں میں پھیلتی محسوس کی اور اُن کی بات کو سنی ان سنی کرکے قدم بڑھا دیئے تو وہ پھر بو ل اٹھے ’’جواب دو ہمیں ایک بات کا، پھر جانا۔‘‘ ہم نے پلٹ کر استفہامیہ انداز میں دیکھا۔ ’’یہ بتائو کہ عقیدہ جنت میں لے جائے گا یا اخلاق؟ گورا جنت میں جائے گا یا کلمہ پڑھنے والا؟ تمیزدار جنتی ہے یا سچا؟‘‘
یہ ایک بات تو نہ تھی، تین باتیں تھیں، اور تینوں سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نہ وقت تھا اور نہ یہ مقام۔ یہ امت کے لاشعور میں پیوست بوسیدہ سوچ تھی۔ ثواب اکائونٹ میں اپنے ذوق کے حساب سے عبادتوں کی کرنسی ڈالتے انسانوں کو کیا کرنا، نفس کشی کرکے عظمت والے کام سے۔ وہ جانتے ہیں کل من علیھا فان…کرنے دو ان ناسمجھوں کو کام، جو فانی ہوکر لاثانی کام کررہے ہیں، آنکھ بند ہونے کی دیر ہے، جنت تو ہماری۔ سوال کرنے والا فاتحانہ انداز کے ساتھ تھا، جواب بس اتنا تھا ’’بہشت کا ٹکٹ بس اس کا… فضل، رب پر جس کا۔‘‘
قدم آگے بڑھ چکے تھے لیکن سوالوں نے اللھم لبیک کہنے والی ’’نیک امت‘‘ کے اسبابِ زوال کا دیباچہ لکھ ڈالا تھا۔

حصہ