محمد انور
طویل عرصے بعد بلکہ شاید پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ہمارا انصاف کا نظام آزادانہ چلنے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے چند روز قبل کراچی میں بار سے خطاب کرتے ہوئے جس عزم کا اظہار کیا تھا اُس سے یقین ہوگیا کہ ہمارا عدالتی نظام اب آزادانہ اور انصاف کے مطابق چلنے لگا ہے۔ لیکن گزشتہ منگل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس ثاقب نثار میں ایک طویل ملاقات سے ایسا لگا کہ دانستہ یا نادانستہ اس نظام کو آلودہ کردیا گیا ہے جس کا معیار بلند ہونے لگا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جج جہاں بیٹھ جائے، جب بیٹھ جائے اسے عدالت کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ جج کی زبان سے نکلنے والے ہر الفاظ کو قانونی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور سب کچھ عدالت کے دائرۂ کار میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جج صاحبان اپنے چیمبر میں بیٹھ کر بھی اہم فیصلے کردیا کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے کہا جاتا تھا کہ چیف جسٹس یا دیگر ججوں کو انتظامیہ سے فاصلہ رکھنا چاہیے بلکہ عوامی تقریبات میں بھی شرکت سے گریز کرنا چاہیے۔
چونکہ چیف جسٹس اور وزیراعظم کے درمیان دو گھنٹے طویل ملاقات ہوچکی، جس کا اعلامیہ بھی سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہوا ہے۔ اسی لیے اس ملاقات کے حوالے سے تبصرہ کرنا یقینا توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا، اسی لیے مختلف آئینی اور قانونی شخصیات ٹی وی ٹاک شوز میں اس حوالے سے کھل کر گفتگو کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ اکثر ماہرینِ قانون اور مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ملاقات مناسب نہیں ہے۔ اس ملاقات کے حوالے سے منظرعام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق اہم امور ہی پر گفتگوہوئی۔
ممتاز صحافی اور روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر محترم اطہر ہاشمی کا کہنا ہے کہ دو اہم شخصیات ملتی ہیں تو اہم امور پر گفتگو ہوتی ہے، چونکہ یہ ملاقات وزیراعظم کی درخواست پر ہوئی چنانچہ ان کی ملاقات پر انگشت نمائی نہیں ہونی چاہیے۔ اطہر ہاشمی صاحب کا مؤقف ہے کہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ملاقات کی تھی جس کے بعد جسٹس خلیل الرحمن رمدے کو بطور ایڈہاک جج ملازمت میں توسیع دی گئی تھی، حالانکہ صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس کی خواہش کے باوجود توسیع دینے سے انکار کردیا تھا اور ایک تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی جسے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس سے ملاقات کرکے دور کیا تھا۔
ویسے یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ 2007ء میں عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور وزیراعظم شوکت عزیز مل بیٹھے تھے۔ اس ملاقات میں شوکت عزیز نے چیف جسٹس سے استعفیٰ طلب کیا تھا۔ جبکہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سابق آرمی چیف اور صدر مملکت پرویزمشرف نے بھی اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ملاقات کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملاقات نہیں تھی بلکہ اُس وقت حکومت کو درپیش معاملات کے حوالے سے افتخار چودھری کو استعفیٰ دینے اور اس کے بدلے میں دیگر اہم نوازشیں کرنے کی پیشکش کے لیے ’’مذاکرات‘‘ کے سلسلے کی شروعات تھی ۔
مگر ماضی میں جو کچھ ہوا، یا اس طرح کی جو ملاقاتیں ہوئیں ان کا موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اصول پسند و فعال چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کی ’’ارینج میٹنگ‘‘ سے موازنہ کیا جانا مناسب نہیں ہے۔
کیونکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے نیب پہلے سے بعض معاملات کی انکوائری کررہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس کے باوجود وزیراعظم عباسی نے چیف جسٹس کو وزیراعظم ہائوس آنے کی دعوت دی تھی جسے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد وزیراعظم نے ملاقات کی خواہش کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کا اصل اور بنیادی مقصد چیف جسٹس سے میاں نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کو بیرونِ ملک جانے کے لیے اجازت کی درخواست کرنا تھا۔ یہ بات تو میاں نوازشریف اور مریم نواز کی آئندہ کی ’’موومنٹ‘‘ سے واضح ہوجائے گی کہ اس درخواست پر عدالت نے کیا فیصلہ دیا ہے۔
یہ بات تو سامنے آچکی ہے کہ وزیراعظم ایک درخواست گزار کی حیثیت سے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ چیف جسٹس سے فریاد ہر کوئی کرسکتا ہے اور شاہد خاقان عباسی تو پھر وزیراعظم ہیں۔ ممکن ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے مفاد میں یہ ملاقات کی ہو۔
وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات پر جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد کا تبصرہ
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد سے جب جسارت سنڈے میگزین نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ملاقات پر تبصرے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ایک آدھ بار ملاقات ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ ملاقات چونکہ وزیراعظم کی درخواست پر چیف جسٹس کی منظوری سے ہوئی ہے اس لیے اور بھی اچھی بات ہے، مگر اب ہمیں دیکھنا ہے کہ اس ملاقات کے نتائج کیا نکلیں گے؟ اس ملاقات کے زیر سماعت مقدمات پر کیا اثرات پڑیں گے؟ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ چیف جسٹس نے اس ملاقات کے دوران عدالتوں کے قیام اور ان کی عمارتوں کی ضرورت سے بھی وزیراعظم کو آگاہ کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ملاقاتیں روٹین میں نہیں ہونی چاہئیں۔