زاہد عباس
رواں ماہ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے تحت ہونے والے میٹرک کے امتحانات کے دوران مجھے اُس وقت انتہائی دلچسپ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا جب بچے ’’کے الیکٹرک مُردہ باد‘‘ جیسے نعرے مارتے ہوئے اسکول سے باہر آرہے تھے۔ اس محکمے کی جانب سے شہریوں کو دی جانے والی اذیت نئی نہیں، اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر احتجاجی طلبہ کا مؤقف تھا کہ موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی شہر میں ہونے والی بجلی کی آنکھ مچولی نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنادی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے بھی زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کے الیکٹرک کی جانب سے عوام پر کیے جانے والے ظلم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہلکی پھلکی ہلڑ بازی کرتے میٹرک کے ان طلبہ میں سے ایک، بڑے منفرد انداز میں کچھ یوں نعرے مارتا دکھائی دیا ’’بورڈ اور کے الیکٹرک گٹھ جوڑ نامنظور نامنظور‘‘۔ نیا اور منفرد نعرہ لگانے والے اس بچے کو میں نے چند منٹوں کے اس تفریحی احتجاج کے اختتام کے ساتھ ہی قابو کرلیا۔ اب میں تھا اور نئے نعرے کا خالق بچہ۔ میری طرف سے نعرے کے مقاصد پوچھنے اور ذرا سی ڈانٹ سنتے ہی فرفر بولنے لگا:
’’رات رات بھر بجلی نہیں ہوتی، اچھی طرح سے سو بھی نہیں سکتے، اور تو اور… امتحانی پرچوں کی تیاری بھی نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے جب نیند پوری نہیں ہوگی تو خاک تیاری ہوگی! سورج کے آنکھ کھولتے ہی سخت گرمی پڑنے لگتی ہے، دوپہر کو تو آگ برسنے لگتی ہے، یہ کے الیکٹرک والے یہودیوں سے بھی زیادہ ظالم ہیں جنہیں مسلمان ملک میں غریبوں پر ظلم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی سپلائی بھی بند ہوتی ہے، محلے میں لوگ جنریٹر چلا لیتے ہیں جس کی وجہ سے چولہوں میں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، روٹیوں کے لیے ہوٹلوں پر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، یہ ادارہ تو ساری حدیں پار کرچکا ہے! بجلی آتی نہیں، لیکن ناجائز طور پر بنائے گئے بل ضرور آتے ہیں۔ اس محکمے کے لوگوں کو دیکھ کر دماغ گھومنے لگتا ہے جنہوں نے ہماری زندگیوں میں اندھیرے کردیے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، تمہاری ساری بات ٹھیک ہے، لیکن تم بورڈ اور کے الیکٹرک والے نعرے کے بارے میں بتاؤ‘‘۔ اس کی باتوں کے درمیان لقمہ دیتے ہوئے میں نے کہا۔
’’وہ، وہ کچھ نہیں، بس یوں ہی کہہ رہا تھا‘‘۔
اپنے غیر تسلی بخش جواب پر میرے بدلتے تیور دیکھ کر بولا ’’اچھا اچھا بتاتا ہوں۔ اصل میں جب رات رات بھر بجلی نہیں ہوتی تو موبائل فون بھی چارج نہیں ہوتا۔ امتحانات میں نقل کے لیے موبائل فون کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل واٹس ایپ پر حل شدہ پرچہ آجاتا ہے۔ جب بیٹری چارج نہ ہو تو سارا کام خراب ہوجاتا ہے، اور دوسری طرف بورڈ نے الٹی گنگا بہانا شروع کردی ہے۔ ماضی میں میٹرک کے سالانہ امتحانات ہمیشہ پہلی شفٹ یعنی صبح میں ہوا کرتے تھے، نہ جانے کیوں اور کس کے کہنے پر اِس مرتبہ بورڈ نے پرچوں کا شیڈول دوسری شفٹ میں رکھ دیا۔ پرچہ دینے کے لیے شدید دھوپ میں نکلنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے دماغ پکنے لگتا ہے۔ ملک کے معماروں کے ساتھ ہونے والے اس سلوک سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کیا جارہا ہے، اب وہ نقل کا سہارا نہ لیں تو پھر کیا کریں! امتحانات کے دوران ذہن تیز کرنے کے لیے بچوں کو بادام اور دودھ زیادہ سے زیادہ دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے یہاں ٹینشن دی جاتی ہے۔ کلاس روم میں بجلی نہیں ہوتی۔ یہ سارا کچھ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہمارے لیے ہی کیا گیا ہے۔ اگر کتابوں کے اوراق پھاڑ کر کہیں چھپا لیں تو گرمی اور پسینے کی وجہ سے گیلے ہوجاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سازش میں بورڈ اور کے الیکٹرک دونوں ہی شامل ہیں۔ کوئی پرسانِ حال نہیں، کے الیکٹرک کے آگے حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے۔ میرے ذہن میں اس حوالے سے جو بھی تھا، بتا دیا۔ پلیز اب جانے دیں‘‘۔ یہ کہہ کر طالب علم میرے پاس سے رخصت ہوگیا۔
میٹرک کا امتحان دینے والے اس بچے کی باتوں میں اگر کچھ سچ ہے تو وہ کراچی میں ہونے والی بدترین لوڈ شیڈنگ ہے۔ موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں گھنٹوں بجلی کی بندش روز کا معمول بن چکی ہے۔ برسوں سے ہوتی اس لوڈشیڈنگ پر حکمرانوں اور کے الیکٹرک نے جو گل کھلائے اس کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے
’’کعبہ کس منہ سے جاؤ گے ظالم‘‘
شرم تم کو مگر آتی نہیں ہے
کراچی کے عوام کو اس اذیت سے نجات دلانے کے لیے حکمرانوں نے کیا اقدامات کیے، سوچ کر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔
مجھے یاد ہے، سابقہ وزیراعظم اور اپنے تئیں موجودہ اپوزیشن لیڈر میاں محمد نوازشریف نے کہا تھا کہ لوڈشیڈنگ کو 2018ء میں دفن کردیا جائے گا۔ جب کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کی بھی نوید سنائی تھی۔ اُس وقت انہوں نے اپنے بیانات اور خطابات میں اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کچھ یوں کیا تھا ’’بلاشبہ، ملک میں بجلی گھروں کی تعمیر و تکمیل کے لیے تیز رفتار اقدامات اطمینان بخش ہیں۔ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی بجلی کے شدید بحران پر قابو پانے کے لیے کئی منصوبے شروع کیے۔‘‘ اُس وقت حکومت کی جانب سے بھی اس مسئلے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کا چرچا دنیا بھر میں کیا گیا بلکہ اب تک کیا جا رہا ہے۔ ان وعدوں اور دعووں کا کیا بنا، یہ ساری قوم کے سامنے ہے، جس کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں کئی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ عوام کا سوچنا بھی بجا ہے کہ کیا واقعی 2018ء میں ہی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ پورا ہوجائے گا، جبکہ سال اور حکومت کا وقت پورا ہونے میں چند ہی ماہ باقی ہیں… یا پھر ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا یہ اعلان بھی عوام کے لیے سستی اور میٹھی گولیاں ہی ثابت ہوگا۔اس سے پہلے کہ ہم مزید سوچ میں پڑیں، عوام کی اس ناامیدی کا جائزہ لیتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ذہنوں میں الجھنیں پیدا ہوئیں۔ نوازشریف کی جانب سے ماضی میں کیے گئے اس دعوے ہی کو لے لیجیے، جس میں انہوں نے باقاعدہ حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نصف کردی جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کے الیکٹرک نے یہ حکم ہوا میں اڑا کر رکھ دیا، اُس وقت نہ صرف اس حکم کو ماننے سے انکار کیا بلکہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا وہ سلسلہ شروع کردیا جس سے کراچی کے باسیوں کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ عوام کو کسی ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویہ کے استعمال کی طرح دن میں تین وقت سات سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کرنا پڑی۔ اس کے علاوہ فنی خرابی، ٹرانسمیشن لائنوں کی تبدیلی اور ٹرانسفارمر میں ٹیکنیکل وجوہ کے نام پر عوام الناس کو مسلسل اندھیروں میں دھکیلا جانے لگا، اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اگر رات کے وقت شہر کراچی کی سڑکوں کا دورہ کیا جائے تو آسانی سے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہاں میلوں تک اندھیروں کا راج ہے۔ کے الیکٹرک افسران کی بنائی گئی ناکام پالیسیوں سے پرانے زمانے کے ایک ایسے گاؤں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جہاں دور سے لال ٹینوں کی روشنی دیکھ کر ماضی میں رہائشی آبادیوں کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ بے ضمیر اور بے حس کے الیکٹرک انتظامیہ ہر آنے والے دن کے ساتھ عوام کو پتھروں کے زمانے میں دھکیلتی جا رہی ہے۔ معمول سے بڑھتی لوڈشیڈنگ صاف بتا رہی ہے کہ کے الیکٹر ک کے افسران کسی ادارے کے ماتحت نہیں، اُس وقت سے اب تک کی جانے والی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بتارہی ہے کہ کے الیکٹر ک ایک ایسا بے لگام گھوڑا بن چکا ہے جو کسی کے قابو میں نہیں۔ ادارے کی جانب سے کراچی کے عوام پر مسلط افسران کا پیغام ظاہر کرتا ہے کہ کسی کی بھی جانب سے دی جانے والی ہدایت یا حکم نامے کی جگہ ردّی کی ٹوکر ی ہے۔ شاید وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اعلان کردینے سے عمل کا تعلق نہیں ہوتا۔ سیاسی رہنما اس قسم کے اعلانات ہر روز کرتے رہتے ہیں، اس لیے کے الیکٹرک کے افسران نے یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کی، یا پھر ان کو اس بات کا پورا علم ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی ہدایات کسی اور کے لیے ہیں، کے الیکٹرک کے لیے نہیں۔ جو بھی ہو، اس ساری صورت حال میں کراچی کے عوام کو دہری مصیبت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بجلی پوری ملتی نہیں، جب کہ گھریلو صارفین پر ہزار ہزار یونٹ کے بل بنادیے جاتے ہیں۔ دس سے بارہ گھنٹے بجلی کی بندش، اس پر ہزاروں روپے ماہانہ کا بل… اس ساری صورتِ حال نے عوام کو نفسیاتی مریض بناکر رکھ دیا ہے، جس ادارے کی اتنی ہمت ہو کہ وہ حکمرانوں کے احکامات کا جواب بدترین لوڈشیڈنگ کرکے دے، غریب عوام کے ساتھ اس محکمے کے سلوک کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔اگر طائرانہ نگاہوں سے کے الیکٹرک کی ناانصافیوں کا جائزہ لیا جائے تو بآسانی اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ کراچی سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ناممکن ہے۔ اس منہ زور ادارے کے افسران ایک ایسا مافیا بن چکے ہیں، جن کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرنا کراچی کے عوام کے بس کی بات نہیں۔ کے الیکٹرک کی من مانیوں کی شکایت کس در پہ کی جائے؟ عوام اپنا جائز مسئلہ لے کر کس سے فریاد کریں؟ کوئی ایسی جگہ نہیں، جہاں کراچی کے پسے ہوئے عوام کی شنوائی ہوسکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 2018ء لوڈشیڈنگ کو قبر میں اتارے گا، یا نہیں۔ وہ کون سا قبرستان ہوگا، جہاں سابقہ وزیراعظم کے دعوے کے مطابق لوڈشیڈنگ کو دفن کیا جائے گا۔
عوام کے ذہنوں میں سوالات کا ابھر نا فطرتی عمل ہے، اس سلسلے میں نیپرا کی رپورٹ خاصی مختلف صورت حال دکھا رہی ہے۔
حکومتی اعلانات اور نیپرا کی رپورٹ کو دیکھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ توانائی کے اداروں نے اُس وقت کے وزیراعظم کو بجلی کے منصوبوں سے لاعلم رکھا تھا جو کہ ایک وضاحت طلب معاملہ ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اُس وقت کیے گئے اعلانات کو کس زمرے میں دیکھا جائے؟ حکومتِ پاکستان سے اتنی سی درخواست ہے کہ وہ من مانی کرنے والے، خاص طور پر کے الیکٹرک جیسے بدعنوان ادارے پر گہری نظر رکھے۔ حکومت کو ’کے الیکٹرک‘ کے اُن کفن چور افسران سے بھی بچنا ہوگا، جو کسی بھی قبر کو کھودنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسے افسران کی وجہ سے ہی آج کراچی سمیت پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے شاید لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کے الیکٹرک جیسے اداروں سے کالی بھیڑوں کا صفایا کیا جائے۔ اچھی شہرت رکھنے والے افسران کی تعیناتی سے ہی اس مرض کا علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ میں حکومت سے امید رکھتا ہوں کہ وہ سابقہ وزیراعظم کے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات اٹھائے گی تاکہ عوام کو کے الیکٹرک کے ظلم و ستم سے نجات مل سکے۔