نعیم الرحمن
شریکِ مطالعہ میں قارئین کے ساتھ جہلم بک کارنرکی شائع کردہ ’’تیرے نام تیری پہچان‘‘ شیئرکرنا چاہتا ہوں، جسے محترمہ ساجدہ ناہید اور بشریٰ تسنیم نے تالیف کیاہے۔ 99 اسمائے ربانی کے حوالے سے سرورق پر تحریر ’’اسماء الحسنیٰ کی محبتِ الٰہی سے سرشار توضیح‘‘ سے کتاب کے موضوع کے بارے میں بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ 560 صفحات کی اس انتہائی خوبصورت کتاب کی قیمت 700 روپے بے حد مناسب ہے اور اسے ہر گھر میں موجود ہونا چاہیے۔
عرضِ ناشر میں ابوامامہ امرشاہد تحریرکرتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی صفاتِ حمیدہ کو الفاظ کی شکل کیسے دی جائے؟ الٰہی! تیری کسی بھی صفت کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا، ان کا بیان لامحدود اور لامتناہی ہے۔ ان کی مثال بھی نہیں دی جاسکتی۔ ہماری عاجزی اور تیری بلندی کا عالم یہ ہے کہ صفاتِ الٰہیہ کی کیفیات بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ البتہ تیرے پیارے نام تیری پہچان ہیں۔ اسمائے باری تعالیٰ خیر و بھلائی کا مجموعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے ناموں کے وسیلے سے سوال کرنا قبولیتِ دعا کا ذریعہ ہے۔‘‘
بہت عرصے سے اس موضوع پر کوئی کتاب شائع کرنے کی خواہش دل میں مچل رہی تھی، کیونکہ اس حساس عنوان پر مستند اور پُراثرکتاب کی اشد ضرورت تھی۔ محترمہ ساجدہ ناہید اور بشریٰ تسنیم کی کاوش اس موضوع پر قابل ِستائش ہے۔کتاب کا ہر صفحہ، سطر اور حرف بولتا ہے کہ ہمیں بڑی محنت سے اور محبت میں ڈوب کر لکھا گیا ہے۔ ہماری دلی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مسلمانوں کے لیے نافع اور مفید بنادے۔پیش لفظ میں محترمہ ساجدہ ناہید لکھتی ہیں:
’’اللہ الرحمن الرحیم کی مجھ ناچیز پر بے پایاں رحمت ہے کہ اس کی عطاکردہ توفیق سے آج یہ سطور لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان ہاتھوں کو صفات اللہ لکھنے، ان آنکھوں کو بار بار پڑھنے اور نم ہونے، ان کانوں کوکئی مرتبہ سننے کی لذت اور دماغ کو اسماء اللہ پر غور و فکرکا موقع ملا۔ کتاب کا اندازِ تحریر کبھی خطاب، کبھی متکلم اورکبھی انذار و تبشیر اختیار کیاگیاہے۔ یہ اسلوب دراصل قرآنی اسلوب سے اخذ کیا گیا ہے جوکہ اعجاز القرآن ہے۔ نیز تاریخی واقعات اور مثالوں سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دراصل انسانی تعلیم و اصلاح کے لیے اس قرآنی طریقے سے بہترکوئی اسلوب و طریقہ نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کاکہنا ہے:’’کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ!! سبحان اللہ، عمر کی کرنسی کے کچھ سکّے پانی کے چند قطروں کی مانند زندگی کے صحرا میں ایسے نصیب ہوئے کہ خشک لبوں کو طراوٹ کا احساس ہونے لگا۔ اب رب رحمان ورحیم کی رحمتِ واسعہ پر بھروسا کامل ہونے لگا کہ وہ ہماری اس کاوش کے قطرے کو اپنے مقبول بندوں کی مقبول ترین مساعی کے سمندر میں ملاکر سمندر بنادے، اس لیے کہ اس کی رحمت ہر شے پرچھائی ہوئی ہے، اور مہربان ذات نے اپنے غضب پر اپنی رحمت غالب رکھنے کا اٹل فیصلہ کررکھا ہے۔ وہ قدردان ہے۔ عرقِ انفعال کو موتی سمجھ کرچن لینا اسی کی شانِ کریمی کو زیبا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد فہیم خان کاکہنا ہے:
’’یوں تو اسماء الحسنیٰ پر بے شمار مقالے اور مضامین لکھے گئے ہیں، لیکن جس نقطۂ نظر سے محترمہ ساجدہ ناہید اور محترمہ بشریٰ صاحبہ نے اسماء الحسنیٰ کو اس کتاب میں پیش کیا ہے اس کی مثال اردو زبان میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ بہنوں نے جس خوبصورت انداز میں اسماء الحسنیٰ کی اہمیت اور صفات اللہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، وہ ایک عام انسان کے دل میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی شان، عظمت اور محبت بٹھانے کے لیے انتہائی مؤثر اسلوب ہے۔‘‘
سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اسماء الحسنیٰ سے جس شخص کی واقفیت ہو وہ موقع محل کے مطابق اللہ رب العالمین کو اس کے مختلف اسم مبارک سے پکارے تو اس میں عجیب حسن اور جاذبیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کہیں’’رحمان ورحیم‘‘، کہیں’’جبار و متکبر‘‘، کہیں ’’سمیع و بصیر‘‘ اور کہیں ’’عزیز وحکیم‘‘… غرض سارے ہی اسماء بامعنی اورخوبصورت ہیں۔
کتاب کا مقصد ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ناموں کو درست معنوں میں گہرائی کے ساتھ سمجھ کر اپنے دلوں کو اس کی محبت سے سرشار کرسکیں، تاکہ ہماری پوری زندگی میں اسماء الحسنیٰ کی برکات و تجلیات نظر آئیں اور ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ لیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہوسکتاہے؟
کتاب میں کئی عنوان قائم کیے گئے ہیں۔ پھر ذیلی عنوانات کے تحت ان کی مزید وضاحت بیان کی گئی ہے۔ جیسے ’’الرحمن الرحیم کے ساتھ ہم کیسے زندگی گزاریں؟‘‘، ’’کائنات کے اندر اس کی رحمت کے آثار‘‘، ’’معاشرتی تعلقات اور اللہ کی رحمت‘‘، ’’مصائب و ابتلا میں اللہ عز و جل کی رحمت کا ظہورکیسے؟‘‘
اسم مبارک التوابُ کے تحت ذیلی عناوین میں التواب کے معنی، توبہ کن کے لیے؟ قرآن وحدیث میں توبہ کا ذکر، روح کی پاکیزگی، جسم کی پاکیزگی، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے کس قدر خوش ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ابتدا ہی سے گناہ سے کیوں نہ بچا لیا؟ شرائطِ توبہ جیسے عنوانات سے موضوع کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔
اسی طرح اسم مبارک الجبارُ، اسم مبارک الحقُ، اسم مبارک الحمیدُ، اسم مبارک الخالقُ، الخلاقُ، اسم مبارک الرزاقُ، اسم مبارک الرقیب، الشھیدُ، اسم مبارک الشکورُ، الشاکرُ، اسم مبارک العزیزُ، اسم مبارک العفوُ، الغفور، الغفار، الغافر، اسم مبارک الفتاحُ، اسم مبارک القہارُ، اسم مبارک الکریمُ، القریبُ، المجیبُ، اسم مبارک الھادی کا تفصیلی بیان اور وضاحت ذیلی عنوانات کے تحت دی گئی ہیں۔
کتاب کا طرزِ تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہے۔ کہیں غیر ضروری علمیت کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اس عمدہ اسلوب کے باعث ہر بات قاری کے دل میں اترجاتی ہے۔
جہلم بک کارنر نے اپنے مخصوص دلکش انداز سے چھاپ کر کتاب کی افادیت میں اضافہ کردیا ہے، جس کے لیے وہ بھرپور مبارکباد کا مستحق ہے۔ ادارے سے مزید ایسی کتب کی توقع بے جا نہ ہوگی۔
ادبی جریدے ’’سویرا‘‘ کی اشاعت کا آغاز قیام پاکستان سے قبل 1945ء میں ہوا تھا۔ یہ مجلہ 73سال سے اشاعت جاری رکھے ہوئے ہے جو بجائے خود ایک بڑا اعزاز ہے۔ ادب، آرٹ اور کلچرکا ترجمان ’’سویرا‘‘ چند سال سے محمد سلیم الرحمن اور ریاض احمد کی ادارت میں شائع ہورہا ہے، جس کی اشاعت کی ذمہ داری القاء پبلشرز کی جانب سے اٹھائے جانے کے بعد پرچے کی اشاعت میں باقاعدگی آگئی ہے اورہر سال اس کے دو شمارے شائع ہورہے ہیں۔ حال ہی میں سویرا کا شمارہ نمبر 96 ’’افسانہ نمبر‘‘ کی صورت میں منظرعام پر آیا ہے۔ 712 صفحات کے اس نمبرکی قیمت 900 روپے ہے جو باذوق شائقینِ ادب کے لیے مناسب ہے۔ لیکن القاء پبلشرز سے گزارش ہے کہ پرچے کی ترسیل کا بھی بہتر انتظام کیا جائے۔ جہاں جہاں القاء کی کتب بھیجی جاتی ہیں وہاں ’’سویرا‘‘ بھی دستیاب ہونا چاہیے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں سویرا دستیاب نہیں ہے۔سویرا کے افسانہ نمبر میں پاکستان اور بھارت کے معروف افسانہ نگاروں کے 48 افسانے شامل ہیں۔ جن میں اسد محمد خان، حسن منظر، یونس جاوید جیسے اساتذہ، جاوید صدیقی، شموئل احمد، عرفان جاوید، طاہرہ اقبال، محمد حامد سراج، محمد عاصم بٹ، نجم الدین احمد، ذکیہ مشہدی، خالد فتح، محمد بلال، حسن منٹو، ترنم ریاض، محمد سلیم الرحمن کے افسانے شامل ہیں۔ مبین مرزا کا ’’شام کی دہلیز‘‘، محمد اقبال دیوان کا ’’پیوما‘‘، ناصر عباس نیر کا ’’ابا کا صندوق‘‘، مستنصر حسین تارڑ کا ’’پھوپھی نوربی کا زرد گلاب‘‘ اور سلمیٰ اعوان کے ’’شاخِ زیتون سے لپٹے وہ دونوں‘‘ کو ناولٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کئی نووارد افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
افسانہ نمبر میں پاکستان اور بھارت کے معاصر افسانہ نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں۔ بلاشبہ کئی اہم اور معروف ناموں کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے، لیکن ایسے کسی بھی انتخاب میں سو فیصد نمائندگی ممکن نہیں۔ دیگر افسانہ نمبروں پر ’’سویرا‘‘ کے اس نمبرکو اس لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ اس میں صرف موجودہ تخلیق کاروں کی تحریروں کو جگہ دی گئی ہے، جس سے اردو معاصر افسانے کی صورت حال کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ محمد سلیم الرحمن اور ریاض احمد اس عمدہ افسانہ نمبرکی اشاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔