دعائے مستجاب

500

آسیہ بنت ِ عبداللہ

صبح کالج جاتے ہوئے اس نے ماں کو مطلع کیا ’’امی میں اور زیبا کالج کے بعد شاپنگ کریں گے، دیر سویر ہوجائے تو پریشان مت ہویئے گا۔‘‘
’’عالیہ بیٹی ابھی پچھلے ماہ تو تم نے شاپنگ کی تھی فارحہ کی منگنی پر۔‘‘
’’مگر اب تو زیبا کی شادی ہے اور آپ جانتی ہیں زیبا میری سب سے بیسٹ فرینڈ ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چل دی۔ ابھی اسے زیبا کو بھی ساتھ لینا تھا۔
’’یااللہ اس لڑکی کو کتنا خبط ہے خریداری کا، دکان دکان پھر کر تھکتی بھی نہیں۔‘‘
شام سات بجے تک تو وہ اطمینان سے رہیں کہ آجائے گی، مگر آٹھ بجے وہ پریشان ہوگئیں۔ زیبا کے گھر فون وہ چھ بجے کر چکی تھیں، 6 بجے تک تو وہ دونوں نہیں آئی تھیں۔ دونوںکے نمبر بھی بند جارہے تھے۔ ’’اب کیا کروں میرے اللہ!‘‘
ادھر پانچ بجے تک تو وہ دونوں بازار میں پھر رہی تھیں، عبایا دونوں نے پہنا ہوا تھا مگر چہرے کھلے ہوئے تھے۔
بازار میں گھومتے ہوئے انہوں نے غور ہی نہیں کیا کہ ایک آدمی بڑا ویل ڈریسڈ اُن کے ساتھ ساتھ پھر رہا ہے۔ جب دونوں نے آپس میں کہا کہ اب چلتے ہیں بہت وقت ہوگیا ہے، تب وہ دونوں کے آگے آگے چلنے لگا ہاتھ میں کی رِنگ گھماتا ہوا، جس میں بڑی سی چابی لگی ہوئی تھی۔
سڑک پر پہنچ کر وہ اپنی گاڑی کے پاس کھڑا ہوگیا۔ بالکل مارکیٹ کے گیٹ کے پاس ان دونوں کو اُس نے دیکھا تھا۔ دونوں کے چہرے، ایک کی رنگت گلابی اور ایک کی گندمی جس میں سنہرا پن تھا۔ واہ کیا خوب ہیں دونوں۔
جب وہ قریب آئیں تو اس نے پائل کی ایک جوڑی ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔ ’’ایکسکیوز می، یہ مجھے مارکیٹ میں ملی ہے، کہیں آپ میں سے تو کسی کی نہیں؟‘‘
وہ ایسی چیزیں اکثر گاڑی میں رکھ لیتا تھا۔ عورت کی کمزوری زیورات ہوتے ہیں یہ اُسے معلوم تھا۔
’’جی پائل ہم نہیں پہنتے…‘‘ دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
’’اوہ پھر بھی ذرا اچھی طرح دیکھیں، ہوسکتا ہے آپ کو یاد نہ ہو یا آپ کی کسی دوست کا ہو؟‘‘
وہ دونوں جب گاڑی کے قریب آگئیں تو اس نے غیر محسوس طریقے سے ٹی شرٹ کے اندر لگائی ہوئی پستول دکھا دی اور سرد لہجے میں بولا ’’چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ جائو ورنہ جان سے مار دوں گا۔ سنا نہیں تم نے، سائلنسر والی پستول ہے، کسی کو آواز بھی نہیں جائے گی۔‘‘
گھبراہٹ سے دونوں کے ہاتھ پیروں کی جان نکل گئی۔ اس نے دونوں کو ایک ایک کرکے پچھلی سیٹ پر دھکیلا اور زن سے گاڑی نکال کر کچھ دور ایسی سڑک پر لے آیا جہاں اِکا دُکا لوگ بائیک پر جا رہے تھے۔
ادھر امی اور زیبا کی امی کا برا حال تھا۔ یاخدا کروں تو کیا کروں، لڑکیوں کا معاملہ ہے، منہ سے بات نکالتے بدنامی کا خوف دامنِ گیر ہوتا ہے۔ یہ لڑکیاں کیوں نہیں سمجھتیں کہ شیشے پر بال آجائے تو وہ بدنما ہوجاتا ہے۔
اچانک وہ چونک پڑیں ’’ارے میں اس سے کیوں ناں فریاد کروں جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے… ہاں یہ ٹھیک ہے، بلکہ یہی ٹھیک ہے…‘‘ دوسرے لمحے وہ جانماز پر تھیں۔ عصر کی نماز کے لیے انہوں نے وضو کر رکھا تھا، آنسو ان کی آنکھوں سے نکل نکل کر دوپٹہ بھگو رہے تھے۔
جب گاڑی سنسان سڑک پر آئی تو وہ اپنی بائیک میں چابی لگا رہا تھا، جھک کر کھڑا تھا اسی لیے اس نے ان دو نیم جان دبک کر بیٹھی ہوئی لڑکیوں کو دیکھ لیا تھا۔
انسپکٹر فاروق کمال اپنی پولیس پارٹی کا سب سے فعال، ذمے دار، نیک نام آفیسر تھا، ایک لمحے میں صورتِ حال کو بھانپ لیتا تھا۔
ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ اس نے موبائل پر نمبر ملایا اور کہا ’’اس سڑک سے آگے موبائل کھڑی کردو اور چیکنگ کے بہانے صورتِ حال کا جائزہ لو، میں بھی ابھی پہنچتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر!‘‘ ماتحت نے جواب دیا۔ وہی سب تھا جس کا اندیشہ تھا۔ چیکنگ کے لیے روکی گئی گاڑی جب پولیس کے گھیرے میں آئی تو دونوں لڑکیاں جیسے ہوش میں آگئیں، اور انسپکٹر عدنان جیسے ہی گاڑی کی کھڑکی پر گیا لڑکیوں نے اشارے سے بتایا۔ نہ بھی بتاتیں تو ان کے بہتے ہوئے آنسو سب کچھ کہہ رہے تھے۔
فاروق نے فرنٹ دروازہ کھلتے دیکھا تو ایک لمحے سے بھی کم وقت میں گاڑی چلانے والے کو گریبان سے پکر کر باہر گھسیٹ لیا۔
’’عدنان تم اس کو لے کر تھانے جائو، ظفر تم میری بائیک لے جائو، میں ان دونوں کو ان کے گھر چھوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
وہ سب چلے گئے تو اس نے بڑے احترام سے کہا ’’میں نہیں جانتا آپ دونوں کی کیا مجبوری تھی، لیکن آئندہ کے لیے محتاط رہیے، کسی بزرگ کو لیے بغیر بازاروں اور رش والی جگہوں پر جانا ٹھیک نہیں ہوتا۔‘‘
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، دیکھیے ناں ہماری وجہ سے آپ کو کتنی زحمت ہوئی۔‘‘
’’زحمت کیسی! وہ آپ نے سنا ہی ہوگا پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘۔ اتنے میں ایک ٹیکسی روکی اور گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ عالیہ نے اپنے گھر کا پتا بتایا۔ جب گلی کے نکڑ پر پہنچے تو وہیں اس نے ٹیکسی رکوالی۔
’’میں یہاں موجود ہوں، آپ کے گیٹ سے اندر جانے تک میں دیکھ رہا ہوں، چلیے شاباش ہمت پکڑیے۔‘‘
’’جی وہ تو ٹھیک ہے مگر ہم اپنی دیر کی وجہ کیا بتائیں گے؟‘‘ زیبا نے سہمے ہوئے انداز میں کہا۔
’’یہ آپ دونوں آپس میں طے کرلیں۔ بہانے تو بہت ہوتے ہیں خواتین کے پاس۔ بس میری ڈیوٹی یہیں تک تھی، اللہ حافظ۔‘‘
گیٹ امی نے کھولا۔ ان کا چہرہ آنسوئوں سے تر تھا۔ نفل پڑھ کر دعائیں مانگ کر اب وہ تسبیح پڑھ رہی تھیں اور دل کی گہرائیوں سے پورے یقین سے اپنے رب کی مدد مانگ رہی تھیں۔ دونوں کو صحیح سلامت دیکھ کر وہ جی اٹھی تھیں۔

حصہ