اسماء صدیقہ
آس پاس پھیلی دہشت اور آئے روز کے جرائم کی بریکنگ نیوز اور اس پر پھیلے سنسنی خیز ماحول نے لمبی سیاہ شب کی طرح دل و دماغ میں بسیرا کرلیا ہے۔ خوشی کے لیے بہانے تلاش کرلیں، سب مصنوعی لگتے ہیں۔ خوشی کی کوئی خبر آئے بھی، تو پھر کوئی حادثہ نئے سرے سے دہشت پھیلا دیتا ہے۔ رویوں میں عدم برداشت اور تشدد حد سے بڑھتا جا رہا ہے۔ خصوصاً بچے والدین کے کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ تین سے چار سال کا بچہ بھی ٹچ موبائل پر اس یکسوئی سے مصروف ہوتا ہے کہ جیسے آفس میں ملازم اپنے فرائض انجام دے رہا ہو، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ… امی آواز دیں، دادی یا پھوپھو پکاریں، مجال ہے جو کوئی تاثر بھی دیں۔ بے حسی کے شاہکار بڑھتے جاتے ہیں۔ فحاشی اور تشدد کے اشتراک سے بننے والے اشتہارات اور فلمیں الگ اپنا بدترین نقش بٹھا رہے ہیں۔ غیرت رخصت، اور بے ہودگی پر فخریہ بیان۔ اس سب کے اثرات و نتائج سانحۂ قصور کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو یہی فحش پھیلانے کے ذمے دار معزز بن کر جرائم کی روک تھام کے لیے ایسے مشورے دیتے ہیں جو غیرت کا مزید جنازہ نکال دیں۔ چوری اور اس پر سینہ زوری۔
اچھی طرح جان لیجیے کہ دشمن کے یہ مقامی ایجنٹ دشمن سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ دشمن کہیں بچوں کو ہتھیار سے قتل کررہا ہے، کہیں اس کا اندازِ قتل ہی دوسرا ہے کہ جن بچوں کو وہ مارے انہیں خبر ہی نہ ہو، مگر جاننے والے والدین تشویش میں مبتلا ہیں۔
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
اور اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
جہاں یہ قاتل بے دردی، تشدد اور فحاشی کے جراثیم پھول سے بچوں میں داخل کرکے انہیں قتل کررہے ہیں، بغیر خون بہائے مارتے جا رہے ہیں… کبھی وڈیو گیمز کے ذریعے، کبھی فیس بک کی صورت میں،کہیں کارٹون فلمز کے کرداروں میں بچوں کے دلوں میں اتر کر انہیں نکما، نافرمان اور بدتمیز بنا رہے ہیں۔ اور ٹچ موبائل نے تو اندھیر ہی مچا دیا۔ ’’یلغار سی یلغار ہے چہار طرف۔‘‘
مگر اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مزاحمتیں جاری ہیں۔ باشعور دل و دماغ رکھنے والے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ بند باندھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں نارتھ کراچی میں چاند تاروں کی ایک محفل سجائی گئی جو شب کی تاریکی میں روشنی کی ایک کرن تھی۔ نارِ نمرود کو بجھانے میں حصہ دار چڑیا کی چونچ ایک قطرہ ضرور تھی۔ اس بزم کا اہتمام جماعتِ اسلامی شعبۂ اطفال نے شعبۂ نشرواشاعت کراچی کے تعاون سے کیا۔ بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی مائیں بھی موجود تھیں۔ انہوں نے بھی پروگرام میں بھرپور دلچسپی لی۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض شعبۂ اطفال کی عائشہ صدیقہ نے انجام دیے۔ پیاری بچی شزا نے تلاوتِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ جویریہ صدیق کی نعت خوانی نے سماں باندھ دیا
’’میں اپنے نبیؐ کے کوچے میں چلتا ہی گیا، چلتا ہی گیا‘‘
شعبۂ اطفال کی نگراں رضوانہ نعیم نے ماؤں اور بچوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارا دین انصاف، امن و سلامتی، انسانی خیر اور فلاح کا ضامن ہے‘‘۔ امن کی علامت فاختہ کی مثال دے کر انہوں نے سمجھایا کہ وہ کنویں میں گھونسلہ بناتی ہیں۔ انڈوں سے بچے نکلنے سے پہلے نر و مادہ 52 پروازیں لیتے ہیں اور کنویں سے باہر آتے ہیں۔ مگر بچے نکلنے کے بعد وہ 57 پروازیں لیتے ہیں تاکہ بچے اڑان بھرنا سیکھ جائیں ورنہ وہ کنویں میں گر کر مرجائیں۔ ہم سب راعی (چرواہا) ہیں اور رعیت کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا۔
آج کی مائیں بچے کی خوراک کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں اور پھر بھی کہتی ہیں کہ کھانا ہی نہیں کھاتا۔ پھر دنیاوی تعلیم کے لیے اسکول اور کوچنگ سینٹر کے پھیرے لگتے ہیں۔ تربیت اور اس کا ماحول بنانا تو ماؤں کی ذمے داری ہے، اور مائیں بچوں کو فضول تفریحات کے حوالے کرکے خود کو فارغ سمجھتی ہیں۔ جب بچے نافرمان اور بدتمیز ہوجاتے ہیں تو جی بھر کر صلواتیں سناتی ہیں۔
عبدالرحمن السدیس، امامِ کعبہ بچپن میں بہت شرارتی ہوتے تھے۔ ان کی والدہ تنگ آکر غصے میں انہیں دعا دیتیں ’’اللہ تجھے امامِ کعبہ بنائے‘‘۔ ماں کی تڑپتی دعا قبول ہوجاتی ہے۔
بچوں پر سختی کریں اور اچھی بات کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہود کی سازش ہے کہ بچے تباہ ہوجائیں۔ آپ غور کریں کہ ان کے اقدامات کے خلاف ہم کیا تدبیر کررہے ہیں؟ کیونکہ یہ پھول ہمارے ہی گلشن کے ہیں۔
نبیہا نے ’’تم شہرِ اماں کے رہنے والو درد ہمارا کیا جانو‘‘ ترانہ کشمیری بھائیوں کے نام کیا۔ بھارتی جارحیت اور مظلوم کشمیری مجاہدین کے فولادی جذبوں کی عظیم داستانیں بھی محفل کا حصہ تھیں۔ معاذ نے نعت سنائی۔
’’یارانِ جہاں کہتے ہیں، کشمیر ہے جنت‘‘ کے عنوان پر پُرجوش تقریر ہوئی جسے بھرپور داد ملی۔ چھوٹے سے عبداللہ نے ’’ وطن ہمارا آزاد کشمیر‘‘ کا ترانہ سنایا۔ چھٹی جماعت کی طالبہ خولہ نے ’’ ہم آزاد ہیں… کشمیر کیوں آزاد نہیں؟‘‘ کے موضوع پر تقریر کرکے محفل کو گرما دیا۔
شعبۂ نشرو اشاعت کی نگراں نگہت یاسمین نے ’’حیا خیر لاتی ہے‘‘ کے عنوان سے بچوں کی کاؤنسلنگ کی۔ انہوں نے کہا: سیپ کے اندر موتی اتنی مضبوطی کے ساتھ چپکا رہتا ہے کہ چھری سے نکالنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہر بچے، ہر بڑے کے دل میں حیا کا فطری عنصر موجود ہے جسے بڑے پیمانے پر نکالنے کو کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے جو چھری استعمال ہورہی ہے وہ کیا ہے؟ بچوں کی طرف سے آواز آئی ’’ٹی وی، موبائل، انٹرنیٹ‘‘۔ ہوشیار! خبردار! ہتھیاروں میں مزا نظر آتا ہے، مگر یہ بہت مہلک ہیں۔ انہوں نے کشمیر کی داستانِ حریت کے بارے میں کہا کہ دنیا بھر میں ایسی تحریک کی مثال نہیں ملتی۔
کرن اور جویریہ صدیق نے جب ترانہ ’’گرچہ کاشمیر میں ستم کی گھور رات ہے‘‘ سنایا تو شرکا کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ ماریہ صدیق نے بھی کشمیری ترانہ سنایا۔
زون نارتھ کراچی کی ٹیم کی رکن طلعت سعید نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے فکرانگیز گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ہمیں اپنے ادارے امانت دار لوگوں کے سپرد کرنے ہوں گے۔
دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔
’’شب کی سیاہی کتنی گہری ہو، ستارے تو اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں‘‘