انعامی مقابلے کا اعلان

234

اپنی بات۔  ۔ ۔ غزالہ عزیز۔ ۔ ۔ ۔ انچارج صفحہ خواتین
بعض دفعہ غیر اہم چیزیں کمال کردیتی ہیں، جب کہ کمال معمولی نہیں ہوتا۔ یعنی عظیم اہمیت کے کام بعض دفعہ معمولی باتوں سے معرضِ وجود میں آجاتے ہیں۔ سیب کے گرنے سے کشش ثقل کا نظریہ نیوٹن نے کھوج نکالا۔ اس معاملے میں لوگ کہتے ہیں کہ سیب کے بجائے اگر اس موقع پر ناریل ہوتا تو کیا ہوتا؟ جناب وہی ہوتا جو منظور خدا ہوتا۔
کمپوزر صاحب سے التماس ہے کہ ہوتا میں ’’ک‘‘ کا اضافہ نہ کر جایئے گا، ورنہ غلطی تو جملے کی ہوگی لیکن ساتھ ہجے کی بھی ہوگی، کیوں کہ ہمارے خیال میں کہوتا نہیں، کھوتا ٹھیک لفظ ہے۔ چلیے یہ معاملہ بھی ہم اپنے ایڈیٹر اور استاد ہاشمی صاحب پر چھوڑ دیتے ہیں، ساتھ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ غلطیاں تو ہم سے ہوتی ہیں کیونکہ صرف وہی لوگ غلطی نہیں کرتے جو کچھ نہیں کرتے، اور جو سیکھنا چاہتے ہیں وہ غلطی بھی کرتے ہیں، لیکن ہماری غلطیاں ہم کو کچھ ایسی بھاری پڑتی ہیں کہ نصف الدنیا کی ایڈیٹر بھی بنادیا جاتا ہے (بس یہ اطلاع ہمارے اپنے ایڈیٹر صاحب کے لیے ہے) باقی لوگ چاہیں تو اس پر توجہ نہ دیں۔
بادلوں کا گھِر آنا، بارش کی بوندیں، پھر بوندوں کی لڑی، کچی چھتوں پر ان کا جلترنگ، ہریالی کی سرخوشی، پودوں کا نہانا اور نیا سرسبز لباس زیب تن کرنا… یہ فطرت کی مسرت کی کیفیت کا اظہار ہی تو ہے۔ بہار اور پھر خزاں قانونِ فطرت ہر ایک کے لیے ہے۔ مشکل، پریشانی آتی ہے۔ غربت، محتاجی، ہماری معذوری، ذلت و رسوائی، قید و بند انسانوں کی زندگی کی خزاں ہی تو ہے۔ ایسے میں لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ غم کے سمندر میں ایسے ڈوبتے ہیں کہ ساحل ہاتھ سے چھُوٹا جاتا ہے۔ مصائب کا کوئی مداواہ نظر نہیں آتا (یہاں شاید پھر غلطی ہوگئی ہے، مداواہ ہوگا یا مداوا؟) خیر اس دفعہ لازمی استادِ محترم کے کمرے میں رکھی 10 کلو کی لغت میں دیکھیں گے۔ ویسے سچی بات ہے کہ بعض دفعہ لغت بھی کچھ کنفیوژ کردیتی ہے، ایسے میں ہاشمی صاحب کو ہی فون ملانا پڑتا ہے۔
بعض دفعہ تو یہ بات تسلیم کرتے ہی بنتی ہے کہ کچھ مشکلات اور مصائب ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی حل نہیں ہوتا سوائے ’’صبر‘‘ کے… ایسے میں اپنے آپ کو مخاطب کرکے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج اگر زمانہ ترش رو ہے تو کل خندہ رو بھی ہوسکتا ہے، چنانچہ مسکرائو اور خوش رہو… صبر اسی کا نام ہے کہ تمہارے غم کی اطلاع تمہاری طرف سے سوائے خدا کے کسی کو نہ پہنچ پائے۔ خوشی کو غم، اور غم کو خوشی میں بدل ڈالنے کی قوت کیا اس کے سوا کسی کے پاس ہے؟ اگر نہیں، اور ظاہر ہے کہ نہیں، تو پھر کیا ضروری ہے کہ غم و اندوہ کا خود حساب کتاب کیا جائے اور باقی عمر اذیت میں گزاری جائے۔ حالات کا بوجھ مسکرا کر اٹھا لینا ہی بہادری ہے۔ گردشِ ایام میں کوئی اکیلا نہیں، ایک زمانہ ہے جو سرد و گرم دونوں کی طویل غلام گردشوں میں چکر لگاتا رہتا ہے۔ چنانچہ افسردگی کا لبادہ اتار کر قیمتی لمحات غموں اور دکھوں کے حساب کتاب کی نذر نہ کریں۔ سچ ہے کہ اگر وہ وقت کامیاب لوگوں کے کردار، اطوار اور مہارتوں کے جائزے میں گزاریں تو کامیابی کا ایک زینہ تو بآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ خوشی، مسرت کامیابیوں سے حاصل ہوتی ہے، اور کامیابی کے لیے مہارتوں کو سیکھنا، پھر ان کو اپنے معمولات کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
مہارتوں کو نکھارنے کے لیے صفحہ خواتین کے تحت مضمون نگاری اور افسانہ نگاری کے مقابلے 2018ء کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ افسانہ نگاری کے لیے عنوان ہے ’’عورت کہانی‘‘ اور مضمون نگاری کا عنوان ’’عزمِ جواں‘‘ ہے۔ مضمون یا افسانہ 2 ہزار الفاظ تک لکھا جاسکتا ہے۔ نگارشات بھیجنے کی آخری تاریخ 31 جون 2018ء ہے۔

حصہ