نئے شاعر ۔۔ ۔۔ معید مرزا

595

 اسامہ امیر

معید مرزا 18 دسمبر 1990 میں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے، انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے 2010 – 2014 میں انجینئرنگ کی اور آجکل شارجہ(متحدہ عرب امارات) میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہیں اور سول انجینئر کی جاب کررہے ہیں، آپ نے شاعری کا آغاز 2013 سے کیا، آپ کی پسندیدہ صنف غزل ہے اس کے علاوہ نظم، عشرہ میں بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں اور بڑی خوبصورتی سے نبھاتے بھی ہیں، آپ کے ھاں جہاں جہاں جدیدیت کے عناصر پائے جاتے ہیں وہاں وہاں روایت سے جڑے بھی ملتی ہے، آپ غزل کو مختلف رنگ سے پینٹ کرنے کے ہنر سے واقف ہیں، آپ بڑی بحروں میں اشعار کہنے کو اپنا آسان اظہاریہ سمجھتے ہیں اور ’’ردیف‘‘ کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتے بھی ہیں آئیے چلتے ہیں معید کی غزلوں کی طرف اور لطف اندوز ہوتے ہیں

تکیہ لگا کے بیٹھ کر بان کی چارپائی پر
تبصرہ کر رہے ہیں لوگ اللہ تری خدائی پر
٭
نوکری ڈھونڈنے ادھار لے کے چلا تو جاؤں میں
باتیں کریں گے سارے لوگ بوجھ پڑے گا بھائی پر
٭
گاؤں کے لوگ آج بھی اس کو امیری کہتے ہیں
کھانا الگ چٹائی پر پڑھنا الگ چٹائی پر
٭
سلگ رہے ہیں پرانی تصویر کے کنارے
ہمارے جسموں کے رنگ پانی سے مل رہے ہیں
٭
ہم ایک مدت کے بعد اپنے گھروں سے باہر
گلی میں بچوں کی بدزبانی سے مل رہے ہیں
٭
ہوا بھی ڈھونڈنے لگ جائے گی نیا رستہ
میں اس کے جسم کو اتنا قریب لاؤں گا
٭
کئی نشان مرے دل پہ چھوڑنے والے
میں ایک زخم ترے ہونٹ پر لگاؤں گا
٭
ہمارے اس سوال کا جواب ہے کہ ہے نہیں
پرانا کوئی خواب زیر آب ہے کہ ہے نہیں
٭
مشاہدے کے ساتھ ایک، فائدے کی بات ہے
یہ سرخ رنگ کا فضول خواب ہے ، کہ ہے نہیں
٭
یہ چھوڑ کون کس جگہ پہ مر گیا تو یہ بتا
سماعتوں میں نغمۂ رباب ہے کہ ہے نہیں
٭
جاتے ہوئے فقیر نے کتنی دعائیں دیں ہمیں
ہم سے تو ایک وقت کا کھانا نہیں دیا گیا
٭
ہوٹل کی انتظامیہ کا شکر ادا کرو میاں
اس رات تم کو ہجر کا کمرہ نہیں دیا گیا
٭

حصہ