بات یہ ہے ۔ ۔ ۔

267

 عبدالرحمان مومن

صبح کے نو بجے عامر کے دروازے پرعلی دستک دے رہا تھا۔ آج اسے بازار جا کر اپنے لیے سائیکل خریدنا تھی۔ رات ہی میں اس نے اپنے دوست عامر سے کہہ دیا تھا کہ میں صبح تمھارے ساتھ بازار جاؤں گا۔

عامر نے دروازہ کھولا اور علی کو سلام کیا۔ ’’یار آج تُم سائیکل نہ خریدو ۔ میں نے آج کے اخبار میں تمھارے ستارے کی چال پڑھی ہے۔‘‘ عامر نے علی کو بتایا۔

’’اچھا ،کیا چال چل رہا ہے میرا ستارہ؟‘‘علی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’ میں نے پڑھا ہے جس کا ستارہ کینسر ہے اُسے آج کسی قسم کی خرید و فروخت نہیں کرنی چاہیے ۔ تمھیں آج لین دین میں نقصان ہوگا۔‘‘ عمار نے ستارے کی چال بتائی۔

’’ہاہاہا، ارے یار تم بھی کن چکروں میں پڑگئے۔یہ ستارے بے چارے تو بس وہی چال چلتے ہیں جو ان کا مالک انھیں حکم دیتا ہے۔ ان بے چاروں کو کیا معلوم کہ میرے لیے کیا نقصان دہ ہے ۔ یہ تو ایک دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔‘‘علی نے عامر سے ہنستے ہوئے کہا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ شعر سُنایا۔

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخئی افلاک میں ہے خوار وزُبوں

حصہ