بونوں کا تحفہ

229

 احمد عدنان طارق

معاذ کو دو سال پہلے اس کی سالگرہ کے موقع پر چچا نے تحفے میں سائیکل خرید کر دی تھی۔ جب تک وہ نئی تھی بہت ہی خوب صورت دکھائی دیتی تھی۔ وہ اپنے رنگ کی وجہ سے چاندی کی طرح چمکتی تھی۔ اس کے ہینڈل پر ایک بہت ہی خوب صورت آواز والی گھنٹی لگی ہوئی تھی۔
جب اسے ڈھلوان پر سائیکل چلانی ہوتی توسائیکل روکنے کے لیے بڑا جان دار بریک بھی موجود تھا۔ ہینڈل کے درمیان اندھیرے میں دیکھنے کے لیے لائٹ بھی لگی ہوئی تھی، لیکن دو سال گزرنے کی وجہ سے وہ بوسیدہ ہو چکی تھی۔ اب نہ اس کی لائٹ جلتی تھی اور نہ اس کی گھنٹی بجتی تھی۔
ایک دن معاذ نے سائیکل کودیکھا تو فیصلہ کیا کہ آج وہ اسے اچھی طرح صاف کر کے رہے گا۔ اس کی بہت خواہش تھی کہ کاش وہ سائیکل پر نئی گھنٹی خرید کر لگا سکے تاکہ جب وہ گھنٹی بجائے تو دور سے لوگوں کو پتا چل جائے کہ اس کی سائیکل آرہی ہے۔
اس نے بڑی محنت سے کام کیا اور شام کے کھانے تک اس کی سائیکل نئی جیسی لگ رہی تھی۔ اس کی امی بازار سے خریداری کے بعد واپس آئیں اور سائیکل کو دیکھا۔ وہ بولیں: معاذ! میرے پاس تمہاری سائیکل پر لگانے کے لیے ایک تحفہ ہے۔ ذرا دیکھو۔
وہ سائیکل کے آگے لگانے والی ٹوکری تھی، جس میں چھوٹی موٹی چیزیں رکھی جاسکتی تھیں۔ معاذ کو سخت مایوسی ہوئی، پھر بھی اس نے بڑی خوش دلی سے امی کاشکریہ ادا کیا۔ پھر اس نے اپنی سائیکل پر ہینڈل کے آگے ٹوکری لگائی، لیکن اب بھی اس کے دماغ میں سائیکل کی نئی گھنٹی ہی گھوم رہی تھی۔
شام کے وقت معاذ اپنی چمکتی سائیکل پر سوار ہو کرسیر کے لیے نکل پڑا۔ قصبے کے قریب ایک جنگل تھا۔ جنگل میں اسٹرابیریوں کی بھرمار تھی۔ بڑی بڑی، رس سے بھری اور سرخ اسٹرابیریاں۔ معاذ جلدی جلدی انھیں توڑنے لگا۔ اچانک اس نے اسٹرابیری کی جھاڑیوں کے قریب بہت سے ننھے منے بونے دیکھے، جوسبز رنگ کی پتلونیں اور سرخ رنگ کی قمیض پہنے ہوئے تھے۔
وہ تعداد میں سات تھے اور بہت جلدی میں لگ رہے تھے۔ معاذ ان کی آواز سننے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک بولا: ہمیں بہت دیر ہوگئی ہے، مجھے یقین ہے ہم وقت پر نہیں پہنچ سکتے۔
دوسرا بولا: میں ہرگز وہ تقریب نہیں چھوڑ سکتا۔
ایک اور بونے نے کہا: ہم صبح ہی وقت کا خیال کرتے تو دیر نہ ہوتی۔
مجھے راستہ اچھی طرح یاد ہے، لیکن پھر بھی ہمیں دیر ہو جائے گی۔
اچانک ان ننھے بونوں کی نظر معاذ کی قریب کھڑی ہوئی سائیکل پر پڑی۔ انھوں نے خوش ہو کر سائیکل کی طرف اشارہ کیا۔ ایک بونے نے کہا: دیکھو یہاں ایک سائیکل موجود ہے، جس کی اس وقت ہمیں شدت سے ضرورت ہے۔
آؤ اسے جادو سے چھوٹا کرلیتے ہیں۔ تم سب کو بٹھا کر میں اسے تیزی سے چلاتا ہوں تاکہ ہم وقت پر تقریب میں پہنچ جائیں۔ مجھے پتا ہے کہ اسے چھوٹا کیسے کرنا ہے۔ تمام بونے سائیکل کے نزدیک اکھٹے ہوگئے۔
ابھی معاذ حیران ہو رہا تھا کہ ایک بونے نے ہاتھ میں جادو کی چھڑی سنبھالی اور جادو کرنے لگا۔
معاذ فوراً چلایا: ارے! ارے یہ کیا کررہے ہو؟ یہ میری سائیکل ہے۔ اگر تم نے اسے چھوٹا کردیا تو اسے کیسے چلاؤں گا۔
بونے خوف زدہ ہوکراس کی طرف دیکھنے لگے۔ انھوں نے بھاگنے یا چھپنے کی کوشش نہیں کی، لیکن ان کی آنکھوں سے افسوس صاف جھلک رہا تھا کہ وہ سائیکل استعمال نہیں کرسکتے۔
ایک بونے نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا: بڑی مشکل سے تقریب میں وقت پر پہنچنے کا ایک حل نکلا تھا۔ مایوس ہوکر بونے مڑنے اور جانے لگے۔
اسی وقت معاذ کے ذہن میں ایک عمدہ ترکیب آئی۔ وہ چلایا:‘ رکو، رکو۔ میں تمھیں تقریب میں لے جا سکتا ہوں۔
میں تمھیں بڑے آرام سے اپنی سائیکل کی ٹوکری میں سوار کرلیتا ہوں۔ تم بڑے آرام سے ٹوکری میں بیٹھ جاؤ گے۔ تم میں سے ایک مجھے راستہ بتائے گا اور ہم جلدی سے تقریب میں پہنچ جائیں گے۔
بونے آپس میں باتیں کرنے لگے۔ ان کی آوازیں بہت دھیمی تھیں۔
وہ بولے: یہ ٹھیک ہے پیارے لڑکے! ہمیں لے چلو۔ ہم بڑے آرام سے ٹوکری میں بیٹھ سکتے ہیں۔
معاذ نے بڑے پیارا اور احتیاط سے ایک ایک بونے کو ہاتھوں میں اٹھا کر ٹوکری میں بٹھایا۔ اب اسے بڑی خوشی ہو رہی تھی کہ امی نے اسے ٹوکری تحفے میں دی تھی۔
جب سب بونے ٹوکری میں سکون سے بیٹھ گئے تو معاذ نے گدی پر بیٹھ کر پاؤں سائیکل کے پیڈل پررکھ لیا اور کہا: اب آپ میں سے کوئی ایک مجھے راستہ بتاتا جائے۔
بونوں میں سے ایک کھڑا ہوگیا اور راستہ بتانے لگا۔ معاذ تیزی سے سائیکل چلانے لگا۔
راستہ اگرچہ تنگ ہوتا جارہا تھا، لیکن پھر بھی سائیکل کی رفتار میں کمی نہیں آئی۔ بونوں کو راستہ معلوم تھا۔ آخر وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے۔ وہ درختوں کے درمیان ایک سرسبز چھوٹاسا میدان تھا۔ وہاں بہت سے بونے، پریاں، پری زاد جمع تھے۔
معاذ حیرت سے انھیں دیکھتا ہی رہ گیا۔ بونوں نے کہا: شکریہ بچے! ہم تمھیں اس نیکی پر انعام بھی دیں گے۔ اب مہربانی کرکے گھر روانہ ہوجاؤ، کہیں تمھیں دیکھ کر ہمارے دوست نہ ڈر جائیں۔
معاذبولا: لیکن راستہ اتنا لمبا اور اس میں اتنے موڑ تھے کہ میں بھول گیا ہوں۔
سارے بونے ٹوکری سے اتر آئے تھے۔ ان میں سے ایک بولا: لیکن تمھاری سائیکل راستہ جانتی ہے۔ اس نے پہیے پرہاتھ پھیرا اور کہنے لگا: گھر سائیکل گھر۔
معاذ نے حیرت سے دیکھاکہ سائیکل نے اپنا رخ خود بخود تبدیل کرلیا۔
معاذ گدی پر بیٹھا تو سائیکل خود بخود راستے پر رواں دواں ہوگئی اور جلد ہی وہ اس مقام پر پہنچ گیا۔ جہاں کچھ دیر پہلے وہ اسٹرابیریاں جمع کررہا تھا۔ سائیکل وہاں پہنچ کر رک گئی۔ معاذ نے سوچا کہ کتنا حیرت انگیز واقعہ تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اس کہانی پرکوئی یقین نہیں کرے گا، اس لیے بہتر ہے کہ میں کسی کو بھی نہ بتاؤں۔
گھر آکر اس نے سائیکل ایک جگہ کھڑی کردی۔ صبح جب وہ سائیکل لینے گیا تو اس کی سائیکل کے ہینڈل پر ایک انتہائی خوبصورت اور بڑی گھنٹی لگی ہوئی تھی۔ جو کبھی معاذ نے تصور میں بھی نہیں سوچی تھی۔ اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ ایک میل دور تک سنائی دیتی تھی۔
اس پر ایک رقعہ بندھا ہوا تھا، جس پر لکھا ہواتھا: سات بونوں کی طرف سے۔
سب جاننا چاہتے تھے کہ اتنی خوبصورت گھنٹی معاذ نے کہاں سے لی ہے، لہٰذا معاذ کو سارا واقعہ بتانا ہی پڑا اور سب کو ماننا ہی پڑا، کیوں کہ ایسی عجیب وغریب گھنٹی انھوں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔
nn

حصہ