زبان و ادب کی ترقی میں کراچی کا اہم کردار ہے‘ پروفیسر شاداب احسانی

566

ممتاز شاعر‘ محقق اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا ہے کہ کراچی علم دوست شخصیات کا شہر ہے‘ یہاں کے عوام شعر فہم ہیں‘ اردو زبان و ادب کی ترقی میں ان کا اہم کردار ہے۔ امن وامان کی صورت بہتر ہونے کے سبب اب شہر میں ہر روز کئی کئی ادبی محفلیں ہو رہی ہیں‘ روشنیوں کا شہر آہستہ آہستہ بیدار ہو رہا ہے۔ کراچی کی ادبی رونقین بحال ہو رہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارۂ یادگارِ غالب کے زیر اہتمام فاطمہ ثریا بجیا فائونڈیشن کے تعاون سے غالب لائبریری ناظم آباد کراچی میں منعقدہ محفل مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر اکرام الحق شوق تھے جب کہ ادبی تنظیم اظہار کی روح رواں ممتاز شاعرہ ذکیہ غزل‘ مہمان اعزازی تھیں‘ نظامت کے فرائض حنیف عابد نے ادا کیے‘ تلاوتِ کلام پاک کی سعادت نفیس احمد خان نے حاصل کی۔ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اختر سعیدی نے پیش کی۔ عزیز منصور نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ادارۂ یادگارِ غالب کے منشور میں اردو زبان و ادب کا فروغ شامل ہے اس تناظر میں ہم اپنی کوششوں میں کمی نہیں کرتے ہم نامساعد حالات کے باوجود ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر تمام شرکائے محفل کی تشریف آوری پر شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے کہ اکہ آج کے مشاعرے میں بہت اچھی شاعری پیش کی گئی‘ نئے نئے مضامین سامنے آئے ہیں۔ آج کی محفل میں سامعین کی کثیر تعداد موجود ہے باالفاظ دیگر عوام شاعری میں دلچسپی لیتے ہیں جب ہی تو ہماری زبان و ادب ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ ذکیہ غزل نے کہا کہ اس نفسانفسی کے دور میں وقت نکالنا بہت مشکل ہے آپ سب لوگ میری تقریب پزیرائی میں شریک ہوئے آپ کا بہت شکریہ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مرتبہ کراچی میں کافی دنوں تک ٹھہر گئی ہوں جس کی وجہ سے میرے اعزاز میں سولہ‘ سترہ پروگرام ہو چکے ہیں میں ڈاکٹر شاداب احسانی کی ممنون و شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے لیے اتنا شان دار پروگرام ترتیب دیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے وطن سے جانے کو جی نہیں چاہتا لیکن کینیڈا جانا میری ضرورت بن چکی ہے میں وہاں بھی اردو ادب کے لیے سرگرم عمل ہوں خدا مجھے ہمت عطا فرمائے۔ صاحبِ صدر مشاعرہ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے ذکیہ غزل کی شخصیت و فن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری میں گہرائی‘ گیرائی اور تہہ داری نظر آتی ہے ان کے مصرعوں کی اٹھان بتاتی ہے کہ انہیں لفظوں کے دروبست پر دسترس حاصل ہے انہوں نے اپنی محنت و ریاضت کے سبب ادبی منظر نامے میں جگہ بنائی ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج کا مشاعرہ ایک یادگار مشاعرہ ہے یہ پروگرام ڈاکٹر شبیر حسین اور عزیز منصور نے ترتیب دیا تھا ان کے ساتھ اختر سعیدی شامل ہوگئے لہٰذا پروگرام کامیاب ہو گیا۔ میں ان تینوں حضرات کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ پروفیسر اشتیاق طالب‘ رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی‘ فیروز ناطق خسرو‘ صفدر صدیق رضی‘ غلام علی وفا‘ وضاحت نسیم‘ اختر سعیدی‘ سید معراج جامی‘ ڈاکٹر نثار‘ خالدہ عظمیٰ‘ گل انور‘ کشور عدیل جعفری‘ الحاج نجمی‘ وقار زیدی‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ تنویر سن‘ یاسر سعید صدیقی‘ ذوالفقار پردار‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر اور مہر جمالی نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

 

حصہ