سید مہرالدین افضل
۔ 42واں حصہ
(تفصیلات کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر :85: 86 : 87 :88 :89 :91 : 92)
سورَۃ الاعرَاف آیت 104 تا 124 میں ارشاد ہوا :۔ موسیٰ نے کہا’’اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا گیا ہوں، میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریّت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تُو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔‘‘
فرعون نے کہا ’’ اگر تُو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر۔‘‘
موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔
اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’ یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے، تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو؟‘‘ پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہرِ فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں۔ چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔
اْنہوں نے کہا ’’ اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟‘‘
فرعون نے جواب دیا’’ہاں! اور تم مقربِِ بارگاہ ہو گے۔ ‘‘
پھر اُنہوں نے موسیٰ سے کہا’’ تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟‘‘
موسیٰ نے جواب دیا’’تم ہی پھینکو۔‘‘
انہوں نے جو اپنے آنچھر پھینکے تو نگاہوں کومسحُور اور دلوں کو خوف زدہ کر دیااور بڑا ہی زبر دست جادُو بنا لائے۔
ہم نے موسیٰ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھْوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا۔
اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا۔
فرعون اور اْس کے ساتھی میدانِ مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور فتح مند ہونے کے بجائے الٹے ذلیل ہوگئے اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے اْنہیں سجدے میں گرادیا۔ کہنے لگے’’ہم نے مان لیا ربّ العالمین کو ، اْس ربّ کو جسے موسیٰ اور ہارون مانتے ہیں۔‘‘
فرعون نے کہا ’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ؟ یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اِس دار السّلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو۔اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سْولی پر چڑھاوںگا۔‘‘
انہوں نے جواب دیا ’’بہر حال ہمیں پلٹنا اپنے ربّ ہی کی طرف ہے۔ تْو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے ربّ کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ اے ربّ ، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اْٹھا اِس حال میں کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں۔
درج بالا آیات کے مطالعے کے بعد درج ذیل نکات پر غور فرمایئں۔
1۔ قیامت تک فرعون پیدا ہوتے رہیں گے اور ان کے مقابلے میں اہل حق کو موسٰی کا کردار ادا کرنا ہو گا۔۔۔ قرآن مجید قیامت تک کے لیے ہدایت ہے اس لیے قرآن مجید میں حضرت موسٰی کا ذکر بہت کثرت سے آیا ہے اور ظاہر ہے فرعون کا ذکر بھی ساتھ ہی ہے۔
2۔ایک بے سر و سامان شخص صرف اپنے بھائی کے ساتھ خدا کے حکم سے ایک لاٹھی اور چمکتا ہوا ہاتھ لے کر پہنچ جاتا ہے۔۔۔قران مجید میں جہا ںیہ ذکر ہے اس حصے کی تلاوت کرنا اور اس کا مطلب سمجھ کر داد دینا بہت آسان ہے۔۔۔ لیکن اس ہمت و جرات کی اصل حقیقت وہی سمجھ سکتے ہیں جو کسی ظالم و جابر مقتدر ہستی کے سامنے کوئی چھوٹا سا بھی جائز مطالبہ لے کر گئے ہو ں۔۔۔ کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔۔۔ تو معرکہ فرعون و کلیم سے رہنمائی وہی حاصل کر سکتا ہے جو خدا کے بھروسے پر وقت کے فرعون کے سامنے جانے کی تھوڑی سی ہمت تو رکھتا ہو۔
3۔فرعون اور اس کے درباریوں کی چالبازیاں دیکھیے۔۔۔ اور یہ بھی! کہ کس طرح ان کی چالیں ان ہی پر الٹ گئیں۔حضرت موسیٰ کی شخصیت سے وہ خوب واقف تھے۔ ان کی پاکیزہ اور مضبوط سیرت ، ان کی غیر معمولی قابلیت ،ا ور قیادت و فرماں روائی کی پیدائشی صلاحیت کا سب کو علم تھا۔اِن پیدائشی قابلیتوں کے علاوہ انہوں نے فرعون کے ہاں علوم وفنون اور حکمرانی و سپہ سالاری کی وہ پوری تعلیم و تربیت بھی حاصل کی تھی جو شاہی خاندان کے افراد کو دی جاتی تھی۔ اور زمانہ شاہزادگی میں حبش کی مہم پر جا کر وہ اپنے آپ کو ایک بہترین جنرل بھی ثابت کر چکے تھے۔۔۔۔فرعون اور اس کے درباریوں کے ذہن میں خدا ئی نشان اور جادو کا فرق واضح تھا۔ وہ جانتے تھے کہ خدائی نشان سے حقیقی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور جادو صرف نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے اسے خدائی نشانی ماننے کے بجائے جادو قرار دیا۔۔۔ اور فیصلہ کیا کہ لاٹھیوں اور رسیوں کو سانپوں میں تبدیل کر کے لوگوں کو دکھا دیا جائے۔۔۔اور اس وقت تک انہیں نظر بند کردیں تا کہ یہ باہر جاکر عوام کو اپنے طور پر معجزہ نہ دکھا سکیں۔انہوں نے تمام ملک کے ماہر جادوگروں کو بلا کر منظر عام پر اس لیے مظاہرہ کرا یا تھا کہ عوام کوحضرت موسیٰ کے جادوگر ہونے کا یقین دلائیں۔۔۔ یا کم از کم شک ہی میں ڈال دیں۔ لیکن اس مقابلے میں شکست کھانے کے بعد خود اُن کے اپنے بلائے ہوئے ماہرین فن نے بالا تفاق فیصلہ کردیا کہ حضرت موسیٰ جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ ہر گز جادو نہیں ہے بلکہ یقناً ربّ العالمین کی طاقت کا کرشمہ ہے جس کے آگے کسی جادو کا زور نہیں چل سکتا۔ ظاہر ہے کہ جادو کوخود جادوگروں سے بڑھ کر اور کون جان سکتا تھا۔ پس جب انہوں نے عملی تجربے اور آزمائش کے بعد شہادت دے دی کہ یہ چیز جادو نہیں ہے، تو پھر فرعون اور اس کے درباریوں کے لیے عوام کو یہ یقین دلانا نا ممکن ہو گیا کہ موسیٰ ایک جادوگر ہے۔فرعون نے آخری چال یہ چلی تھی کہ اس سارے معاملے کو موسیٰ اور جادوگروں کی سازش قراردے دے۔۔۔اور پھر جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر ان سے اپنے اِس الزام کا اقبال کرالے۔ لیکن یہ چال بھی اْلٹی پڑی۔ جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے ثابت کر دیا کہ اْن کا موسیٰ علیہ السلام کی صداقت پر ایمان لانا کسی سازش کا نہیں بلکہ سچے اعتراف حق کا نتیجہ تھا۔ اب اْس کے لیے کوئی چارہ کار اس کے سوا باقی نہ رہا کہ حق اور انصاف کا ڈھونگ جو وہ رچانا چاہتا تھا اسے چھوڑ کر صاف صاف ظلم و ستم شروع کردے۔
4۔جادو گرو ں کی استقامت دیکھیے۔۔۔ جب ان پر حق واضح ہو گیا تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔۔۔اور پھر اس پر کیسی استقامت دکھائی۔۔۔ تھوڑی ہی دیر پہلے انہی جادوگروں کی ڈھٹائی کا یہ حال تھا کہ اپنے دینِ آبائی کی نصرت و حمایت کے لیے گھروں سے چل کر آئے تھے۔۔۔اور فرعون سے پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ کے حملے سے بچالیا تو سرکار سے ہمیں انعام تو ملے گا نا؟ یا اب جو ایمان کی نعمت نصیب ہوئی تو انہی کی حق پرستی اور اولواالعزمی اس حد کو پہنچ گئی۔۔۔ کہ تھوڑی دیر پہلے جس بادشاہ کے آگے لالچ کے مارے بچھے جارہے تھے اب اس کی کبریائی اور اس کے جبروت کو ٹھوکر مار رہے ہیں۔۔۔ اور اْن بد ترین سزاؤں کو بھگتنے کے لیے تیار ہیں جن کی دھمکی وہ دے رہا ہے۔۔۔مگر اس حق کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی صداقت ان پر کھل چکی ہے۔آج وقت کے فرعونو ں کے ساتھ کتنے ہی جادو گر ہیں جو جان جاتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں موسوی کردار ادا کرنے والے حق پر ہیں لیکن وہ ہیں۔۔۔ کہ ایمان لانے کے بجائے مزید سحر طرازیاں کرتے ہیں ۔۔۔ اب وہ کتنی ہی مرتبہ ان آیات کو پڑھیں اگر وہ زمینی حقائق کے خلاف کھڑے ہوئے کسی موسٰی کو حق پر نہیں مان سکتے تو ان میں ان کے لیے ہدایت کہاں ہو گی۔
5۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں بادشاہوں نے اپنی حکومت کو منوانے کے لیے انسان کی کمزوریو ں کو استعمال کیا ہے۔۔۔ قدیم جاہلیت میں فرعون و نمرود انسا ن کی وہم پرستی اور گمان پر ایمان لانے کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے اور انہیں اپنے جبر کے شکنجے میں جکڑتے تھے جب کہ جدید جاہلیت میں انسان کو محسوسات تک محدود کر کے فطرت کو اصل حقیقت قرار دیا جاتا ہے۔۔۔ فرعون کہتا تھا میں سورج دیوتا کی اولاد ہوں۔۔۔ نمر ود کہتا تھا کہ میں زمین پر چاند دیوتا کا نمائندہ ہوں اس لیے حکم میرا چلے گا۔۔۔ آج کے فرعون کہتے ہیں کہ ہم نے فطرت کو تسخیر کر لیا ہے ا س لیے حکم ہمارا چلے گا کیونکہ یہ فطرت کے عین مطابق ہے ۔۔۔ سائنس کے نام پر جو تحقیقات ہوتی ہیں اس کا سب حصہ عوام کے سامنے نہیں لاتے۔۔۔ صرف وہی حصہ پیش کرتے ہیں جو ان کی حکومت اور طرز حکومت کو دوام بخشنے والا ہو۔ ابھی گزشتہ دنوں اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال ہوا اس کی پوری عمر تضاد بیانی میں گذر گئی۔۔۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس نے پلکوں کے اشارے سے جو باتیں کہیں وہ سب جیسا اس نے کہا !!! ہم تک درست طور پر پہنچائی گئیں یا صرف اپنے مطلب کی باتیں بتائی گئیں۔۔۔کیونکہ آج کی سائنس اوراس کے اکتشافات سب وقت کے فرعون کے تابع ہیں اور اسی حد تک بتائے جاتے ہیں جتنا وہ اپنے جبر کو قائم رکھنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ۔اس کا یہ جملہ تو ہم تک پہنچا ہے کہ جلدہی سائنس مذہب کو شکست دے گی۔۔۔ لوگ اس کی زندگی پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ موت سے لڑا اور بہت داد دیتے ہیں !!!لیکن اس پر غور نہیں کرتے کے جس سائنس نے اس سے کہا کہ کہ تم جلد ہی مر جاو گے وہ اسے موت نہ دے سکی ۔۔۔ موت نے سائنس کو کیسی شکست دی !!! ایک ہاکنگ ہی نہیں ہماری روزمرہ زندگی میں اس کی زندہ مثالیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔۔۔اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب “وقت کی مختصر تاریخ” کے اختتام پر اپنی جستجو کا مقصد یہ بتایا تھا کہ” اگر ہم ایک مکمل توحیدی نظریہ دریافت کر لیں تو یہ صرف چند سائنس دانوں کے لیے نہیں بلکہ وسیع معنوں میں ہر ایک کے لیے قابل فہم ہو گا۔۔۔ پھر ہم سب فلسفی ، سائنس دان بلکہ عام لوگ بھی اس سوال پر گفتگو میں حصہ لے سکیں گے کہ ہم اور یہ کائنات کیوں موجود ہیں ؟ اگر ہم اس کا جواب پا لیں تو یہ انسانی عقل کی حتمی فتح ہو گی کیونکہ تب ہم خدا کے ذہن کو سمجھ لیں گے “۔ ہائے تمہیں کیسے بتائیں کہ خدا کی مرضی محسوسات کی دنیا سے ما وراہو کر ہی جانی جاسکتی ہے۔۔۔ اور یہ ان لوگوں نے بتائی ہے جن سے زیادہ ذہین اور سمجھدار۔۔۔ سچے اور دیانتدار۔۔۔ مخلص اور وفا دار انسان زمین پر پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہوں گے۔۔۔ سب نے ایک ہی بات بتائی کہ اس سب کے پیچھے ایک اللہ ہے او ر وہ تم سے اپنی بندگی چاہتا ہے۔کیسے چاہتا ہے؟یہ قرآنِ مجید میں موجود ہے جو ان تمام نیک بندوں کی تعلیمات کا مجموعہ ہے۔۔۔اللہ نے موت اور زندگی کو بنایا تاکہ دیکھے کہ کون اچھا عمل کرتا ہے وہ زندگی اور موت کے فطری طریقہ کار کو متعین کرکے کہیں چلا نہیں گیا۔۔۔ وہ جب چاہے غیر فطری طریقے سے جو چاہے پیدا کر سکتا ہے۔۔۔اسی طرح وہ جب چاہے غیر فطری طریقے سے جسے چاہے اور جب تک چاہے زندہ رکھ سکتا ہے۔
اللہ سُبٰحانہ و تعٰالٰی ہَم سَب کو اَپنے دین کا صحیح فہم بخشے ، اَور اُس فہم کے مْطابق دین کے سارے تقاضے ، اَور مْطالبے پْورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔ وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔