فرحی نعیم
یہ پانچواں فون تھا جسے پچھلے ایک گھنٹے سے وہ ملا رہی تھیں، اور پچھلے ایک ہفتے میں تو نہ جانے کتنے فون وہ مختلف رشتے داروں، دوستوں، عزیزوں اور محلہ داروں کو کھڑکا چکی تھیں۔ مقصد ایک ہی تھا۔ اگرچہ نیک تھا، لیکن تھا بڑا پیچیدہ۔ پیچیدہ یوں کہ ایک ہفتے کی مسلسل جدوجہد کے بعد بھی ناکامی ہی ان کا منہ چڑا رہی تھی، لیکن شاید اس مسلسل بجتی گھنٹی کو سننے والے، ابھی تک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔
’’افوہ! کیا فون خراب ہے یا گھر میں کوئی ہے نہیں؟‘‘ شاہدہ بیگم بڑبڑائیں۔
’’ارے نہ فون خراب ہے اور نہ ہی گھر خالی، بلکہ یہ کون سا وقت ہے صبح صبح فون کرنے کا…؟‘‘ دوسری طرف سے ان کی بڑبڑاہٹ سن لی گئی تھی اور اب ناگواری سے اس کا جواب دیا جارہا تھا (بغیر یہ جانے کہ فون کے دوسری طرف کون ہے)۔
’’اوہ لبنیٰ! یہ تم ہو؟‘‘ شاہدہ بیگم نے آواز پہچانتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں میں لبنیٰ ہوں‘‘۔ لبنیٰ نے جمائی روکتے ہوئے کہا۔ ’’مگر آپ…؟ شاہدہ بھابھی یہ آپ ہیں؟ ارے میں تو پہچانی نہیں، اصل میں اتنی صبح میں فون پر بات نہیں کرتی۔ جسم کے ساتھ دماغ بھی سو رہا ہوتا ہے میرا۔ آپ تو حیدرآباد میں تھیں، کراچی کب آئیں…؟‘‘ لبنیٰ کی آنکھیں ایک دم کھل گئی تھیں۔ بولتے بولتے اب وہ چونک کر پوچھ رہی تھی۔
’’یہ کراچی میں دن کے گیارہ بجے بھی صبح کہلاتی ہے؟‘‘ شاہدہ بیگم نے طنزاً کہا تھا۔ پھر کچھ توقف کیا ’’دو ہفتے پہلے تمہارے بھائی کا تبادلہ دوبارہ کراچی ہوگیا ہے تو ہم پھر سامان سمیٹ کر یہاں آگئے ہیں‘‘۔ لبنیٰ، شاہدہ بیگم کے شوہر کی چچازاد بہن تھیں۔
’’اچھا! اچھا، ہاں یاد آیا پھوپھی جان سے سنا تو تھا کہ فہیم بھائی کا تبادلہ کراچی ہورہا ہے۔ اور آپ کے ہاں سب خیریت ہے؟ دونوں بچے کیسے ہیں؟‘‘ لبنیٰ کو خیر خیریت یاد آئی۔
’’ارے جب سے یہاں آئے ہیں خیریت تو نہ جانے کہاں چلی گئی، مسائل ہیں کہ ختم ہی نہیں ہورہے، فی الحال سب سے بڑا مسئلہ بچوں کے اسکول ایڈمیشن کا ہے۔ تم کو بھی اسی لیے فون کیا ہے کہ تمہارے بچے کہاں جاتے ہیں؟ شہر کے اچھے اسکول کے بارے میں بتا دو‘‘۔ شاہدہ بیگم فوراً ہی اصل مقصد پر آگئی تھیں۔
’’آہ! اچھے اسکول! ویسے تو شہر بھرا پڑا ہے بڑے اسکولوں سے، اب تو گلی گلی، چپہ چپہ اسکول کھل گئے ہیں، بلکہ شہر کے کچھ علاقے تو ایسے ہیں جہاں ہر تیسرا بنگلہ اسکول بن چکا ہے۔ ایک ایک اسکول کے کئی کئی کیمپس کھل چکے ہیں اور ہر کیمپس نہایت کامیابی سے سرمایہ کاری کررہا ہے نسلوں کی نہیں بلکہ پیسے کی‘‘۔ (لبنیٰ نے ساتھ وضاحت دینی ضروری سمجھی) ’’اور چھٹی کے وقت تو پوچھیں نہ، کیسا رش ہوتا ہے۔ ٹریفک جام ہوجاتا ہے سڑکوں پر، کتنی کتنی دیر گاڑیاں پھنسی رہتی ہیں، ہم بھی پھنس جاتے ہیں۔‘‘
’’اوہو میں تم سے یہ سب پوچھ بھی نہیں رہی، مجھے تو شہر کی سڑکوں، گاڑیوں اور ٹریفک کے مسائل بتانے کے بجائے یہ بتائو کہ تمہارے بچوں کا اسکول کیسا ہے؟ کہاں ہے؟ وہاں کا معیارِ تعلیم، ماحول، اساتذہ، انتظامیہ، کینیٹن، ٹرانسپورٹ…؟‘‘
’’آپ کو بچوں کو اسکول میں داخل کرانا ہے بھابھی یا کوئی اسکول کھولنا ہے!‘‘ لبنیٰ نے اکتائے ہوئے انداز میں بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’میرا خیال ہے اسکول کھولنا آسان ہے، اچھا اسکول ڈھونڈنا مشکل…‘‘ وہ واقعی پریشان تھیں۔
’’اصل میں بات یہ ہے کہ میرے بچے تو اسکول جاتے ہی نہیں، ابھی تو وہ مدرسے میں پڑھتے ہیں، جب مدرسے کی تعلیم مکمل ہو؎جائے گی تو میں انہیں اسکول میں داخل کروائوں گی اور پھر آپ کو درست معلومات دے سکوں گی‘‘۔ لبنیٰ کا لہجہ بے نیازی والا تھا۔
’’اُف حد کردی، یہ بات تم مجھے پہلے ہی بتادیتیں، خواہ مخوا میرا اتنا وقت ضائع کیا۔ اچھا خدا حافظ‘‘۔ شاہدہ بیگم بری طرح چڑ گئی تھیں۔ ’’اب کس سے پوچھوں… خاندان اور اس سے باہر اب تو کوئی بھی نہیں بچا جس سے اسکول کے بارے میں معلومات لوں‘‘۔ وہ اب ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے سوچ بچار میں غرق ہوچکی تھیں۔ لیکن اتنا سوچنے کے بعد بھی کوئی ایسا فرد یاد نہیں آرہا تھا جس سے انہوں نے ایک ایسے اسکول کے بارے میں نہ جاننا چاہا ہو جس میں تمام خوبیاں پائی جائیں۔ ’’اُف اب کیا کروں؟‘‘ وہ واقعی فکرمند تھیں۔
…٭…
اصل میں قصہ کچھ یوں تھا کہ شاہدہ بیگم اگرچہ کراچی ہی میں رہتی تھیں، لیکن آج سے سات سال قبل جب ان کی شادی ہوئی تو وہ شادی کے چند ماہ بعد ہی میاں کے تبادلے کی وجہ سے حیدرآباد شفٹ ہوگئیں۔ دو بچے تھے، چھ سالہ احد اور چار سالہ مہک۔ دونوں بچوں کو حیدرآباد میں اسکول میں داخل تو کرا دیا تھا لیکن وہ اس اسکول سے مطمئن نہ تھیں، اور جب ان کو ایک اچھے اور معیاری اسکول کا علم ہوا تو ایک دفعہ پھر فہیم صاحب کے تبادلے کے دفتری احکامات آگئے اور بجائے اسکول میں ایڈمیشن کی تیاری کے، وہ نئے شہر جانے کی تیاری کرنے لگیں… لیکن ذہن میں یہی تھا کہ شفٹ ہونے کے بعد سب سے پہلے ایک ’’بڑے‘‘ اسکول میں بچوں کا داخلہ کرانا ہے تاکہ چار لوگوں کے بیچ وہ بھی فخریہ بچوں کے اسکول کا نام لے سکیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اچھے اسکول میں داخل کرانے کے لیے ان کے ذہن میں جو معیارات اور شرائط تھیں وہ ناقابلِ یقین تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچے ایک ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کریں جہاں کا معیارِ تعلیم بہت بلند ہو، جہاں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جائے، جس کا اسٹاف نیک، ایمان دار، رحم دل اور خدا ترس ہو (جو کہ ناممکن ہے)، جس کی فیس مناسب ہو، اسکول کی عمارت قابلِ دید ہو، صاف ستھرے واش روم، بڑا سا کھیل کا میدان، جھولے، صحت و صفائی کا حامل کینٹین، کشادہ کلاسیں، جو گھر سے بھی دور نہ ہو، تاکہ آنے جانے میں وقت ضائع ہونے سے بچ سکے، اور سب سے بڑھ کر ایسا ہو جہاں بچے چھوٹي عمر سے ہی فرفر انگریزی بول سکیں۔ اب اتنی سخت شرائط کے ساتھ اسکول ڈھونڈنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہورہا تھا، جس کا اندازہ انہیں پچھلے چند دنوں میں ہوگیا تھا۔ جو اسکول گھر سے قریب تھے وہ اتنے معیاری نہ تھے، اور جو معیاری تھے وہ گھر سے بہت فاصلے پر تھے۔ کہیں معیار کے ساتھ فیسیں بھی بلند تھیں، اتنی بلند کہ ان کی پہنچ سے بہت دور تھیں۔ اس فیس میں ان کا پورا گھر چل سکتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں کھلے اسکول انہیں ناپسند تھے جہاں نہ کھیل کا میدان، اور نہ ہی بڑے کلاس روم اور نہ تعلیم یافتہ اساتذہ۔
’’یہ ساری خصوصیات ایک ہی اسکول میں بیک وقت ہونا ممکن نہیں‘‘۔ اُن کی ایک قریبی سہیلی نے جب شاہدہ بیگم کی اسکول سے متعلق ترجیحات سنیں تو ابرو چڑھا کر لاپروائی سے کندھے اچکا کر کہا تھا۔
’’کیوں، اتنا بڑا شہر ہے، ناممکن کیوں…؟‘‘
’’ایسا اسکول تم افورڈ نہیں کرسکو گی، پچیس تیس ہزار فیس ہوگی کم از کم، پھر آئے دن کے دوسرے خرچے الگ، اور پھر دو بچوں کی فیس، ہر ماہ پچاس ہزار دے سکو گی؟‘‘ وہ اطمینان سے پوچھ رہی تھیں۔
’’پچ…پچاس ہزار…‘‘ شاہدہ بیگم تو اچھل پڑیں۔
’’ہاں تو اور کیا! پھر تمہیں یہ بھی چاہیے کہ تمہارے بچے فرفر انگریزی بولیں۔‘‘
’’ہاں بالکل… لیکن یہ تو بہت زیادہ رقم ہے۔‘‘
’’ابھی اس میں وین کی فیس شامل نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں وہ تو پھر میں خود ہی لے آئوں گی۔‘‘
’’اتنی دور سے کیسے لے کر آئو گی؟‘‘ سہیلی نے حیرانی سے پوچھا۔
’’دور…؟؟‘‘
’’کم از کم چالیس منٹ کا تو راستہ ہوگا، تمہارے گھر سے۔‘‘
’’اُف نہیں بھئی… مجھے تو یہیں قریب ہی…‘‘ شاہدہ بیگم منمنائیں۔
’’تم کو معلوم ہے کہ اب یہ بڑے اسکول، پورے خشوع وخضوع سے وہ سارے ڈے بھی مناتے ہیں جن کا ہمارے دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں… مدر ڈے، فادر ڈے، ارتھ ڈے، نیو ائر، ویلنٹائن اور نہ جانے کیا کیا… بلکہ اب تو میں نے ایک اسکول میں ہالووین کا دن بھی سنا ہے جہاں والدین سے کاسٹیوم منگوائے گئے اور والدین بھی ایسے ہیں کہ کسی نے پلٹ کر شکایت نہ کی۔ کیا تم ایسے اسکول میں داخلہ کرائوگی جب کہ تمہیں تو تربیت کی بھی فکر ہے!‘‘ سہیلی نے ایسے اسکول کا ایسا خوفناک نقشہ کھینچا کہ شاہدہ بیگم کو جھرجھری سی آگئی۔
’’اُف تو میں کیا کروں…؟‘‘
’’میرے خیال سے تم بچوں کو گھر پر ہی پڑھا لو۔‘‘
’’یہ مشورہ ہے، طنز ہے، مذاق ہے یا…؟ ویسے پڑھانے کو تو پڑھا لوں، آئیڈیا برا بھی نہیں لیکن وہ فرفر انگریزی والا خواب… وہ میںکیسے پورا کروں گی جب کہ خود مجھے انگریزی سے معمولی ہی واقفیت ہے‘‘۔ شاہدہ بے زاری سے بولیں۔
’’تو پھر ایسا کرو… ایسا کرو کہ ایک اوسط درجے کے اسکول میں داخلہ دلائو، جہاں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی کماحقہٗ بندوبست ہو۔ ہمارے بچے اچھے انسان بن کر اسکولوں سے نکلیں، یہی ہماری کامیابی اور علم کا مقصد ہے۔ مشہور یا بڑا اسکول نہیں بلکہ نافع علم کا حصول ہی ہمارا اصل ہدف ہونا چاہیے۔ کتابوں سے تعلیم تو مل جاتی ہے لیکن علم نہیں‘‘۔ دوست بات تو ٹھیک کررہی تھی، شاہدہ کے دل کو لگ رہی تھی۔
’’لیکن…‘‘ شاہدہ نے ہچکچا کر پھر کچھ کہنا چاہا۔
’’اب… لیکن کیا…؟ تم اسکول قریب چاہتی ہو تو ہم کل چل کر دیکھ لیتے ہیں، ایک دو اسکولوں کے بارے میں مَیں جانتی ہوں۔‘‘
’’نہیں… وہ فرفر انگریزی…‘‘ شاہدہ اٹکتے ہوئے بولیں۔
’’اس کے لیے میرے خیال سے…‘‘ دوست نے کچھ لمحے سوچا ’’تم اگر خود انگریزی میں مہارت حاصل کرلو اور بچوں سے گھر میں بات چیت کرتی رہو تو تمہارا یہ خواب (بلکہ حسرت) بھی پورا ہوسکتا ہے۔‘‘
وہ دل ہی دل میں کچھ تلملائیں لیکن لہجہ ہموار رکھتے ہوئے کہا ’’اچھا…‘‘ شاہدہ نے جیسے ہار مان لی۔
’’ہاں بچے ویسے بھی ابھی چھوٹے ہیں، جو انہیں سکھائو گی جلد سیکھ جائیں گے، اور انگریزی بھی سیکھ جائیں گے، ہر اسکول میں انگریزی بھی آخرکار سکھائی ہی جاتی ہے، اتنی پریشان بھی نہ ہو‘‘۔ دوست کی تسلی، دلاسے اور حوصلہ افزائی نے شاہدہ کو بہت حد تک مطمئن تو کر ہی دیا تھا، اور پھر انہوں نے فیصلہ کر ہی لیا کہ فرفر انگریزی سے علمِ نافع کا حصول زیادہ ضروری ہے۔