مجدی رشید
اسلام یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور نادار و بے سہارا طبقے کو سہارا دینے، ان کے ساتھ شفقت اور پیار سے پیش آنے، ان کو وسائل اور آسودگی فراہم کرنے اوران کی کفالت کرنے کی صرف تلقین کرتا ہے۔ یتیم ہمارے معاشرے کاسب سے اہم لیکن بدقسمتی سے نظرانداز طبقہ ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد 42لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے جن میں بیشتر کی عمریں 17سال سے کم ہیں۔یہ بچے تعلیم و تربیت اور مناسب سہولیات نہ ملنے کے باعث معاشرتی وسماجی محرومیوںکا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ کئی تو بے را روی تک کی بھینٹ چڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف جرائم اور اخلاقی و معاشرتی برائیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ذرا سی توجہ اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ان بچوں کو معاشرے کا ایک اچھا، کامیاب اور ذمہ دارشہری بننے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان جو کہ دیگر سماجی خدمات سمیت ملک بھرکے ہزاروں یتیم بچوں کی ان کے گھروں پر کفالت کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے۔الخدمت کفالت یتامیٰ پرو گرام کے تحت یتیم بچوں کے لئے ’’ آغوش الخدمت ‘ ‘ کے نام سے اداروں کے قیام کے منصوبو ں پر کام جا ری ہے جہاں والدین سے محروم بچوں کومفت رہائش ، تعلیم ، صحت،نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات بہم پہنچائی جا رہی ہیں۔اس وقت ملک بھر میں قائم 10 آغوش سنٹرز میں730 بچے قیام پذیر ہیں جبکہ ان سنٹرز میں مجموعی طور پر 965یتیم بچوں کی گنجائش موجود ہے۔اسی طرح مری ، کراچی، گوجرانوالہ ، دیر لوئر، ھالہ( مٹیاری)، اور کوہاٹ کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔چونکہ پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور اتنی بڑی تعداد میںیتیم بچوں کی کفالت کااہتمام صرف یتیم خانے بنانے سے پورا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا الخدمت فاؤنڈیشن کے’’ آرفن فیملی سپورٹ پروگرام‘‘ کے تحت کم وبیش 10ہزارایسے یتیم بچوں اور بچیوں کی ان کے گھروں پر کفالت کی جارہی ہے جو اپنی والدہ یا کسی عزیز رشتہ دارکے گھر رہ رہے ہیںلیکن وہ ان کی تعلیم،خوراک اور علاج معالجہ کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔
دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ الخدمت فاؤنڈیشن سال میں ایک مرتبہ ان بچوں کے مکمل طبی معائنے کا بھی اہتمام کرتی ہے۔جس میں ان بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی ماؤں کا بھی مکمل طبی معائنہ اور مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ کسی بیماری کی صورت میں اس کے علاج معالجے کی بھی مکمل ذمہ داری لی جاتی ہے۔یہ سلسلہ گذشتہ 3 سال سے جاری ہے۔امسال بھی شیخ زید ہسپتال کے پروفیشنل، قابل اور دکھی انسانیت کی خدمت سے سرشار ینگ ڈاکٹرز کی پیشنٹ بینولنٹ سوسائٹی(Patient Benevolent Society) کے باہمی اشتراک سے شیخ زید میڈیکل کمپلیکس میں تیسرے فری ہیلتھ سکریننگ کیمپ کا انعقاد کیا گیا ۔8گھنٹوں پر محیط تیسرے میڈیکل کیمپ میںایک ہزار یتیم بچوں کا مکمل فزیکل ایگزامینیشن اور ادویات فراہم کی گئیں۔ کیونکہ صحت مند ماں ہی صحت مند معاشرے کی ضامن ہوتی ہے لہٰذا بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی ماؤں کا بھی مکمل طبی معائنہ اور تمام بلڈ ٹیسٹ کئے گئے ۔میڈیکل کیمپ میں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل احمد جمیل راشد، نیشنل ڈائریکٹر آرفن فیملی سپورٹ پروگرام بریگیڈیئر (ر)عبدالجبار بٹ، چیئرپرسن پیشنٹ بینولنٹ سوسائٹی پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ شہزاد،ہیڈ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ پیشنٹ بینولنٹ سوسائٹی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ ہمایوںنے خصوصی شرکت کی جبکہ سینئر مینجر الخدمت آرفن فیملی سپورٹ پروگرام یاسر الطاف، مینجرمیڈیا ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ شعیب احمد ہاشمی، صدرپیشنٹ بینولنٹ سوسائٹی ڈاکٹر شاہد اقبال،ڈاکٹر راؤ اویس اختر، حسن ریاض،ڈاکٹر وقاص احمد، ڈاکٹر مہر حمزہ، ڈاکٹر بلال گجر ،25سینئر ڈاکٹرز سمیت 120ڈاکٹرز،پیرامیڈیکل اسٹاف اور الخدمت رضاکاران نے خدمات سرانجام دیں۔شیخ زید میڈیکل کالج کی مرکزی گزرگاہ کے ساتھ ہی استقبالیہ کیمپ لگایا گیا تھا جہاں الخدمت رضاکاران اور ڈاکٹرز شرکت کرنے والے بچوں اور ان کی ماؤں کو معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کوائف کے اندراج کے بعد انھیں ہیلتھ کارڈز سیریل نمبرکے ساتھ جاری کررہے تھے۔ رجسٹریشن کا عمل 8بجے شروع ہوا جو کہ9بجے تک مکمل کرلیا گیا ۔ کیمپ کے عقب میں کالج کے خوبصورت اور وسیع و عریض لان کو ٹینٹ اور کرسیاں لگا کر انتظار گاہ کی شکل دی گئی تھی۔یہ انتظار گاہ بھی کسی میلے کا سا سماں پیش کررہی تھی۔ ایک طرف جھولے لگے تھے جہاں بچے کھیل کود کرخوب محظوظ ہو رہے تھے، ایک جگہ مہندی کا سٹال تھا جس میں مختلف یونیورسٹیوں کی رضاکار طالبات بچیوں کو مہندی لگا رہی تھیں جبکہ ایک دوسری جگہ فیس پینٹنگ کی جارہی تھے جہاں بچے بڑے جوش و خروش سے چہرے پر قومی جھنڈا، مینارِ پاکستان، قائد اور اقبال کی تصاویر سمیت دیگر قومی اہمیت کے مقامات اور شخصیات کی شبیہات پینٹ کروا رہے تھے۔پنڈال کے بالکل درمیان میں اسٹیج لگایا گیا ہے جہاں ایک مکمل اورگنائزڈ پروگرام جاری تھا جس میں پپٹ شو، ٹیبلوز،تھیٹر، بچوں کے ساتھ سوال و جواب ، نعتوں اور ملی نغموں کا سلسلہ جارہی تھا۔ سامنے پنڈال بچوں اور ان کی ماؤں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہر چہرہ پر مسرت تھا۔ اسٹیج پر موجود شخص مائیک میں سیریل نمبر پکارتا تھا جس کے بعد بچوں اور ان کی ماؤں کو کالج کی مرکزی عمارت کی جانب جانے کا کہا جاتا تھا۔عمارت کے مرکزی دروازے پرموجود ڈاکٹرز بچوں کے کارڈ پر سیریل نمبر چیک کرنے اور اپنے پاس موجود لسٹ میں اندراج کرنے کے بعد ان کو پہلے اندر پہلے ڈیسک کی طرف روانہ کرتے جہاں بچوں کے بلڈ سمپل لئے جارہے تھے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی ماؤں کے طبی معائنے کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا تھا اس مقصد کے لئے ایک الگ سیکشن قائم کیا گیا تھا جہاں الخدمت ڈائیگناسٹک سنٹر کی ٹیم کی جانب سے ان کے ہیپاٹائٹس بی اور سی سمیت دیگر ٹیسٹوں کے لئے خون کے نمونے لئے جارہے تھے اس کے علاوہ ضروری ادویات بھی بالکل مفت فراہم کی جارہی تھیں جبکہ ایک دوسری جانب بریسٹ کینسر سکریننگ ڈیسک بھی قائم کیا گیا تھا جس پر ایک سینئر سپیشلسٹ ڈاکٹر بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی و مشورے فراہم کررہی تھیں۔بچوں کے خون کے نمونے لینے کے بعد انھیں پہلی منزل کی طرف روانہ کردیا جاتا جہاں سال40ڈاکٹرز کی ایک ٹیم بچوں کاجنرل فزیکل ایگزامینیشن اینڈ وائٹل مانیٹرنگ کررہی تھی۔ جبکہ دوسری منزل پر آنکھوں کا معائنہ کیا جارہا تھا۔ ہر منزل کے شروع میں ینگ ڈاکٹرز رضاکارانہ طور پر مستعدی کے ساتھ بچوں اور ان کی ماؤں کو راہنمائی فراہم کرنے کے لئے ہمہ وقت موجود تھے۔ تیسری منزل پرطبی معائنے کی تمام تر رپورٹس کی روشنی میں ماؤں کو بچوں کی خوراک اور علاج معالجے کے حوالے سے ضروری ہدایات فراہم کرنے کے لئے سینئرز ڈاکٹرز کی ایک ٹیم موجود تھی۔تمام عمل میں نظم و ضبط اور ٹیم ورک کی عمدہ مثال دیکھنے کو ملی۔ کسی بھی طرح کی بدنظمی سے بچنے کے لئے شرکا ء کے آنے اور جانے کے لئے الگ الگ راستے مختص کئے گئے تھے۔ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ بچے ڈاکٹر کو دیکھ کے سہم سے جاتے ہیں لیکن یہاں معاملہ بالکل الگ تھا،بچوں کے چہروں پراطمینان اور بشاشیت دیدنی تھی۔پہلا سیشن صبح 9بجے سے دوپہر 1بجے تک جاری رہا ۔1بجے سے 2بجے لنچ بریک تھی جبکہ 2بجے سے5بجے تک بقیہ بچوں اور ان کی ماؤں کا طبی معائنہ کیا گیا۔ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انخلاعمارت کے وسطی دروازہ انخلاء کی غرض سے رکھا گیا تھا جہاں کارڈ چیک کرکے بچوں اور ان کے ورثاء کو لنچ باکس فراہم کئے جارہے تھے۔جبکہ فلٹرڈ پانی اور چائے کا بھی خصوصی اوروافرانتظام کیا گیا تھا۔
مسلمانانِ عالم ایک جسم کی مانند ہیں جو کہ اپنی تعلیمات اورعمل میں اخوت کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔ نیکی اور بھلائی کا جذبہ ہر انسان میں موجود ہوتا ہے۔ ضرورت صرف اسے اجاگر کرنے کی ہوتی ہے۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیئے الخدمت فاؤنڈیشن، پیشنٹ پینولنٹ سوسائٹی اور ان جیسے اداروں کا جو کہ بغیر کسی غرض اور طمع کے خالصتاََ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ان یتیموں کا ہاتھ تھامے ہوئے ایک مشن پر کاربندہیں۔آئیے اس مشن کو اپنا مشن سمجھیں اور ان اداروں کا دست و بازو بنیں۔
کیونکہ کفالتِ یتیم سے ۔۔۔۔جنت کا حصول بھی۔۔۔رفاقتِ رسولﷺبھی۔