افروز عنایت
شاہدہ: آپا یہ مریم ابھی تک نہیں آئی، مجھے آئے ایک گھنٹے سے زیادہ تو ہوگیا ہے، پچھلی مرتبہ بھی میں یہاں آئی تو وہ پڑوسن آنٹی کے گھر گئی ہوئی تھی۔ اس کا اتنا پڑوسیوں کے گھر آنا جانا صحیح نہیں، اب تو ان کی بیٹی کی بھی شادی ہوگئی ہے، جوان لڑکا ہے اُن کے گھر میں۔
مریم: (گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر آپا پر پڑی) سلام آپا، آپ کب آئیں؟
مریم کو دیکھ کر ریحانہ کچن میں چلی گئی۔
شاہدہ: چندا یہاں بیٹھو اور غور سے میری بات سنو، اب تم اتنی چھوٹی نہیں ہو کہ میں تمہیں یہ بات سمجھائوں۔ پڑوس میں تمہارا اتنا آنا جانا… کیا مطلب رکھتا ہے؟ لوگ باتیں بنائیں گے، ابا کو پتا چل گیا تو…! ریحانہ آپا بے چاری تمہیں کچھ نہیں کہتیں کہ سوتیلی ماں ہے تمہیں برا لگے گا۔
مریم: ٹھیک ہے، آئندہ خیال رکھوں گی۔ ویسے جانے میں کیا ہے، میں پہلے بھی تو جاتی تھی۔
…………
لیکن مریم پر اپنی آپا کی بات کا اثر دو دن کے بعد ہی ختم ہوگیا اور وہ پھر سے پڑوسیوں کے گھر آنے جانے لگی۔ پڑوسن کے بیٹے جنید کے ساتھ بھی اس کا بے تکلفانہ انداز ریحانہ کو پسند نہ تھا، وہ اسے بڑے محتاط انداز میں ایک آدھ بار کہہ چکی تھیں، انہوں نے شاہدہ سے تذکرہ کرنا مناسب سمجھا۔ شاہدہ تو پہلے ہی مریم کی اس بات سے پریشان تھی۔ آخر دونوں اس بات پر متفق ہوئیں کہ مریم کا کہیں رشتہ تلاش کرکے طے کیا جائے۔
………
شاہدہ: مراد کی بہن مجھے دو تین بار اپنی مریم کے رشتے کے لیے کہہ چکی ہے، اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو انہیں بلالیں، اسلم کے دور کے رشتہ دار ہیں، ایک ہی بہن ہے جس کی شادی کی وجہ سے اس نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ اب خیر سے صابرہ کی شادی ہوگئی ہے، اب وہ بھی اپنا گھر بسانا چاہ رہا ہے۔ اچھی ملازمت ہے، گھر بھی اپنا ہے۔ ہاں… البتہ عمر کچھ زیادہ ہے، مریم سے دس بارہ سال بڑا ہوگا۔ ویسے اسلم بتارہے تھے کہ بڑا محنتی اور شریف بندہ ہے۔
ابا اورریحانہ کی رضامندی سے شاہدہ نے اگلے ہفتے مراد کی فیملی کو ابا کے گھر بلوا لیا۔
مریم نے ایک آدھ بار مراد کو دیکھا تھا۔ اسے یہ سانولا معمولی نقش و نگار والا سیدھا سادہ بندہ بالکل پسند نہ تھا۔ اس کے دل و دماغ پر تو پڑوسی کا بیٹا جنید سوار تھا، اس لیے اُس نے بعد میں آپا کو بھی خوب سنائیں کہ آپ کو میرے لیے یہی بدشکل بندہ نظر آیا! مجھے اس سے شادی نہیں کرنی۔ شاہدہ، بہن کی بات پر متفکر ہوگئی، لہٰذا اس نے حتمی فیصلے سے پہلے جنید کی ماں سے ملنا ضروری سمجھا۔
………
پڑوسن: یہ لو بیٹا چائے۔ آج بہت دن کے بعد آنٹی کی یاد کیسے آگئی؟
شاہدہ: آنٹی آپ کو تو پتا ہے بچوں کے ساتھ سارا دن ایسے ہی گزر جاتا ہے، ابا کے گھر بھی کئی کئی دن بعد آنا ہوتا ہے۔ اور پھر… آج کل تو مریم کے رشتے کے لیے بہت مصروف ہوں، تین چار جگہ سے رشتے آئے ہیں، بس دعا کریں کہ صحیح فیصلہ کرسکیں۔
پڑوسن آنٹی: یہ تو اچھی بات ہے، میرے لیے کوئی کام ہو تو ضرور بتانا۔
شاہدہ نے کن انکھیوں سے سامنے بیٹھے جنید کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر یہ بات سن کر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ شاہدہ نے یہی بات جنید کی طرف دیکھ کر دوبارہ دہرائی۔ جنید نے خوشی سے کہا ’’مطلب کہ پڑوس میں خوب رونق رہے گی۔‘‘
دونوں ماں بیٹوں کے رویّے سے شاہدہ کو سخت مایوسی ہوئی۔ لہٰذا سب گھر والوں کے اتفاقِ رائے سے مریم اور مراد کی شادی کی تاریخ مقرر کردی گئی۔ مریم نے آپا کو برا بھلا کہا کہ انہوں نے یہ رشتہ کروایا ہے۔ اب شاہدہ اسے کیا کہتی کہ ’’ان تلوں میں تیل نہیں۔ بے کار کی آس لگائے بیٹھی ہو جنید سے۔‘‘
شادی کے بعد مریم کے اکھڑے اکھڑے رویّے کو مراد نے یہ سوچ کر درگزر کیا کہ نئی نئی دلہن ہے، نیا ماحول ہے، اسے سیٹ ہونے میں کچھ وقت لگے لگا۔ ایک آدھ دن مریم کی نند ساتھ رہی، پھر وہ بھی اپنے گھر چلی گئی کہ آخر یہ گھر مریم ہی کو سنبھالنا ہے۔ مریم کو اس دوران جنید سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایک دو مرتبہ وہ اُس کے گھر بھی گئی لیکن ناکامی ہوئی۔ آج بھی وہ بڑی امید سے آئی تھی کہ آنٹی کے پاس جاکر ضرور جنید سے ملاقات کرے گی۔ لیکن اس کے دروازے پر تالا دیکھ کر اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ آپا ریحانہ سے اُسے پتا چلا کہ دونوں ماں بیٹے لاہور گئے ہیں، ایک ڈیڑھ مہینے کے بعد واپسی ہوگی۔ اسے یہ غلط فہمی تھی کہ جنید بھی اس کے لیے اتنا ہی بے قرار ہوگا، کیونکہ اکثر وہ اس سے کہتا تھا ’’میں تیرے بغیر نامکمل ہوں‘‘۔ لہٰذا وہ بے چینی سے دن گننے لگی۔
………
آج مریم کی طبیعت صبح سے ہی خراب تھی۔ مراد نے اس کی یہ حالت دیکھی تو فوراً اسپتال لے گیا۔ خوشی کی یہ خبر مریم کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی، لیکن مراد کے لیے تو جیسے ’’مراد پوری ہوئی‘‘ کے مترادف تھی۔ مراد زیادہ سے زیادہ وقت مریم کے ساتھ گزارنے لگا۔ جتنا وہ اس کے قریب آنے کی کوشش کرتا، مریم اتنا ہی بیزار ہوجاتی۔ بڑی مشکل سے اس نے ایک ڈیڑھ ماہ گزارا۔ آپا نے جب اسے آنٹی کے واپس آنے کی خبر دی تو وہ بڑی بے چینی سے وہاں پہنچی ۔ سیڑھیوں میں ہی اسے دونوں ماں بیٹے مل گئے اور اس کی والدہ کو دیکھ کر مریم کے چہرے پر رونق آگئی۔ اس نے آنٹی کو گلے لگایا۔ جنید نے رسمی سلام دعا کی اور اپنی والدہ سے کہا کہ میں گاڑی میں آپ کا انتظار کررہا ہوں، آپ جلدی سے آئیں۔ جنید کا یہ اجنبی رویہ دیکھ کر وہ سمجھی شاید وہ مجھ سے ناراض ہے، لیکن جلد ہی اس کی خوش فہمی دور ہوگئی۔ آنٹی کی آواز اُسے دور سے آتی محسوس ہوئی ’’اصل میں اس بے صبرے کی شادی کی تیاری کررہی ہوں، وہیں لاہور میں اسے اپنی ایک کزن پسند آگئی، اس کا تو بس نہیں چل رہا تھا ورنہ شادی بھی اُسی دوران کرلیتا۔‘‘
آنٹی کی بات سن کر مریم کے ذہن میں سناٹا چھا گیا۔ جیسے تیسے کرکے گھر پہنچی۔ ریحانہ آپا نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اسے سمجھانے لگیں ’’بیٹا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی، ابھی تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ پہلے بچے کے وقت عورت کو احتیاط برتنی چاہیے‘‘۔ کھانا کھا کر مریم کمرے میں جاکر سوگئی۔
سو کیا گئی، بلکہ آج تو وہ بیدار ہوئی تھی۔ بے اختیار اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ اُف خدایا میں کس قدر بے وقوف بنی ہوں اس شخص کے ہاتھوں! کیا وہ مجھ سے فلرٹ کررہا تھا؟ اس کا والہانہ پن، ویلنٹائن ڈے پر اس کے تحفے وغیرہ… اسے اپنے آپ سے شرم آرہی تھی کہ ایک مشرقی اور اسلامی روایت پسند خاندان سے تعلق ہوتے ہوئے بھی وہ غلط راستے پر کیوں چل پڑی تھی! اسے اپنے شوہر کے ساتھ ان پانچ مہینوں میں اپنے نامناسب رویّے پر بھی شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے سوچا، ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، مراد گرچہ خوبصورت نہیں ہے لیکن اپنی عادات و اطوار کے لحاظ سے وہ ایک بہترین شخصیت کا مالک ہے۔
شام کو مراد اسے لینے آیا تو ابا اورآپا نے اسے بہت کہا کہ رات کا کھانا کھا کر جائیں، لیکن مریم نے کہا ’’آج ہم دونوں کا، کھانا باہر کھانے کا پروگرام ہے‘‘۔ مراد بیوی کے رویّے کی اس تبدیلی پر حیران بھی تھا اور خوش بھی۔
………
آج ہم اپنے چاروں طرف اسکول اور کالج کے لڑکے لڑکیوں کا اسی طرح کا میل جول دیکھتے ہیں۔ اکثر لڑکیاںتو اس دوستی کو حقیقی رنگ میں دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور اکثر دھوکہ کھاجاتی ہیں ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی دین اسلام نے نامحرموں کے ساتھ اس طرح میل جول اور دوستی کو حرام قرار دیا ہے نہ صرف والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اس قسم کے خرافات سے بچنے کی تلقین کریں بلکہ اسکول و کالجوں میں بھی اساتذہ کرام ان خرافات کے برے انجام سے محفوظ رہنے کی تاکید کریں کیونکہ دن بدن ہمارے معاشرے میں اس کی وباء پھیلتی جارہی ہے بلکہ جو بچے ان خرافات سیمحفوظ ہیں دوست انہیں طعنے دیتے ہیں انہیں بے وقوف اور گنوار سمجھا جاتا ہے کہ اس کی گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ نہیں اللہ ہم سب کی اولاد کو ان مغربی روش اور بے حیائی سے محفوظ رکھے آمین اور اسلامی تعلیمات و مقررہ حدود کے دائرے میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جانتا ہوں۔ یہاں تو یہ صورت حال ہے کہ چند ایک کے Nj