ڈاکٹر نثار احمد نثار
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے لیے ’’میٹ اے رائٹر پروگرام‘‘ منعقد ہوا جس میں مہمان خصوصی عبدالحسیب خان‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ کریم خواجہ اور عرفان عابدی تھے۔ قادر بخش سومرو نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی طنز و مزاح میں ممتاز مقام کے حامل ہیں یہ ایک World Famous شخصیت ہیں اوردو بستیوں میں ان کے قارئین کا حلقہ بہت وسیع ہے ان کی کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں‘ یہ ادب اور زندگی کے رشتے کو مضبوط کر رہے ہیں ان کے کاٹ دار جملے قارئین و سامعین پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے سپریم کورٹ نے نفاذ اردو کے حق میں فیصلہ دیا ہے معین قریشی نے مختلف اداروں میں ’’اردو مراسلات‘‘ کے کورس کرائے ہیں اس کے علاوہ یہ ایک بہترین نقاد بھی‘ قلم کاروں کے لیے ان کی رائے بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ بلا خوف و خطر تنقید کرتے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر ایم ایس ایم قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ادارے میں ادبی نشستوں کی ایک نئی روایت ڈالی ان کا یہ اقدام اردو ادب کی ترقی میں معاون و مددگار ہے یہ خود بھی شاعر ہیں اور کراچی کے مشاعروں میں اپنا کلام سنا کر خوب داد وصول کر رہے ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں فاطمہ حسن‘ عرفان عابدی‘ صغیر احمد جعفری‘ زینت کوثر لاکھانی‘ صبا نشاط غوری‘ تنویر سخن‘ محمد علی زیدی‘ اقبال رضوی‘ محمد رفیق مغل‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ تاج علی رانا‘ محمدیامین عراقی‘ غلام رسول طاہر‘ سید مہتاب شاہ‘ طاہرہ سلیم سوز‘ عارف شیخ عارف‘ سید علی اوسط جعفری‘ دلشاد احمد دہلوی‘ سیما ناز‘ نثار قریشی‘ خالد نثار‘ فرح کلثوم‘ فرح دیبا اور دیگر شامل تھے۔ آخر میں قادر بخش سومرو نے اکادبیات پاکستان کی جانب سے تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا۔
بزم شگفتہ شفیق کی شعری نشست
۔3 مارچ 2018ء بروز ہفتہ شام سات بجے معروف ادیبہ و شاعرہ شگفتہ شفیق نے اپنے گھر پر ایک شعری نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت فیروز ناطق نے کی۔ مہمان خصوصی اکرم کنجاہی اور مہمان اعزازی قادر بخش سومرو تھے۔ نظامت کے فرائض الحاج نجمی نے انجام دیے اس نشست میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ صبیحہ صبا‘ صغیر احمد جعفری‘ شاعر علی شاعر‘ وقار زیدی اور شگفتہ شفیق نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا اور خوب داد وصول کی اس موقع پر صاحبِ صدر نے کہا کہ مشاعروں کے ذریعے ہم زبان و اب کو پروان چڑھاتے ہیں اس ادارے کی ہر زمانے میں ضرورت رہتی ہے جو قومیں اپنی ادبی ثقافت کو فراموش کر دیتی ہیں وہ ترقی نہیں کرسکتیں۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ ادبی تنظیموں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے کہ تخلیق کار کے مقام کا تعین اس کی تخلیقات سے ہوتا ہے۔ صدارت اور مہمان خصوصی کی کرسیاں رسمی ہوتی ہیں جس کے لیے کئی ادبی تنظیموں نے ریٹ متعین کیے ہوئے ہیں حتیٰ کہ کچھ احباب تو بریانی کی دیگ پر صدارت اور مہمان خصوصی کی نشست کا فیصلہ کرتے ہیں لہٰذا بے لوث انداز میں ادب کی خدمت کرنے والی تنظیموں کے کام اور ان کے یہاں صدارت اور مہمان خصوصی کی نشستوں کو متنازع نہیں بنانا چاہیے انہوں نے مزید کہا کہ شگفتہ شفیق ایک متحرک شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کی خدمت گزار بھی ہیں آج انہوں نے اپنے شریک حیات شفیق صاحب اور اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر بہت عمدہ تقریب سجائی ہے۔ انہوں نے کم و بیش تیس چالیس افراد کے لیے فائیو اسٹار ڈنر کا اہتمام کر رکھا ہے لیکن شعرا کی تعداد کم ہے جس کی ایک وجہ ادبی سیاست و گروہ بندی ہے ویسے بھی انہیں مشاعرہ منعقد کرنے کا پہلا تجربہ ہے امید ہے کہ انہیں آہستہ آہستہ تجربہ ہوگا۔ مہمان اعزازی قادری بخش سومرو نے کہا کہ ادب کے فروغ کے لیے ہم سب کو متحد ہونا پڑے گا اس کے بغیر قلم کاروں کی فلاح و بہبود ممکن نہیں ہے۔ شگفتہ شفیق نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ میں اور میرے شوہر چاہتے ہیں کہ ہم اردو ادب کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اسی تناظر میں آج ہم نے اپنے گھر میں اس شعری نشست کا اہتمام کیا ہے امید ہے کہ ادب پرور شخصیات ہمارے ساتھ تعاون کریں گی۔
بزم سعیدالادب کا مشاعرہ
کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی کے سیمینار ہال میں بزم سعید الادب کا مشاعرہ منعقد ہوا جس میں رفیع الدین راز صدر تھے‘ ذکیہ غزل مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی اکرم کنجاہی تھے جب کہ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اقصیٰ حسن نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ یاسر سعید صدیقی نے بہت عمدہ نظامت کی انہوں نے شعرائے کرام کو اسٹیج پر بلانے سے قبل ان کے اشعار سامعین کی خدمت میں پیش کیے اور خوب صورت جملوں سے نظامت کو خوب صورت بنایا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ شعر و سخن کی محفلوں کا انعقاد ہماری ادبی تنظیم کے اغراض و مقاصد کا حصہ ہے اس سلسلے میں ہم اپنے خرچ پر مشاعرہ کراتے رہتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آج کی مہمان خصوصی کینیڈا سے تشریف لائی ہیں جب کہ صدر مشاعرہ امریکا سے۔ ہم ان دونوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری دعوت قبول کی۔ یہ دونوں دیارِ غیر میں بھی اردو ادب کے فروغ میں مصروف ہیں۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ پاکستانی ہیں لیکن بہ وجوہ امریکا میں رہائش پزیر ہیں۔ وہ جب بھی کراچی آتے ہیں ان کے اعزاز میں ادبی نشستیں سجائی جاتی ہیں یہ آپ لوگوں کی محبت ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کراچی میں ادبی فضا بہت سازگار ہے‘ روزانہ مشاعرے و مذاکرے ہو رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہمارے پیارے ملک میں امن وامان رہے تاکہ ہم زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کر سکیں۔ ذکیہ غزل نے کہا کہ وہ اپنی تنظیم ’’اظہار‘‘ کے پلیٹ فارم سے کراچی میں ادبی محفلیں سجاتی تھیں اب کینیڈا میں انہوں نے کئی شان دار ادبی تقریبات منعقد کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو کی ترویج و اشاعت ہماری ذمے داری ہے ہم اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ حکومتی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنی ذمے داریاں سو فیصد تک پوری کریں۔ مہمان اعزازی نے کہا کہ آج کی غزل میں موجودہ زمانے کے مناظر لکھے جارہے ہیں یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ آج کے قلم کار گل و بلبل کے افسانوں کے بجائے زمینی حقائق رقم کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے ادب برائے زندگی لکھا جارہا ہے‘ شاعری کی اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزای اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سعید الظفر صدیقی‘ فیروز ناطق خسرو‘ انورانصاری‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ قمر احمد صدیقی‘ حجاب عباسی‘ رشید خان رشید‘ حمیرہ راحت‘ راقم الحروف اور شاعر علی شاعر نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا جب کہ دیر سے آنے والے شعرا کو مشاعرہ نہیں پڑھوایا گیا یہ ایک قابل ستائش فیصلہ تھا جو کہ بزم ہذا کے سرپرست اعلیٰ سعید الظفر صدیقی نے کیا۔
ڈاکٹر اکرام الحق شوق کے گھر مشاعرہ
ذکیہ غزل ان دنوں کینیڈا سے کراچی آئی ہوئی ہیں ان کے اعزاز میں تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈاکٹر اکرام الحق شوق کی رہائش گاہ پر پروفیسر منظر ایوبی کی صدارت میں ذکیہ غزل کے لیے محفلِ مشاعرہ سجائی گئی جس کے مہمان خصوصی تھے محسن اعظم ملیح آبادی‘ تبسم صدیقی نے نظامت کے فرائض انجاسم دیے اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ جن ارباب سخن نے اپنے اپنے اشعار نذر سامعین کیے ان میں رونق حیات‘ اختر سعیدی‘ سعد الدین سعد‘ مصطفی جمال‘ غلام حنائی‘ سحر علی‘ عتیق الرحمن‘ خالد میر‘ تنویر سخن‘ ثبین سیف‘ ہما بیگ‘ حمیدہ گل اور دیگر شامل تھے۔ صاحب صدر نے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر اکرام الحق شوق ایک سینئر شاعر ہیں اور متعدد تنظیموں کی سرپرستی و معاونت کر رہے ہیں ان کی شاعری میں غزل کے روایتی مضامین کا حسن موجود ہے۔ محسن اعظم ملیح آبادی نے کہا کہ ڈاکٹر اکرام الحق شوق اردو ادب کے فروغ کے یے مصروف عمل ہیں یہ اپنی گوناگوں مصروفیت میں سے وقت نکال کر مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں یہ ان کی علم دوستی کا ثبوت ہے۔ مہمان اعزازی ذکیہ غزل نے کہا کہ وہ ڈاکٹر اکرام الحق اور تبسم صدیقی کا شکریہ ادا کرتی ہیں کہ جنہوں نے ان کے لیے گیٹ ٹو گیدر کا اہتمام کیا اپنوں کے درمیان آکر انہیں طمانیت و سکون ملتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی محفل میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے۔ تبسم صدیقی نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم اردو ادب کی خدمت کرتے رہیں ہم اس میں کس حد تک کامیاب ہیں اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔ انہوں نے سامعین و شعرا کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ ہر شخص شاعری نہیں کر سکتا یہ ایک خداداد صلاحیت ہے لیکن جو لوگ شاعری کر رہے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ سچائیاں رقم کریں‘ لوگوں کو مثبت پیغام دیں‘ منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزل کا کینوس بہت وسیع ہے اس کے دو مصرعوں میں بڑے سے بڑا مضمون باندھا جاسکتا ہے لیکن اردو ادب کا کثیر سرمایہ نظم کی شکل میں موجود ہے‘ وقت و حالات کے ساتھ ساتھ ادبی منظر نامہ تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن غزل کے روایتی عنوانات سدا بہار ہیں۔
ہڈیاں مختلف جگہوں پر ڈال دے۔ لیکن رات سے مُردہ