شیطانی کھوپڑی

272

زاہد عباس
’’شکر ہے تیرا بھی دیدار ہوا… کہاں ہے آج کل؟ لگتا ہے کچھ زیادہ ہی مصروف ہوگیا ہے!‘‘
’’وسیم بھائی! اس سے تو پوچھنا ہی بیکار ہے، یہ تو ایسا غائب ہوا ہے جیسے اِس دنیا میں نہیں آسمان پر رہتا ہو۔ ایک وقت تھا جب یہ ہماری جان نہیں چھوڑتا تھا، اور اب ملاقات تو درکنار شکل تک نہیں دکھاتا۔‘‘
عمران کو دیکھتے ہی اُس کے دوستوں نے گلے شکوے شروع کردیے۔
’’بھائیو! ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کاروبار میں ایسا پھنسا ہوں کہ وقت نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
’’کاروبار… اور تُو!‘‘ وسیم نے حیرت سے عمران کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں یار کاروبار کیا ہے اور تمہاری دعاؤں سے ٹھیک ٹھاک سیٹنگ بن گئی ہے، صبح سے رات گئے تک اسی چکر میں لگا رہتا ہوں، بس اس لیے ملاقات نہیں ہوپاتی۔‘‘ عمران نے اپنی بات کاخلاصہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’او بھائی کیا کاروبار؟ کون سا کاروبار؟ سیدھی سیدھی بات کر، کہاں گیا ہوا تھا، کس کو چونا لگایا ہے جس کی وجہ سے رقم ہاتھ لگ گئی اور تُو کہیں سیر سپاٹے کو نکل گیا تھا۔ یہ منہ اور مسور کی دال، جس نے کبھی چنے تک نہ بیچے ہوں اُس کی زبان سے کام دھندے کی باتیں لطیفے سے کم نہیں۔ کھیل مت کر، سچ سچ بتا کہا گیا ہوا تھا؟‘‘ وسیم نے طنز کے تیر چلاتے ہوئے عمران سے پوچھا۔
وسیم کی طرف سے ادا کیے جانے والے لفظوں کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے عمران بڑی معصومیت سے بولا’’یار یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ آج کل کوئی کسی کی سچی بات پر بھی یقین نہیں کرتا۔ تمہیں کیسے بتاؤں کہ واقعی میں نے کام شروع کردیا ہے اور اس کام کے نتیجے میں مجھے خاصا فائدہ بھی ہورہا ہے، مجھے تم سے جھوٹ بول کر کیا حاصل ہوگا! اگر میری بات نہیں مانتے تو نہ مانو تمہاری مرضی، میں تو بس یہاں سے گزر رہا تھا سوچا اپنے یاروں سے ملتا جاؤں، تمہاری محبت میں ملنے چلا آیا، سوچا تھا دوستوں کو بتاؤں گا تو وہ خوش ہوں گے، لیکن یہاں تو دوسرے کی بات کو تفریح میں لیا جا رہا ہے۔ تم فضول باتیں کرتے رہنا، اپنی تو قسمت کا پہیہ چل پڑا ہے، ہر روز ہزار خرچہ نکال کر پانچ سات جیب میں آجاتے ہیں، اور کیا چاہیے! میرے لیے بہت ہیں۔ اگر ساتھ مل کر کاروبار کرنا ہو تو رابطہ کرلینا۔ میں اب جارہا ہوں دیر ہورہی ہے۔‘‘
’’اوہو کیا مزاج ہیں میرے بھائی کے، برا مان گیا ہے۔ اتنے دنوں بعد ملاہے، ایسے کیسے جا سکتا ہے! غصہ کرنا چھوڑ، ہمیں بھی تو پتا لگے کون سی گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ گئی ہے جس کی وجہ سے پانچ سات ہزار کی دیہاڑی مار رہا ہے تو۔‘‘ وسیم نے عمران کا بازو پکڑکر اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں، بس ایک عدد پھٹیچر ہائی روف خرید کر سفید رنگ کروالو، لال رنگ سے اردو میں سیدھا اور انگریزی میں الٹا ایمبولینس سروس تحریر کرواکر انسانیت کی خدمت کے منشور کے ساتھ ایک عدد چندے کا ڈبہ لگاکر یہ ہائی روف کسی بااعتماد ڈرائیور کے حوالے کردو اور خوب لکشمی کماؤ۔‘‘ یوں ایک ہی سانس میں عمران نے اپنا پورا معاشی پروگرام وسیم کے سامنے پیش کردیا۔
’’ابے کیا بادل بنا رہا ہے! (واضح رہے کہ پاگل کو کراچی کا ایک مخصوص طبقہ ’بادل‘ کہتا ہے) تجھے کیا ہم ہی نظر آئے ہیں بادل بنانے کو! جو بھی کام انسانیت کی خدمت کے لیے کیا جاتا ہے اُس پر لوگوں کی امداد کے ساتھ ساتھ اپنی جیب سے بھی رقم لگانی پڑ جاتی ہے، اور تُو اسے کاروبار بتارہا ہے اور وہ بھی ایسا کاروبار جس سے ہزاروں روپے کمائے جاسکتے ہیں! عقل کے اندھے سوچ سمجھ کر بات کر۔ ایمبولینس مریضوں کو اسپتال لانے اور لے جانے کے لیے ہوتی ہیں، یہ بھی کوئی پبلک ٹرانسپورٹ ہے جسے پیسنجر ڈھونڈتے پھریں! پہلے بھی تُو ایسے ہی مدرسہ پروگرام لایا تھا، بھئی واہ کیا خوب ہے تیرا دماغ جو آئے دن نئے سے نئے کاروبار پر فلمیں بناتا رہتا ہے۔‘‘
وسیم کے جواب پر عمران جذباتی ہوتے ہوئے بولا: ’’میں نے کیا غلط کہا تھا اُس وقت؟ یا آج کون سی ایسی غلط بیانی کررہا ہوں جس کو لے کر تم مجھے جھوٹا ثابت کرنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہو۔ اور وہ جو مدرسہ بنانے کی بات تھی، میں اب بھی کہتا ہوں کہ مدرسہ پروجیکٹ درست کام تھا۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح کراچی کی سرکاری زمینوں پر قبضے کیے گئے۔ بدنام زمانہ چائنا کٹنگ سے کون واقف نہیں! جن کنگلوں کے پاس سائیکل تک نہ تھی وہ کس طرح سرکاری فلاحی پلاٹ اور کھیل کے میدان بیچ کر بہترین گاڑیوں کے مالک بن گئے۔ میری تجویز تو مدرسہ کے ساتھ مسجد اور مولوی صاحب کے لیے دو عدد مکانات بنانے کی تھی، بعد میں بنایا گیا دوسرا مکان فروخت کردیا جاتا جس کے عوض اچھی خاصی رقم ہاتھ لگ جاتی، اور فرنٹ پر بنائی گئی دکانوں کا الگ ہی مول ہوتا۔ اس میں کون سا عمل غیر قانونی تھا! شہر بھر میں یہی کچھ تو ہوتا آیا ہے۔ سڑک کنارے کشادہ مکان کی قیمت کروڑوں میں ہوا کرتی ہے، ہم تو تیس سے پینتیس لاکھ میں بنا بنایا سہولیات سے آراستہ ویسٹ اوپن گھر دیتے جو منٹوں میں فروخت ہوجاتا۔ اُس وقت صرف تمہاری وجہ سے ہی مجھے لاکھوں کا نقصان ہوا۔ چلو میرے ساتھ اور شہر کا دورہ کرکے دیکھ لو، مضافاتی علاقے تو ایک طرف، مرکزی شاہراہوں سے پوش آبادیوں تک اسی قسم کی غیر قانونی تعمیرات دیکھنے کو ملیں گی۔ سب سے بڑھ کر تو یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں کوئی نہیں بولتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی غیر قانونی تعمیرات کو بھی پورا تحفظ مل جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں غیر قانونی تعمیر شدہ مدارس و مساجد کے خلاف کارروائی کو مذہب کے خلاف ایکشن تصور کیا جاتا ہے، اور پھر ہم نے تو اپنے تئیں دین کی خدمت کی ہوتی، جہاں لوگ عبادات کرتے جس کا کچھ نہ کچھ ثواب ہم کو بھی ملتا۔ اُس وقت تمہارے چکر میں آکر نقصان برداشت کیا۔ میں نے تب ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ جب بھی کوئی کام کروں گا، تمہارے علم میں لائے بغیر ہی کروں گا۔‘‘
’’یار تیرا بھاشن سن لیا، تُو کل جیسا تھا آج بھی ویسے ہی سوچتا ہے۔ تیری شیطانی کھوپڑی ہے۔ تیرے کہنے سے غلط صحیح نہیں ہوسکتا۔ تُو لاکھ دلائل دے، لیکن ذرا سوچ، انسانیت کی خدمت کی آڑ میں تُو کس قدر گھنائونے عمل کا مرتکب ہورہا ہے! لوگ غریبوں کی مدد کے لیے ادارے بناتے ہیں اور تُو تو پھٹیچر ہائی روف کو ایمبولینس بناکر اُسے کاروبار کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے! یہ سخت گناہ کمانے اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ وسیم عمران کو سمجھاتے ہوئے بولا۔
عمران وسیم کو ترکی بہ ترکی جواب دینے لگا: ’’میری بنائی ہوئی ایمبولینس تجھے پھٹیچر لگ رہی ہے اور ساری اخلاقیات کا درس بھی مجھے پڑھایا جارہا ہے، اُن کے بارے میں کیا رائے ہے جو ایمبولینسوں کے ذریعے اسلحہ سپلائی کیا کرتے تھے، اور جو لوگ دوسرے کے ایمبولینس پوائنٹ پر بیٹھ کر فقط سو روپے کے عوض ہمارے پاس مریض کلٹی کرتے ہیں، یعنی اپنے پاس مریضوں کے لیے آنے والی کال پر مریض اٹھانے کے لیے ہمیں بھیجتے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بھائی یہاں مریض بکتا ہے۔ سب کے ساتھ پیٹ لگا ہوا ہے۔ دن میں دو چار مریضوں کو ہمارے حوالے کرنے سے ہماری دیہاڑی کے ساتھ ساتھ انہیں بھی دو پیسے کا فائدہ ہوجاتا ہے۔ باقی شام تک چندے کے ڈبے میں بھی دو ڈھائی ہزار بونس کی مد میں آجاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بناکر چلنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج میرے پاس ایک سے دو ایمبولینس ہوگئیں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ کام انسانیت کی خدمت کا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سوائے چند اداروں کے، زیادہ تر اس کام کو یا تو بین الاقوامی فنڈنگ کے لالچ میں کررہے ہیں، یا پھر اپنی ذاتی تشہیر کی خاطر اس سے منسلک ہیں، جن کی طرف سے ایمبولینس ڈرائیوروں کو خاص طور پر یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ سڑک پر چلتے ہوئے خالی ایمبولینس کے دوران بھی عوام کو متاثر کرنے کے لیے بار بار ہوٹر مارتے ہوئے جاؤ تاکہ عوام کو اپنی ویلفیئر فاؤنڈیشن کی کارکردگی دکھائی جاسکے۔ بھائی تُو اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھ، میں اس فیلڈ میں ہوں اور تجھ سے بہتر جانتا ہوں۔ یہاں تو یہ صورت حال ہے کہ چند ایک کے سوا زیادہ تر ایمبولینسوں میں ابتدائی طبی امداد کی سہولت تک موجودنہیں، 65 فیصد مریض یا زخمی ایمبولینس میں دورانِ سفر ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کے باعث انتقال کرجاتے ہیں۔ شہر میں نجی اداروں کی جانب سے بچھایا گیا ایمبولینسوں کا جال بھی شہریوں کی جان نہیں بچا پاتا۔
جبکہ دنیا بھر میں ایمبولینس ابتدائی طبی امداد فراہم کرتے ہوئے زخمی یا مریض کو اسپتال پہنچانے والی شے کا نام ہے، مگر ہمارے یہاں بدقسمتی سے بیشتر ایمبولینس میت گاڑی سے کم نہیں۔ اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ڈرائیور اور اسٹریچر والی گاڑی کا نام ایمبولینس رکھ دیا گیا ہے، جس میں ڈاکٹر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ہیلپر۔ کئی ایمبولینس ڈرائیور نشے کے عادی ہیں، جبکہ وہ یہ تک نہیں جانتے کہ فرسٹ ایڈ کس چڑیا کا نام ہے۔ یہاں اکثر گاڑیوں میں آکسیجن سلنڈر بھی خالی ہوتے ہیں۔ اس طرح کی سروس کے مقابلے میں اگر میں ایمبولینس بنائوں تو تجھے کیا اعتراض! تُو اپنی نصیحتیں اپنے پاس ہی رکھ، مجھے خاصی دیر ہوچکی ہے، میرے ڈرائیور گاڑیاں لے کر آگئے ہوں گے، مجھے ان سے کیش کا حساب لینا ہے، لہٰذا چلتا ہوں۔‘‘
قارئین! کاروباری مشورے اور عمران کی باتیں سن کر اُس کے نظریے سے تو بے شک اختلاف کیا جاسکتا ہے، مگر اس کی جانب سے اٹھائے جانے والے نکات خاصے اہم ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں تعمیر شدہ مدارس ومساجد کی ایک بڑی تعداد ملکی قوانین اور حکمِ شریعت کے مطابق نہیں، اور یہ بات بھی درست ہے کہ زیادہ تر مدارس ومساجد کی تعمیر شرعی اور رائج قوانین کے تحت ہی کی جاتی ہے۔ ایسی تعمیرات جن میں شرعی قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا جائے، عمران جیسے لوگوں کو تنقید کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اسلام تو ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جب مسجد نبویؐ کی توسیع ہوئی تو اس کے لیے جگہ کی قیمت ادا کی گئی۔ جہاں تک ایمبولینس سروس کا تعلق ہے اس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسی ایمبولینسوں پر خاص طور پر نگاہ رکھی جائے جو علاقوں میں محض چندے کی غرض سے ہی دکھائی دیتی ہیں۔ حکومتی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے ہی معاشرے میں ابھرتی اس سوچ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے جسے نہ جانے کتنے عمران اپنا نظریہ بنائے بیٹھے ہیں۔
حمنہ کمرے کا دروازہ بند کیے اندر بیٹھی تھی۔ اس نے

حصہ