بیادِ رسا چغتائی

303

سیمان کی ڈائری
بہت بار قلم اٹھا کر لکھنے کی کوشش کی اور ہر بار رساچغتائی صاحب کا نام سامنے آنے پر یقین ہی نہیں آتا کہ واقعی وہ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ دل اس بات کو ابھی تک ماننے سے انکاری ہے۔ابھی کل ہی کی توبات تھی جب اجمل بھائی کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تھاتووہاں رسابھائی، اجمل بھائی کے بڑے بھائی سید مہرالدین افضل اور فیصل شبیہ بھی موجود تھے۔ رسا بھائی اس روز گفتگو کم کر رہے تھے اور مسکرا زیادہ رہے تھے۔ میں نے سبب پوچھا تو کہنے لگے میں ہر حال میں خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کس کو خبر تھی کہ اردو کانفرنس سے کچھ ہی دن پہلے کی ہماری ملاقات آخری ملاقات ہوگی ۔ کئی دوستوں نے درخواست کی تھی کہ اُن کی کتاب پر رسا بھائی کچھ لکھ دیں ۔رسا بھائی کہنے لگے مجھے تو کچھ بھی لکھنا نہیں آتا۔تم خود ہی لکھ دو، سمجھو میں نے لکھاہے ۔یہ کہہ کر مسکرا دیے۔وہ دن بھی آگیا جب اُن کے انتقال کی خبرملی۔مَیںاُن کے جنازے میں بھی شامل رہا۔بار بار انھیں دیکھا۔ایسا لگ رہا تھا وہ مسکرا رہے ہیں۔بالکل ویسی ہی مسکراہٹ جو اُس روز میں نے اُن کے چہرے پر دیکھی تھی۔ کیا جانے کی خوشی تھی رسابھائی؟؟ اب توآپ کے چہلم کو بھی کئی دن گزر گئے۔ سب کچھ دیکھنے کے باوجود دل کو ابھی تک یقین نہیں آتا۔
میرزا محتشم علی بیگ رسا چغتائی اردوکلاسیکل غزل کے آخری بڑے شاعرتھے۔ درویشی اور سرشاری اُن کی سرشت میں شامل تھی جیسے آج کل لوگوں نے اوڑھی ہوئی ہے۔رساچغتائی اپنی طرز کے شاعر تھے۔ان کی شاعری میں جدت اور روایت کے امتزاج سے ایک نیا اسلوب قائم ہوا۔ اُن کے جانے کے بعد اردو کلاسیکی شاعری میں بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے جو تادیر رہے گا۔ رسا چغتائی چھوٹی بحروں میں بڑی سے بڑی بات سہولت سے کہنے کا ہنر جانتے تھے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اُن کا اسلوب جون ایلیا کے اسلوب سے مماثلت رکھتا ہے ۔ایسا نہیں ہے۔جون ایلیا اور رسا چغتائی اردو کے اہم شعرا ہیں لیکن دونوں کے شعری تصورات جدا جدا ہیں ۔کراچی جیسے بڑے صنعتی شہر میں جہاں ہر طرف تیز رفتار بھاگتی دوڑتی زندگی دکھائی دیتی ہے ۔نفسا نفسی کا عالم ،ہر کوئی زیادہ کمائی کے چکر میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں ایک درویش کورنگی کے علاقے میں دنیا کے سارے معاملات جانتے ہوئے سب سے بے نیاز شعر لکھنے میں مصروف ہے۔کسی نے یاد کر لیا تو بھلا اُس کا، نہ یاد کیا توبھی بھلا اُس کا ۔کسی نے مشاعرے میں بلا لیا تو خاموشی سے چلے گئے۔نہیں بلایا تو بھی خوش رہے ،کسی سے گلا نہیں کیا۔ رسا بھائی نے پوری زندگی اپنے حلقے میں گزار دی، اُسی میں جیے۔بڑوں کا ادب تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن رسا بھائی نے نواسے نواسیوں، پوتے پوتیوں کے عمر کے بچوںتک کو محبت اور احترام دیا۔اُن کی حوصلہ افزائی اور شفقت فرماتے تھے۔مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولتا جب میں پہلی بار اُن سے ملنے گیا تو وہ سخت گرمی اور بخار کے عالم میں مجھے لینے اپنے گھر سے بس اسٹاپ تک آئے۔ رساچغتائی صاحب کی زندگی کے بے شمار پہلوایسے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔لکھنے والے کے لیے اُن کی شخصیت اور اُن کی شاعری ،یہ دو موضوع بہت اہم ہیں ۔ میں اس سے زیادہ اور کیا کہوں کہ وہ اپنی ذات میں خودٹھنڈے پانی کا چشمہ تھے، جس سے ہم جیسے پیاسے برسوں تلک سیراب ہوتے رہیں گے۔ انہیں مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
دنیا بھر میں جہاں بھی اردوبولی ،سمجھی جاتی ہے اور ادبی حلقے موجود ہیں ، وہاں رساچغتائی صاحب کی یاد میں تعزیتی ریفرنسز منعقد کیے گئے ۔ بحرین کے ادبی حلقے نے بھی ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا ۔ معروف شاعر ڈاکٹر باقر رضا جو اَب آسٹریلیا میں ہی سکونت اختیار کرچکے ہیں۔ اُن کا پاکستان سے جانا بھی میری نظر میں کسی المیے سے کم نہیں۔ اتنے معصوم انسان اور مسیحا کی بھلا کس سے دشمنی ہو سکتی ہے ؟ یقینی طور پر کسی سے نہیں کہ اُنہیں دہشت گردوں نے اُنہی کے کلینک پر گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ سے بڑابچانے والا کوئی نہیں ہے۔ وہی زندگی لیتا اور دیتا ہے۔ ڈاکٹر باقر رضا صاحب کئی روز تک اسپتال میں رہے ۔آپریشن کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں نئی زندگی عطا کی اور وہ اپنے شہر کو چھوڑ کر آسٹریلیا چلے گئے۔ فیس بک پر اُن کی پوسٹ کی وساطت سے ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں وہاں کے ادبی حلقے نے انہیں یاد کیا اور گفتگو کی۔کراچی میں بھی حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس کے علاوہ کراچی آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ’’بیادِ رسا چغتائی‘‘ کے حوالے سے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس تعزیتی ریفرنس کی نظامت جناب اجمل سراج نے کی۔ شخصیات میں جناب سحر انصاری، جناب افتخار عارف، جناب احمد شاہ، جناب خواجہ رضی حیدر، شاہد رسام، علاء الدین خانزادہ ہمدم، سلمان پیرزادہ، انور انصاری، سرور جاوید اور ریحانہ روحی کے علاوہ ایک اور صاحب نے رسا چغتائی صاحب کے فکرو فن کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا۔ رسا بھائی کی صاحب زادی نے بھی اپنے والد کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کیا ۔ سحرانصاری صاحب نے اپنے اظہارِ خیال میں کہا کہ ہمیں تعزیتی ریفرنس تک ہی رسا صاحب کو محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ آئندہ میں رساصاحب کے فکروفن کے حوالے سیمینارمنعقد ہونا چاہیے اور اُن کی شاعری کی مکمل کلیات چھپنی چاہیے۔ احمد شاہ صاحب نے یقین دلایا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اُن کی کتاب ضرور شائع کرے گا۔ تعزیتی ریفرنس میں رسا چغتائی صاحب کی نواسی مہک نے رسا بھائی کی غزل گائی اور سما باندھ دیا۔ رسا بھائی اپنی اس نواسی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ مہک چونکہ نابینا ہیں، وہ اس بچی کے مستقبل کے لیے فکرمند نظر آتے تھے۔ یہ صدمہ اس بچی کے لیے کتنا بڑا سانحہ ہوگا؟ میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بچی اور اس کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے‘ اس بچی کی عمر دراز کرے اور اُس کی آواز دنیا کے کونے کونے تک پھیلے۔ آمین۔
رسا چغتائی پاکستان کی پہلی شعری نسل سے تعلق رکھنے والے اہم شاعرہیں جنھوں نے سنجیدگی اور تازہ کاری کے ساتھ شعر لکھنے کا آغاز کیا ۔ وہ آخری دم تک اسی تخلیقی بصیرت اور تازہ کاری اور سنجیدگی کے ساتھ شعر لکھتے رہے۔ رسا چغتائی کے معاصر شعرا اور اُن کے بعد آنے والی تین نسلوں نے ان کی شاعری کو پسندیدگی اور رشک کی نگاہ سے دیکھااور آج بھی نئی نسل اُن کے شعری رویے کو اپنے شعری سفر کے لیے مثالیہ تصور کرتی ہے۔

غزلیں

فیض عالم بابر

معمولی بے کار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
مجھ کو اک آزار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
پاگل پن میں آ کر پاگل کچھ بھی تو کر سکتا ہے
خود کو عزت دار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
ہنس پڑتا ہوں جب کوئی حالات کا رونا روتا ہے
جیون کو دشوار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
میں واقف ہوں رنگوں کی ہر رنگ بدلتی فطرت سے
رونق کو بازار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
مجنوں اور شاہوں میں کچھ دن میں بھی اٹھا بیٹھا ہوں
صحرا کو گل زار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
منزل کی خواہش ہے جن کو آئیں میرے ساتھ چلیں
رستوں کو ہموار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
آنچل اور ملبوس پہ جن کی آنکھیں چپکی رہتی ہیں
ان کو با کردار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں
فیض عالم بابر تو خود بھی یار ہے جانے کس کس کا
یاروں کو مکار سمجھنے والے مجھ سے دور رہیں

عینی زا سید

کوئی رسوائی کا ساماں نہیں ہونے دیتی
اپنے جذبوں کو میں عریاں نہیں ہونے دیتی
فاصلوں میں بھی میں رکھتی ہوں توازن قائم
قربتوں کو بھی پشیماں نہیں ہونے دیتی
میں کبھی حد سے گزرنے نہیں دیتی اس کو
اور کبھی خود سے گریزاں نہیں ہونے دیتی
سو جتن کر کے میں رکھتی ہوں بندھائے ہوئے آس
اس کو رنجور و پریشاں نہیں ہونے دیتی
مٹنے دیتی نہیں آنکھوں سے شناسائی کا رنگ
آئنے کو کبھی حیراں نہیں ہونے دیتی

نعیم الدین نعیم

فرصت ملے ‘ ملو کبھی آ کے قریب سے
ہم جیسے لوگ ملتے ہیں یارو نصیب سے
تخریب ہو رہی ہے ترقی کے نام پر
ہوتے ہیں واقعات عجیب و غریب سے
خوشبو کا کوئی جھونکا ہوا کے ہو دوش پر
گزرا ہے کوئی ایسے ہمارے قریب سے
تم جو ملے ہو آج یقیں آ گیا ہمیں
جوڑے بنا رہا ہے کوئی تو نصیب سے
سونپی تھی باگ ڈور جنہیں ملک و قوم کی
افسوس مل گئے ہیں وہ جا کے رقیب سے
سودا جو ملک و قوم کا کرتے ہیں بے دریغ
رہبر ملے ہوئے ہیں ہمارے رقیب سے
ہم کو ملے نعیم ہیں ویسے ہی حکمراں
جیسے ہمارے لوگ عجیب و غریب سے

حصہ