قدسیہ ملک
انسانوں کے باہمی تعلقات میں میاں بیوی کا تعلق نہایت اہم تعلق ہے۔ اسلام نے اس چولی دامن کے ساتھ کے متعلق بھی نہایت صاف صاف ہدایتیں فرمائی ہیں۔ اسلامی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی پوری خیرخواہی اور فرماں برداری کرے اور اس کی امانت میں کسی طرح کی خیانت نہ کرے۔ اسی طرح شوہر پر بھی لازم کیا گیا ہے کہ وہ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ بھلائی اور درگزر والا سلوک رکھے اور اس کی چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر بڑی اور سخت سزا سے اجتناب برتے۔ ہم یہاں کچھ آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویؐ پیش کریں گے تاکہ عوام الناس کے لیے رہنمائی کا باعث بن سکیں۔ قرآن شریف میں ارشاد ہے:’’پس نیک عورتیں فرماں بردارہوتی ہیں اور شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی امانت کی حفاظت کرتی ہیں‘‘ (النساء:34)۔ شوہروں کو اسلام کا حکم ہے کہ وہ بیویوں سے محبت کریں اور اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق اچھا کھلائیں، اچھا پہنائیں اور ان کی دلداری میں کمی نہ کریں۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بیوی کے ساتھ اچھا سلوک رکھو۔‘‘ (النساء:19)
ایک اہم موقع پر مسلمانوں کے بہت بڑے اجتماع میں خاص مردوں کو خطاب کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’میں تم کو عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی خاص طورسے وصیت کرتا ہوں، تم میری اس وصیت کو یاد رکھنا، دیکھو وہ تمہاری ماتحت ہیں اور تمہارے بس میں ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں، اور اپنی گھر والیوں کے ساتھ جن کا برتاؤ لطف ومحبت کا ہو۔‘‘ (ابن ماجہ)
اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ المیہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ میاں بیوی کی باہمی ناچاقی سے لڑائی جھگڑوں اور طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے، بلکہ باہمی قتل و غارت آج کل عام دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کچھ تو ایسے بدبخت ہوتے ہیں کہ وہ اپنی لڑائی کی پاداش میں اپنے بچوں، بیویوں، اور بیویاں شوہروںکو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ پھرمسلمان اورکافر ایک طرح کا عمل کرتے ہیں، جو کبھی کبھی انسانیت کے معیار سے بھی گرجاتا ہے۔ ایسی خبریں ہمارے معاشرے میں بھی آئے روزگردش کرتی رہتی ہیں۔ پچھلے ہفتے یہ خبر آئی کہ مٹھی کی رہائشی 22 سالہ ریشمان بھیل کو گھوٹکی میں شوہر نے کلہاڑی کے وار کرکے قتل کردیا، جب کہ ملزم فرار ہوگیا۔ یہ سب اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہے، یا پھر علم ہونے کے باوجود کوتاہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یورپ میں تو اس طرح کے عمل تواتر کے ساتھ ہورہے ہیں۔ واشنگٹن امریکا کی 22 فروری 2018ء نیوز آن لائن کے مطابق امریکی ریاست مشی گن کی معروف ماڈل نے اپنے شوہر اور بچوں کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق خاتون کی دوست نے بتایا کہ ’’میرے لیے یقین کرنا مشکل ہے، 45 سالہ لورین سٹیارٹ نے انتہائی بے دردی کے ساتھ اپنی فیملی پر فائرنگ کردی اور پھر اپنی جان لے لی جسے پولیس نے خودکشی قرار دیا ہے‘‘۔ لورین اور اس کی فیملی کیگو ہاربر کے علاقے میں اپنے گھر میں اُس وقت مُردہ پائی گئی تھی جب ان کے ایک عزیز کے فون پر پولیس موقع پر پہنچی تھی۔ فری پریس کے مطابق مرنے والے اس کے دونوں بچے کالج میں زیر تعلیم تھے جبکہ لورین کے لنکڈ ان پیج کے مطابق وہ ایک ماڈل تھی اور جز وقتی طور پر پرسنل ٹرینر کی خدمات بھی فراہم کرتی تھیں۔ مرنے والے تمام افراد کے سر میں گولیاں ماری گئی تھیں جبکہ ایک بندوق بھی موقع سے برآمد ہوئی۔
پاکستان میں بھی اب آئے روز اس طرح کے واقعات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں غیرت کے نام پر بیوی نے کلہاڑی کے وار سے شوہر کو قتل کردیا۔ شوہر کے کسی دوسری عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔
جیل کا یہ واقعہ بھی ایسے ہی ایک معاشرتی ناسور کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ہم معمولی ردوبدل کے ساتھ جیل میں قید خدیجہ کی کہانی سنارہے ہیں۔
آج سے تقریباً آٹھ سال پہلے شاہ فیصل کالونی کی ایک عورت کا قصہ بہت مشہور ہوا تھا، جو اپنے شوہر کا سالن بناتے ہوئے اہلِ محلہ کی شکایت پر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوئی تھی۔ عام لوگ بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ اس نے اپنے شوہر کا سالن بنایا تھا۔ واقعے کے اصل محرکات کیا تھے؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔ وہ ایک عام سی عورت تھی۔ سرائیکی تھی۔ گھروں میں کام کاج کرکے اپنا اور اپنی بچی کا پیٹ پال رہی تھی۔ بچی کے 14 سال مکمل ہونے پر اس نے ایک رکشہ ڈرائیور سے دوسری شادی کی تھی۔ اس کے سامنے جب کہا جاتا کہ مرد عورت کے حقوق اور اس کی عزت کا رکھوالا ہوتا ہے تو وہ کہنے والوں کو ہمیشہ عجیب سی نظروں سے دیکھتی۔ کیونکہ اس کی زندگی میں آنے والے دونوں ہی مرد ان تمام خصوصیات سے عاری تھے۔ وہ اپنے شوہر کے قتل کے جرم میں جیل میں تھی۔ پہلے شوہر سے خلع لیا تھا۔ دوسری شادی کے بعد بھی اسے وہ سُکھ نصیب نہ ہوسکا جس کی وہ حق دار تھی۔
اس نے دوسری شادی جس مرد سے کی تھی وہ اس سے چھوٹا تھا، اس کی عمر شادی کے وقت 40 سال تھی جبکہ سلیم اُس وقت 25 سال کا تھا۔ وہ اس کے مسلسل پیچھے پڑا ہوا تھا کہ خدیجہ اس سے شادی کرلے۔ پہلے وہ سلیم کو مسلسل انکار کرتی رہی، لیکن آخر کب تک! اسے بھی ایک سہارے کی ضرورت تھی۔ بالآخر وہ مان گئی۔ پہلی شادی بچی سے شوہر کے ناروا سلوک اور ذہنی و جسمانی زدوکوب کے باعث زیادہ نہ چل سکی۔ وہ اب اپنی بیٹی کے ساتھ باقی زندگی سکھ چین سے گزارنا چاہتی تھی۔ لیکن سلیم جو اس کے محلے ہی میں رہتا تھا، کے مسلسل اصرار اور بچی کی کفالت کی پوری ذمہ داری کی یقین دہانی پر خدیجہ سلیم سے شادی پر آمادہ ہوگئی۔
شادی کے بعد کچھ دن تو بہت اچھے گزرے۔ بیٹی بھی بہت خوش تھی، کیونکہ اس نے باپ کی محبت کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا۔ شادی کے تقریباً سال بھر بعد اس کا شوہر سلیم آمدنی میں کمی کی شکایت کرنے لگا اور خدیجہ سے اصرار کیا کرتا کہ وہ بھی اس کا روزی میں ہاتھ بٹائے، وہ بھی کام پر جایا کرے جس طرح شادی سے پہلے جایا کرتی تھی۔ بالآخر خدیجہ نے بھی کام پر جانا شروع کردیا۔ وہ پرانے گھر دوبارہ ڈھونڈنے لگی تاکہ قابلِ بھروسا اور قابلِ اعتماد لوگ مل جائیں۔ وہ اور اس کا شوہر صبح 10 بجے ناشتا کرکے کام پر نکلتے اور پھرشام تک واپس آجاتے۔ خدیجہ کوشش کرتی کہ وہ سلیم کے آنے سے پہلے کام پر سے واپس آجائے، کیونکہ اس کی بیٹی گھر میں اکیلی ہوتی تھی۔
کچھ دنوں سے اس نے محسوس کیا کہ اس کی بیٹی حمنہ کچھ ڈری ڈری سی تھی۔ خدیجہ کے پوچھنے پر اس نے کوئی جواب نہ دیا، بلکہ الٹا اس کی پرانی یادیں تازہ کرنے لگی جب وہ دونوں اکیلی رہتی تھیںے۔ خدیجہ بھی اس کی ہر خواہش پوری کرتی تھی۔ وہ اپنی ماں سے بہت کچھ کہہ دیتی تھی، اس لیے خدیجہ کو اندازہ نہ ہوسکا کہ حمنہ کچھ پریشان ہے۔
کچھ ہفتوں بعد خدیجہ کے کام والے گھروں میں سے ایک گھر میں میں میت ہوگئی۔ وہ بہاولپور کے رہنے والے تھے۔ مرحوم کی آخری خواہش کے مطابق وہ سب گھر والے میت لے کر پنجاب چلے گئے۔ خدیجہ کی اب جلدی چھٹی ہونے لگی۔ پہلا دن تھا، وہ جب جلدی گھر پہنچی تو سلیم کو دروازے پر پایا۔ اس کے پوچھنے پر سلیم نے بتایا کہ وہ اپنا بٹوہ بھول گیا تھا۔ اس کے بعد وہ گھر میں داخل ہوئی۔ اس کی بیٹی حمنہ کمرے کا دروازہ بند کیے اندر بیٹھی تھی۔ اس نے دروازہ بجایا تو حمنہ نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا کون ہے؟ خدیجہ نے کہا: بیٹی دروازہ کھولو۔ حمنہ نے جلدی جلدی دروازہ کھولا اور اس کے گلے لگ کر رونے لگی۔
وہ آخر ماں تھی، بیٹی کے جذبات سمجھ چکی تھی۔ لیکن ابھی وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھی۔ پھر آئے روز یہی ہونے لگا۔ وہ جب بھی گھر پہنچتی، سلیم کو وہاں موجود پاتی۔ اسے اپنے پرانے محلے والوں سے یہ بھی پتا چلا تھا کہ اس نے خدیجہ سے شادی حمنہ ہی کی وجہ سے کی ہے۔
یہ سوچ کر وہ اور افسردہ ہوگئی تھی۔ لیکن کسی بھی طرح وہ اپنے خدشات کو سچ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اب آئے روز یہی ہوتا تھا۔ وہ جب گھر آتی، سلیم کو یہاں موجود پاتی۔ اور حمنہ کمرے کا دروازہ بند کیے، خوفزدہ سی اس کے آنے کا انتظار کررہی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی وہ سوچتی کہ اس نے شادی کرکے غلطی کی۔ کبھی سوچتی کہ وہ اپنی بیٹی کو لے کر کہیں دور بھاگ جائے۔
اب سلیم بہت دلیر ہوگیا تھا۔ وہ جب گھر آتی، سلیم کو ہی موجود پاتی۔ وہ خدیجہ کو دیکھ کر خاموشی سے گھر سے رکشہ لے کر نکل جاتا۔ اس دن بھی وہ کام سے واپس آئی تو سلیم کو موجود پایا۔ خدیجہ کی برداشت کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا تھا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، قریبی پڑا موٹا ڈنڈا سلیم کے سر پر اس زور سے مارا کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ وہ پہلے ہی غصے سے بھری بیٹھی تھی۔ اس نے اسی ڈنڈے سے مار مار کر سلیم کا بھرکس نکال دیا۔ اب لاش کو چھپانے کا مرحلہ آیا۔ وہ اتنی بھاری لاش کو کہاں چھپاتی! کچرے کے کسی ڈھیر پر پھینک نہیں سکتی تھی، کیونکہ تمام اہلِ محلہ رکشہ ڈرائیور سلیم کو جانتے تھے۔
یہی سوچتے سوچتے صبح ہوگئی۔ بالآخر اسے ایک ترکیب سوجھ ہی گئی۔ اس کی بیٹی حمنہ ابھی تک کمرے کا دروازہ بند کیے اندر خوفزدہ بیٹھی تھی۔ خدیجہ نے جلدی جلدی سلیم کی لاش کے ٹکڑے کرنا شروع کیے۔ گوشت کو ہانڈی میں ڈالا اور ہڈیاں جمع کرکے بڑے بورے میں ڈال دیں۔ پھر ہانڈی میں سالن بنانے لگی تاکہ خراب سالن کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دے اور ہڈیاں مختلف جگہوں پر ڈال دے۔ لیکن رات سے مُردہ پڑی لاش کی بدبو نے اہل محلہ کو خبردار کردیا۔ آئے روز اس کے ہاں سے ویسے بھی لڑائی جھگڑے کی آوازیں آتی تھیں۔ اہلِ محلہ نے پولیس کو اطلاع دی۔ خدیجہ موقع واردات سے پکڑی گئی۔ اس کے پاس سے آلہ قتل اور ہانڈی میں لاش کی بوٹیوں سمیت وہ بوری بھی برآمد ہوگئی جس میں اس نے ہڈیاں رکھی تھی۔
وہ اپنے جرم کا اقرار کرچکی تھی۔ وجہ بھی اس نے وہی بتائی جو حقیقت تھی۔ جیل میں خدیجہ کی ویمن ایڈٹرسٹ کی جانب سے کونسلنگ کی گئی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے مجرم کو خود اپنے ہاتھوں سے موت کی سزا دی تھی، جو کہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت جرم تھا۔ اس کو جرم کی سنگینی کا احساس تھا۔ اس کی بیٹی بالکل اکیلی تھی۔’’ویٹ‘‘کی جانب سے حمنہ کو اس کے عزیزوں کے قریب رکھا گیا تاکہ وہ اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہ کرے۔