حفصہ شریف
اَلاَ بذکراللّٰہِ تطمئن القلوب… بارہا یہ آیت پڑھی لیکن اس کا مفہوم جیسا اب سمجھ میں آیا، پہلے نہ آیا تھا۔ یہ اللہ ربِ العزت کا خاص انعام ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ بوجھ اور علم کے حصول کے لیے جامعۃ المحصنات لے آیا۔ جامعہ آنے کے بعد ایک پیاری سی ساتھی کا پیارا سا جملہ بہت پسند آیا کہ اللہ نے آپ کو اپنے دین کے لیے چُن لیا ہے۔ شروع میں یہ بات سمجھ میں نہ آئی لیکن اب آہستہ آہستہ سمجھ میں آنے لگی ہے۔ اس حوالے سے بہت سے دلچسپ تجربات ہوئے۔ خصوصاً جب تفسیر کا پیریڈ ہوتا تو ہم پر اللہ کا خصوصی کرم نازل ہونا شروع ہوجاتا… سیکنت کا وہ ماحول بنتا کہ کیا کہنے…!! ہم تصور ہی تصور میںجنت کے خیالوں میں گم ہوجاتے۔ اِدھر تفسیر کا پیریڈ شروع ہوا اُدھر ہم چل دیئے جنت کی سیر کو… لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم نہ ہو اُس کا عملی مشاہدہ نہیں ہوسکتا، تو اسی لیے ہماری مخلص ترین ساتھی طالبات ہمیں گردن سے پکڑ کر واپس کلاس میں لے آتیں کہ محترمہ پہلے ٹیچر کی بات سن لیں پھر جنت کی سیر کرلیجیے گا… اور ہم آنکھیں مَلتے اور منہ بسورتے ہوئے واپس کلاس میں آجاتے جہاں معلمہ نہایت پُرسوز آواز اور مسحورکن انداز میں طالبات کو اللہ سے ملاقات کے طریقے سکھا رہی ہوتیں۔ چونکہ ہم توجنت سے کھینچ کر لائے گئے تھے، دوبارہ جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ پیریڈ ختم ہوگیا اور کلاس سے ٹیچر چلی گئیں۔ بس پھر تو سلسلہ ہی چل نکلا کہ تفسیر کا پیریڈ شروع ہو تو جنت کی سیر کے مزوں کے ساتھ ساتھ اللہ کے ڈراوے آتے تو ہم دہل جاتے اور رجوع الی اللہ کی کوشش کرتے، کیوں کہ جنت اور جہنم اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے کہتا ہے:
(ترجمہ)’’اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوش خبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں‘‘
(سورۃ البقرۃ 25)
جنت کی خوش خبری کے ساتھ جنت کے حق داروں کے لیے جو ایک بڑی شرط بیان کی گئی وہ نفس پر گرفت ہے…’’جس نے اپنے نفس کو اپنی مٹھی میں کر لیاوہ فلاح پاگیا‘‘… اور جہنم کی ہولناکیوں کا ذکر ہوتا تو دل دہل جاتا اور اپنے گناہوں پر شرمندگی ہوتی، اور یہ بات ہم جانتے ہیںکہ جنت میں جانے کے لیے اچھے اعمال کا کثیر ذخیرہ درکار ہوتا ہے تاکہ روزِ قیامت اچھے اعمال کا پلڑا خطاؤں کے پلڑے کے مقابلے میں جھکا ہو، بس یہی سوچ کر ہم دوبارہ کلاس میں آتے اور واقعتا جنت میں جانے کے طریقے سیکھنے شروع کردیتے،جس کی شروعات نفس کی پیروی سے بچنے کی صورت میں ہوتی۔
یقینا بہت قابلِ احترام ہیں وہ لوگ جو ہمیں ہماری اخروی زندگی کے حوالے سے آگاہ کرتے اور شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔میری جامعہ تیرا شکریہ۔